• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سانحات پر ردِعمل پر جوش اور پیشگی سدباب کے لئے ہوش وحواس سے کئے گئے فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے / اعظم معراج

سانحات پر ردِعمل پر جوش اور پیشگی سدباب کے لئے ہوش وحواس سے کئے گئے فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے / اعظم معراج

19اگست 2024
کیا مسیحیوں کو حکومتی ،ریاستی و دانشور اشرفیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ آگ کے دریا سے ہی گذرنا پڑے گا ۔؟۔ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے ۔۔۔ لیکن جب بھی کوئی سانحہِ جڑنوالہ جیسا واقعہ رونما ہوتا ہے ۔۔ اور پھر چند دن اس پر جذباتی ردعمل سامنے آتے ہیں ۔اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے تو بچپن کا دیکھا گیا
ایک ٹی وی ڈرامہ یاد آ جاتاہے ۔۔جس میں ایک انتہائی غریب خاندان کا واحد کفیل بیمار باپ مر جاتاہے۔۔ چند دن محلے والے کھانا دیتے ہیں۔مانگ تانگ کر ماں چار بچوں کو روکھی سوکھی کھلاتی ہے۔پھر بچہ بیمار ہوتا ہے۔کوئی علاج کے لئے قرضہ یا مدد بھی نہیں کرتا۔بچہ مرجاتا ہے۔محلے والے اچھے اچھے کھانے پکا کر لاتے ہیں۔۔ چند دن اچھے گزرتے ہیں۔ پھر وہ ہی بھوک افلاس کچھ دن بعد ایک اور بچہ بیمار پڑتا ہے ۔وہ سین لڑکپن میں دیکھا تھا آج تک ذہن میں چپکا ہے ۔۔ ۔۔ماں بیمار بچے کے ساتھ بستر پر بیٹھی ہے۔سب سے چھوٹا بچہ ماں سے معصومیت سے پوچھتا ہے ۔۔۔ “ماں یہ بھائی کب مرے گا ۔ماں ڈانٹ کر کہتی ہے۔۔۔ کالے منہ والے یہ کیا کہہ رہا ہے۔۔؟ ۔ بچہ معصومیت سے کہتا ہے ,ماں بھائی مرے گا تو چار دن اچھا کھانا ملے گا۔ “””یہ ہی حال پاکستان کے کمزور طبقات، خواتین، بچوں، بالعموم اقلیتوں اور بلخصوص مسیحو اور مظلوم ہندؤ دلتوں کا ہے ۔۔جب کوئی مائی مختاراں یا کوئی بھی حوا زادی ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔۔یا کسی رضوانہ کو زہریلی ناگن صفت ذہنی مریضہ ڈستی ہے ۔تو چار دن میڈیا شور مچاتا ہے۔ایسی مخلوق کا قلعع قمہ کریں گے اپنے بچوں کو سانپ خصلت بدمعاشیہ کے گھروں میں نہیں جانے دیں گے ۔۔ یوں حکومتی و ریاستی اداروں کے ذمداروں کے بیان آتے ہیں۔۔ ایسے گھناؤنے فعل کی اجازتِ نہیں دی جائے۔۔ ۔ میڈیا اسے خؤب اچھالتا ہے ۔۔لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں کو نوکری پر رکھنا ان سے ظلم وبربریت کا سلوک کرنا حکومتی و ریاستی اداروں کی اجازتِ کے بغیرِ جاری رہتا ہے۔۔ میڈیا خاموش ہو جاتا ہے ۔ دوبارہ پھر میڈیا وحکومتی یا سیاستی و ریاستی ادارے تب جاگتے ہیں ۔جب کوئی درندہ صفت کسی فاطمہ رانی کوتڑپا تڑپا کر مار دیتا ہے ۔۔ یا کوئی عندلیبِ کسی کی فرعونیت کا شکار ہوتی ہے۔۔ تو پھر چند دن شور مچتا ہے۔ پھر خاموشی۔۔۔یوں ریاستی کام این جی اوز والے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو ظاہر ہے . نہیں کرپاتے ۔چند کو چھوڑ کر باقی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی بدولت یا ردعمل میں جلد ہی مال بٹورنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ہماری 24کروڑ 14لاکھ 90ہزار کی آبادی والی اس ریاست میں تمام ہی کمزور طبقات کا یہ ہی حال ہے ۔۔لیکن مذہبی اقلیتوں کے حالات سب سے بدتر ہیں ۔۔سندھ واسیوں میں سے پسے ہوئے طبقات خصوصاً دلت ہندؤ کی بچیوں کے ساتھ زور زبردستی یا معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں جبری شادیوں اور جبری تبدیلی مذہب جیسے واقعات کا تو میڈیا اور معاشرے کے دیگر طبقات کو علم بھی کم ہی ہوتا ہے۔ ہر کچھ روز بعد کوئی نہ کوئی خودکشی ہوتی ہے ۔۔جس پر سوائے تھر کے چند درد دل رکھنے والے ہندؤ سماج سیوکوں کے علاؤہ کسی کی نظر ہی نہیں پڑتی ۔۔ پنجاب میں اقلیتوں میں مسیحی آبادی سب سے زیادہ ہے ۔۔وہاں آئے دن حساس قوانین کا سہارا لے کر بستیاں جلائی جاتی ہیں ۔۔خون بہایا جاتا ہے ۔۔ہاں مسیحو کو یہ فوقیت حاصل ہے۔۔ کہ انھیں قومی ؤ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ مل جاتی ہے ۔۔لیکن اسکی قیمت کے طور پر انھیں بستیاں جلوانا پڑتی ہیں ۔۔۔کئی بے گناہوں کی جانوں کی قربانی دینی ہوتی ہے ۔۔ وہ چاہے لاہور کے قریب گاؤں مٹہ میں جلائے گئے 1951 میں سات مسیحی کھیت مزدوروں کا واققہ ہو یا 1967میں گاؤں مارٹن پور پر پڑوسی 14 گاؤں کی چڑھائی کا واققہ ہو۔ یا پھر اسکے بعد تواتر سے دہرائے جانے والے ایسے ہی بے شمار واقعات مثلا 1997 شانتی نگر،2005سانگلہ ہل،2006 لاہور ,2008 کراچی ,2009گوجرہ،2011 ,گوجرانولہ 2013 جوزف کالونی لاہور,2014 ملتان ،2014 قصور2015 لاہور2016 لاہور ,2023 جڑانوالہ۔۔۔۔ ایسے واقعات کی ذیلی پیداوار بے تحاشہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔جو علاقے کے مسلمان اور باشعور مسیحی مذہبی سیاسی و سماجی شہریوں کی بدولت دب جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات کے بعد ملک کی اقلیتوں کی جو حالت ہوتی ہے ۔ وہ دنیا کا کوئی انسان پاکستان کا مسیحی شہری ہوئے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتا ۔۔مسیحو کی اجتماعی نفسیات پر ایسے المیوں کے بعد کے اثرات ناقابل بیان ہیں ۔۔ اوریہ ملک کے لاکھوں شہریوں کو معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلاء کردیتے ہیں ۔۔ یہ نقظہ بہت اہم ہے کہ یہ ایک انسانی المیہ بھی ہے یہ صرف ہزاروں سال سے انڈس ویلی میں ذات پات ،امیتازی ،سماجی رویوں کی بھینٹ چڑھتے دھرتی واسیوں کی موجودہ قابل فخر مسیحی شناخت رکھنے والے پاکستانی شہری ہی نہیں ۔۔ یہ خواتین، بچے اور سب سے بڑھ کر انسان بھی ہیں ۔۔ ایسے پاکستانی شہری ہیں۔۔ جو 14۔۔ آگست 6ستمبر ،23مارچ کو پاکستان میں تو کچھ کے خیال میں دنیا دکھاوے کے لئے سبز و سفید ہلالی پرچم اٹھائے خوشی سے نہال ہوتے ہیں ۔۔۔ لیکن دنیا بھر میں بغیر کسی معاشرتی دباؤ پاکستانی سفارتخانوں میں بھی جمع ہوکر اپنے اجداد کی سرزمین پر قائم ہونے والی اس ریاست کے استحکام کی دعائیں مانگتے ہیں ۔۔۔قدرتی وسائل سے مالامال بہترین تزویراتی اہمیت کی حامل ریاست آج ایسے ہی دیگر المیوں کی بدولت فکری ،سماجی ، معاشرتی اور معاشی انتشار کا ہے ۔اگر صرفِ اقلیتوں کے ایسے المیوں پر ہی ہماری دانشور ،ریاستی ،سیاسی اور مذہبی اشرفیہ سانحات ہونے کے بعد ردعمل دینے کی بجائے پیشگی سدباب کی کوشش کرے تو ایسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے ۔۔ مثلآ دانشور اشرفیہ (میڈیا کو ہی دیکھ لیتے ہیں) جیسے اخبارات میں بیٹ ہوتی ہیں ۔ یقینا چینلز میں بھی ہوتی ہونگی ۔اس میں اقلیتی بیٹ کا اضافہ کرلیں اور روز مرہ کے مسائل پر اقلیتوں کی آبادی کے حساب سے انھیں مین اسٹریم پرنٹ آور الیکٹرونکس میڈیا پر جگہ اور وقت دے تو اقلیتوں کی پاکستانی معاشرے میں موجودگی کا احساس اس سبق کے ساتھ دلائیں کے ان پانچ فیصد کے قریب لوگوں کے اجداد ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں ۔۔ اور اس سماج کی تاریخی بنت ایسی ہے کہ یہ کبھی بھی مونو ریلجیس سماج نہیں بن سکا ہے ۔۔اور نہ کبھی بنے گا۔۔۔۔کیونکہ نہ تو یہ سارے ہجرت کرسکتے ہیں۔۔۔ نہ ہی یہ سب کنورٹ ہونگے۔البتہ ایسی کوشش میں یہ معاشرہ ریزہ ریزہ ہو کر فنا کی طرف جاسکتا ہے ۔۔ اس طرزِ پر اگر طویل المیعاد بامقصد منصوبہ بندی سے سندھ کے پسماندہ ہندؤں کے بلکل ہی حساس نوعیت کے درپیش مسائل پر مسلسل مکالمہ ہو تو ،غربت ،افلاس،جہالت اور ظلم کی چکی میں پسے ہوئے ان دھرتی واسیوں کے دکھوں کا دیگر اہل وطن کو بھی پتہ چلے۔۔تو تب میڈیا کی بدولت پھر مجبورا ریاستی وحکومتی اشرفیہ کا دھیان بھی اس طرف ہو ۔ اسی طرح مسیحی سماج کی باریکیوں کو بھی پاکستانی معاشرے کے اندر درپیش مسائل کی نوعیت بلکل فرق ہے ۔۔جو تفصیلی اور مستقل مکالمے کے متقاضی ہیں۔۔ جس میں سرفہرست انکے خلاف حساس قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ۔۔الیکٹرول سسٹم /انتحابی نظام پر عوام الناس کا ایک طرف اور سیاسی اشرفیہ کے حواری مسیحو کا ایک طرف ہونا ۔۔ (اس معاملےمیں تمام اقلیتوں کا مسلہ ایک ہے)۔ وزرارت شماریات اور الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار پر مسیحو کے اعداد و شمار پر شدید تحفظات ہونا ۔۔جنکی بنیاد حقائق پر بھی ہے ۔۔جنکی بدولت مزید غلط فہمیاں بھی جنم لیتی ہیں ۔مثلا وزارتِ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق 1951 کی مردم شماری میں مسیحو کی آبادی 432706تھی۔جو 1961میں 35فیصد بڑھ کر 583884 ہوگئی 1971میں یہ تعداد 55فیصد بڑھ کر 907861 ہوگئی ۔1981 کی مردم شماری میں یہ تعداد 44فیصد بڑھ کر 1310426 ہوگئی ۔1998کی مردم شماری میں یہ تعداد 60فیصد بڑھ کر 2092902 ہوگئی اس حساب سے مسیحو کی آبادی 47سال میں اوسطاً 48.5فیصد کے حساب سے بڑھتی رہی ۔۔ جس حساب سے اس آبادی کو اگر 2008 میں مردم شماری ہوتی تو یہ آبادی 3107959ہوتی۔۔ اس آبادی کو 2018میں 4615319 ہونا چاہیے تھا۔۔ لیکن پاکستانی تاریخ کی متنازع ترین افراد شماری جو 2008 اور پھر 2018کی بجائے 19سال بعد 2017میں ہوئی۔میں مسیحو کی تعداد 2642048دکھائی گئی ہے ۔۔میرے حساب کتاب میں غلطی ہوسکتی ہے۔ لیکن مسیحو کی آبادی جو 1998میں 2092902تھی 17سال میں بڑھ کر 2642048 ہوئی جب کہ ہندؤ آبادی جو 1998میں 2443614 تھی بڑھ کر 4444870ہوگئی ۔2017میں وزیر شماریات ایک مسیحی اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا سربراہ یا ممبر ایک ہندؤ پاکستانی تھا ۔۔ اس مسلے اور انتحابی نظام کے مسلے پر میں نے سیاسی ،دانشور ریاستی اور حکومتی اشرفیہ کے کلب کے ہر ممبر کو ان دونوں مسلوں کے علاؤہ دیگر ایسے ہی سماجی سیاسی ، معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی۔۔لیکن ہر طرح کی اشرفیہ پیشگی مسائل پر بات کرنے کی بجائے پاکستان میں اقلیتوں کے لئے مخصوص
دنوں۔ کرسمس ،ایسٹر ،دیوالی،ہولی پر مبارک کے لئے یا پھر سانحات کے انتظار میں ہوتی ہے ۔۔ جب کوئی واققہ ہوجاتاہے تو پھر ۔۔سب سے پہلے میں کا منترہ پڑھتے ہوئے سب کود جاتے ہیں ۔۔ حالیہ سانحہ جڑانوالہ کے آثار 16اگست کو الصبح سے ہی نظر آرہے تھے ۔ اور مسیحی سوشل میڈیا پر شدید نقصان کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔لیکن میڈیا کے لوگوں نے اقلیتوں کے لئے سانحات کے بعد کا جو وقت مقرر کر رکھا ہے ۔۔وہ ابھی ہؤا نہ تھا ۔ لہذا پیشگی ریاست کو آگاہی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔
اسی طرح ہندؤ سماج کے انتحائی حساس مسائل جن میں کمسن بچیوں کی تبدیلی مذہب، ہندؤں کی آبادی کے اعداد و شمار میں ہندؤ جاتی اور شیڈول کاسٹ پر دونوں گروہوں اور ریاستی وحکومتی اعداد و شمار پر نقطہ نظر میں زمین آسمان کا فرق ہونا۔۔ایوانوں میں نمائندگی کے طریقہ کار پر ان کے شدید تحفظات ۔۔ شادی بیاہ کی رجسٹریشن ،ودیگر ایسے ہی بے تحاشا مسائل ۔جب تک یہ سب مسائل میڈیا کے زریعے اجاگر نہیں ہونگے ۔ تو ریاست یا حکومت کے کانوں پر جوں کیسے رینگے گی ۔۔ آخر میں تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی اس ریاست کے تین آئینی مقننہ ،عدلیہ انتظامیہ آور چوتھے راوتیی ستون میڈیا کے ذمداروں سے گزارش ہے۔۔، کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں،سرد جنگ کے گرم محاذ کی بدولت ایک سپر پاور اور اسکے 60فیصد دنیا پر مشتمل اتحادیوں کی منظم ریاستی سرپرستی میں کی گئی، ہر طرح کی سرمایہ کاری سے بوئی گئی فصل کے اثرات اس دھرتی سے چند این جی اوز کے ملازمین، انگریزی پریس یا رحمدل مسلم علما اور غریب پادریوں کی کوشش سے زائل ہوسکتے ہیں۔تو اس سے بڑا فکری مغالطہ کوئی ہو نہیں سکتا ۔اس کے لئے منظم ریاستی و سیاسی عزم اور مثبت رویوں کے ساتھ صحیح سمت میں یکسو، متحرک، فعال معاشرے کی ضرورت ہوگی ۔۔جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ اول الذکر اسٹیک ہولڈرز یہ بھی دھیان میں رکھیں۔۔ کہ ایسے سانحات جہاں مسیحو کی نسلوں کو ایک نسل درنسل ٹراما میں دھکیلتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ایسے واقعات ملکی سلامتی پر بھی انتحائی مضر اثرات مرتب کرتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ سانحہ جڑانوالہ میں جس طرح پاکستانی قوم کی یہ مظلوم ماں بیٹاں اپنے جلے ہوئے سامان کے ساتھ تنکا تنکا کرکے بنائے ہوئے آشیانوں میں نوحہ گری کر رہی ہیں ۔۔ایسی گریہ زاری عرشِ ہلا کر رکھ دیتی ہیں ۔پاکسانی ریاست، حکومت ،معاشرے کا ردعمل اس سانحے کے بعد بہت مثبت ہے ۔۔لیکن مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لئے بطور قوم جن اقدامات کی ضرورت ہے ۔۔ان پر انتخابی عرق ریزی اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔۔وہ سماجی آگاہی کی ایک فکری تحریک کے بانی رضا اور 20کتب کے مصنف ہیں ۔جن چار رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر جن میں نمایاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور 15کتب تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے ہیں ۔جن میں نمایاں” دھرتی جائے کیوں پرائے”، شان سبزو سفید ، پاکستان کے مسیحی معمار ،کئی خط اک متن ، اور شناخت نامہ دی آئی ڈنٹنٹی ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply