احترامِ رمضان

رمضان کا مبارک مہینہ رحمتوں، برکتوں، مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کے پیغامات لیے اور صدائیں لگاتے ایک بار پھر ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اُس نے ہمیں ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر رمضان کی مبارک ساعتیں عطا کر کے ہمیں خود کو بخشوانے کا موقع دیا ہے۔ ورنہ کتنے ہی ایسے تھے جو پچھلے رمضان میں ہمارے درمیان تھے اور آج منوں مٹی میں سو رہے ہیں۔ اللہ کریم تو اِس ماہِ مبارک میں اپنے بندوں کی بخشش کیلیے لوٹ سیل کا اہتمام کرتے ہیں، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس لوٹ سیل سے کس درجہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو پورا ماحول اور فضا پُرنور سی محسوس ہوتی تھی۔ سحری اور افطاری کے اوقات میں ایک خاص قسم کا نورانی سحر محسوس ہوتا تھا جیسے کائنات میں موجود ہر چیز سحری اور افطاری کی برکات سمیٹنے میں مصروف ہو، ایسا شاید اس لیے بھی تھا کہ اُس وقت صرف ایک ہی ٹی وی چینل پی ٹی وی کے نام سے چلتا تھا اور آج کے بیسیوں چینلز کے مقابلے میں بالکل شریف سا چینل ہوتا تھا جو سحری اور افطاری کے اوقات کی برکات میں قطعاً رکاوٹ نہ ڈالتا تھا، نمازوں کے اوقات میں اور خاص طور پر فجر، مغرب اور تراویح کی نماز کے وقت محلے کے بچے اپنے اپنے ابا حضرات کی انگلیاں تھامے ٹولیوں کی صورت مسجد کو جاتے۔ لیکن اب نہ وہ محلے رہے اور نہ وہ نورانی سحر میں ڈوبی سحریاں اور افطاریاں، اب تو سب کچھ کارپوریٹ کلچر اور شتر بے مہار میڈیا کی چکاچوند کی بھینٹ چڑھ گیا ہے، حتی کی ہماری عبادات بھی۔
رمضان کا مہینہ انتہائی ادب اور احترام کا متقاضی ہے۔ بچپن کے جس رمضان کا ذکر میں نے کیا اُس میں تو ہر کوئی خود ہی ادب اور احترام میں ڈھل جاتا تھا لیکن اب خود سمیت سب کو یاددہانی کروانا اور توجہ دلانا پڑتی ہے۔ رمضان کے احترام کا ایک تقاضا تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھنے کیلیے اقدامات کی جدوجہد کی جائے، لیکن جب تک ایسا نہیں ہو پاتا تب تک ایک دن پہلے روزہ رکھنے والوں کو اسی طرح مبارکباد دی جائے جیسے باقی عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو دی جاتی ہے اور قطعاً کسی قسم کی تضحیک اور تحقیر کا رویہ اپنانے کی بجائے ناصحانہ رویہ اپنایا جائے۔ رمضان کے احترام کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اِس کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے اپنے مسلک کی برتری ثابت کرنے کیلیے آٹھ اور بیس تراویحوں کی بحث میں پڑ کے عام مسلمانوں کو کنفیوژ کرنے کی بجائے جس کو آٹھ رکعات پڑھنا ہیں وہ آٹھ پڑھے اور جسے بیس پڑھنا ہیں وہ بیس پڑھ لے، دونوں طرح کی روایات احادیث سے ثابت ہیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کی عبادات کو مشکوک کرنے کی بجائے خوشدلی سے ایک دوسرے کے مسلکی نظریات کا احترام کیا جائے۔
رمضان کے احترام کے سلسلے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ روزہ دار کے روزے کا بھی احترام کیا جائے اور اُس کے سامنے کھانے پینے سے اجتناب برتا جائے۔ روزہ یقیناً اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن اور فرض ہے لیکن ظاہر ہے کہ اِس کے ساتھ یہ بندے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ بھی ہے، اِس لیے کسی کو روزہ رکھنے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا تاہم روزہ نہ رکھنے والوں کو روزے اور رمضان کا احترام نہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی جان بوجھ کر یا کسی ناگزیر وجہ کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ وہ پبلک مقامات پر جہاں زیادہ تر لوگ روزے سے ہوتے ہیں، وہاں کھانے پینے یا ایسی حرکات کرنے سے گریز کرے جس سے روزہ داروں کے روزے اور جذبات مجروح ہوں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کہ کیا لوگوں کے روزے اور ایمان اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ ذرا سے عدم احترام سے روزے مجروح ہونے لگیں، تو عرض ہے کہ بات ایمان اور روزے کی کمزوری یا مضبوطی کی نہیں بلکہ اصول، انسانیت اور احترامِ آدمیت کی ہے۔ ہمارے ایک دوست عرصہ دراز سے برطانیہ میں مقیم ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ جس دفتر میں وہ کام کرتے ہیں وہاں طویل عرصے تک اُن کے علاوہ کوئی اور مسلمان ملازم نہیں تھا، جب رمضان شروع ہوتا تو دفتر کا گورا اور “کافر”منیجر دفتر کا کچن گراؤنڈ فلور سے فرسٹ فلور پر منتقل کروا دیتا کہ جب لنچ کے اوقات میں سب کھائیں پئیں تو دفتر کے واحد مسلمان ملازم کا روزہ مجروح نہ ہو۔ میں خود بھی جب وہاں پڑھنے کی غرض سے گیا تو “کافروں” کی جانب سے مسلمانوں کے روزوں کے احترام کی کئی مثالوں کا مشاہدہ کیا۔ وہ لوگ مسلمان نہ ہو کر بھی ہمارے روزوں کا بحثیت مجموعی احترام کرسکتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں اپنے ہی ملک میں اِس احترام کو لاگو کروانے کیلیے احترامِ رمضان قانون کا سہارا کیوں لینا پڑتا ہے؟
اِس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہماری پاپولر سیاسی جماعتوں کے بعض مرکزی لیڈر بھی “ایسے”اسلام کو ماننے سے انکاری ہیں کہ جو اسلام رمضان میں سرِعام کھانے پینے سے روکتا ہو۔ اِسی ضمن میں ایک اور بات جو معاشرے میں رواج پا چکی ہے کہ رمضان میں اکثر لوگ گھر آئے مہمان سے پوچھتے ہیں کہ روزہ ہے یا نہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر روزہ نہیں ہے تو آپ کی خاطر مدارات کی جائے، رمضان کے مہینے میں ایسا پوچھنا ہرگز اخلاقیات کا تقاضا نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک ایسا پوچھنا بھی رمضان کی sanctity کے منافی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر آپ کسی کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہیں یا طویل سفر طے کر کے آئے ہیں تو خاموشی سے اُن کو الگ بٹھا کے کھلا پلا دیا جائے لیکن اِس بات کو عام رواج ہی بنا دینا کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔
رمضان کے احترام کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ رمضان ٹرانسمیشنز کے نام پر جاری طوفانِ بدتمیزی سے خود بھی دور رہا جائے اور اہلِ خانہ کو بھی روکا جائے۔ اینکرز کے نام پر مداری جس طرح ٹکے ٹکے کے انعامات کی لالچ دے کر عوام کو ذلیل کر رہے ہوتے ہیں، وہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے پروگرامات کا رمضان کے علاوہ بھی عمومی طور پر اور ماہِ رمضان میں خاص طور پر بائیکاٹ کیا جانا چاہیے اور ٹی وی چینلز مالکان اور پیمرا کے پاس مہذب طریقے سے احتجاج بھی ریکارڈ کروانا چاہیے۔
احترامِ رمضان اور روزے کی حقیقی روح کو پانے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے سحری اور افطار بوفے اور کھابے اڑانے سے بچا جائے۔ روزے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ صبح سے شام تک صرف اَس لالچ میں بھوکا رہا جائے کہ روزے کے اختتام پر چالیس پچاس ڈشیں اڑائیں گے۔ رمضان صبر اور ایثاروقربانی کا مہینہ ہے اور صبر اور ایثاروقربانی دونوں ہی اِس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ روزے کے حقیقی مقصد کو فوت کرنے والی ہر چیز سے دور رہا جائے۔ روزے کے اختتام پر چالیس پچاس مختلف النوع کھانوں سے روزہ افطار کرنے والے میں اور آپ کس طرح اُس غریب کے درد کو محسوس کر پائیں گے جو چند روپے نہ ہونے کے باعث اپنے گھر والوں سمیت سادی روٹی اور سادے شوربے سے بھی محروم رہتا ہے۔ اللہ نے آپ کو نوازا ہے تو ضرور اپنے گھر پر اچھی افطاری کیجیے، لیکن اپنی سحری اور افطاری کی برکات کو کارپوریٹ کلچر کی نذر کر کے محض بھوکے رہنے کی مشق نہ کیجیے۔
ایک اور انتہائی اہم بات یہ ہے جس کا تعلق احترامِ مسجد سے بھی ہے کہ خاص طور پر بڑی اور کھلی مساجد میں نمازِ تراویح کے وقت حضرات چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لیجاتے ہیں، اور بعض جگہوں پر مسجدوں کے اردگرد رہنے والے بچے خود ہی اکٹھے ہو کر مسجد چلے جاتے ہیں۔ تراویح کی نماز چونکہ لمبی ہوتی ہے اور چھوٹی عمر کے بچے اُس سے اُوب جاتے ہیں اور اکٹھے مِل کر شرارتیں کرنے اور ادھر ادھر دوڑنے بھاگنے لگتے ہیں جو مسجد کے احترام کے بھی منافی ہے اور اس سے نمازِ تراویح پڑھنے والوں کی توجہ بھی بٹ جاتی ہے اور اکثر پھر کسی کے روکنے ٹوکنے پر لڑائی جھگڑے کا بھی اندیشہ رہتا ہے لہٰذا حضرات کو چاہیے کہ وہ اتنی لمبی نماز میں یا تو بہت چھوٹے بچوں کو ساتھ نہ لائیں اور اگر لائیں تو صف کے ایک سائیڈ پر کھڑے ہوں جہاں بچے کو بھی ساتھ رکھ سکیں اور اگر نماز سے نکلنا بھی پڑے تو باقی نمازیوں کی عبادت میں خلل ڈالے بغیر آرام سے نکلا بھی جا سکے۔
گرمی کے موسم کے روزے طویل بھی ہوتے ہیں اور سخت بھی۔ ایسی صورت میں سارا سارا دن بستروں پر پڑے سوتے رہنا بھی احترامِ رمضان کے منافی ہے۔ روزہ رکھ کر روزے کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ خود روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اِس کے علاوہ بھی ضروری کاموں سے صرف اِس لیے بھاگنا کہ میرا تو چونکہ روزہ ہے لہٰذا میں فلاں کام نہیں کر سکتا، ایک نامناسب عمل ہے۔ روزہ انسان اپنی ذات کے فائدے کیلیے رکھتا ہے، کسی پر احسان نہیں کرتا لہٰذا بات بات پر جِتانا کہ میرا روزہ ہے، روزے کے ادب کے منافی ہے۔ اگر ہم خود ہی ذمہ دار مسلمان اور شہری کی حیثیت سے اِن سب باتوں کا خیال رکھنے لگ جائیں تو یقین جانئے ہمیں احترامِ رمضان نام کے کسی آرڈیننس، ایکٹ اور قانون کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ماہِ مبارک کی برکات کو اس کی صحیح روح کے مطابق سمیٹنے کی اور اس مہینے کا صحیح معنوں میں احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply