میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(19)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

 

 

 

 

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

قسط 19

روزن زنداں سے روشنی کے آثار

گو ہماری رہائی  کے متعلق خبروں نے بظاہر خاموشی کی چادر اوڑھ لی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شملہ معاہدہ کے اہم نکات ہمارے حق میں تھے۔ جنہوں نے پاکستان  کی پوزیشن کو مضبوط کردیا تھا۔ بھٹو صاحب نے انڈیا سے پاکستانی جنگی قیدی رکھنے کا جواز چھین لیا تھا۔ ان نکات کی بناء پہ جارحانہ سفارتکاری کے ذریعے عالمی طاقتوں کو انڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پھر اس دوران انڈیا میں پیدا ہونے والی قحط کی صورتحال نے بھی انڈیا کی حکومت پہ اندورنی دباؤ بڑھا دیا تھا۔حزب اختلاف کے اخبارات اور صحافی برادری نے بھی واویلا مچایا کہ قحط کی صورتحال میں جنگی قیدیوں کا خرچہ اٹھانے کی آخر کیا منطق ہے؟ جبکہ ہم پہلے ہی شملہ مذاکرات کی صورت بہت کچھ دے چکے ہیں۔ ان مخالفین نے اخراجات کی تفاصیل دیتے ہوۓ کہا کہ ۹۳۰۰۰ پاکستانی قیدیوں کےاخراجات اٹھانے کے بجاۓ دس لاکھ قحط زدہ کوہستانی ہندوستانی کا روز پیٹ بھر ا جا سکتاہے۔ ظاہر ہے یہ جواز معقول بھی تھا۔
حزب اختلاف کے اس موقف کو کافی عوامی پذیرائی ملی اور انڈین حکومت پہ دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ادھر بھٹو صاحب کا شیخ مجیب الرحمن کو آٹھ جنوری ۱۹۷۲ءکو رہا کرنا بھی ہمارے رہائی کے فیصلہ میں معاونت کر رہا تھا۔ اگر مجیب کو رہا نہ کیا جاتا تو یہ یقینی طور پہ گھمبیر صورتحال کو مزید نازک بنا دیتا۔اس کے سبب بنگلہ دیش کا پاکستان کے فوجیوں کو تحویل میں دینے کے مطالبہ کی شدت میں لچک پیدا ہوگئی۔
اپریل ۱۹۷۳ ء سے تینوں ممالک کے درمیان سیکریٹری کی سطح پہ رابطے شروع ہوگئے۔ جسکی ریڈیو اور اخبارات میں خبریں آنے لگیں ۔ کیمپ میں اب ویک اینڈ ز پہ دو اخبارات ملتے اور وہاں رہنے والے باری باری بڑی دلجمعی سے اخبارات سے مستفید ہوتے۔ اب ہر ایک کو ہفتہ کے اختتام کا انتظار رہتا تھا۔ ان مثبت اخبارات کی خبروں سے ہم سب میں زندگی کی رمق سی دوڑ گئی تھی۔ اسکے علاوہ بھی کچھ تبدیلیاں واقع ہوئیں۔جسکا تعلق کھانے کے مینیو سے تھا۔
ویسے توکیمپ میں دالیں اور سبزیاں ہی ملتی تھیں لیکن اب ایک تبدیلی جو   واقعی ہوئی وہ کھانے میں گوشت کا  اضافہ تھی۔ مسلمان ،ہندوؤں کے برعکس عمومی طور پہ گوشت کے رسیا ہوتے ہیں۔ سولہ ماہ بعد جولائی ۱۹۷۳ء سے گوشت کی فراہمی یقیناً ایک خوش کُن تبدیلی تھی۔اب ہر دو ہفتے بعد بکری کے گوشت کا بنا سالن ملتا اور ہر شخص کے حصے میں دو بوٹیاں آتیں۔ لیکن ایک دن بوٹی کے سائز پہ جھگڑا ہوگیا۔ جو اس قدر بڑھا کہ لنگر خانے سے چھریاں اور چاقو نکل آۓ۔دولوگ زخمی بھی ہوۓ جنہیں ہسپتال لے جایا گیا۔اسکے بعد بطور سزا گوشت کی فراہمی ایک ماہ کے لیے بند کر دی گئی ۔پھر جب واقعہ میں ملوث افراد واپس آۓ توان سب کو تنہا کمرے میں رکھا گیا۔
اسی دوران شب قدر اور شب معراج کے ایام بھی آۓ۔گو باوجود اخباروں اور گوشت کی فراہمی جیسی کچھ مثبت تبدیلیوں کے بہت سے لوگوں پہ قید کی یاسیت طاری تھی۔ عبادت کی راتوں میں بہت خشوع و خضوع سے جاگ جاگ کر رہائی اور خوشحالی کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔
گو کیمپ میں جسمانی اور طبی علاج کی سہولت تو مہیا تھی لیکن ڈیپریشن میں مبتلا ہو لوگوں کے لیے کسی قسم کا علاج نہیں تھا۔ ویسے بھی ذہنی امراض کیا مشرق کیا مغرب ، ہر سماج میں اسٹگما ہی تصور کیے جاتے تھے۔ بس ایک دوسرے کہہ سن کر ہی غم مٹایا جاتا لیکن اگر دکھ کی کیفیت اس سے زیادہ ہو تو اسکا علاجِ کیا ہو۔ اسکے منفی اثرات کس طرح زائل ہوں۔ اسکا کوئی علاج نہ تھا۔

اب اخبار ہفتہ میں دو کے بجاۓ تین دن یعنی ہفتہ ، اتوار اور منگل کو ملنے لگے۔ایسے میں وہ مہینہ بھی آن پہنچا جو پاکستانیوں کے دلوں کو گرما دیتا ہے۔ یعنی آگست کا مہینہ ۔ چودہ اگست یوم آزادی کا دن۔ قید میں یہ ہمارا دوسرا یوم آزادی تھا۔ میرے دوست سراج انور کے والد رفیع احمد فدائی صاحب نے جو جنگ اخبار سے وابستہ مشہور صحافی اور ادیب تھے ، ان کے خیال کے مطابق ہمیں اگست میں ہی انشا اللہ کوئی اچھی خبر ملے گی۔
دس اگست کو میرٹھ میں واقع چاروں کیمپ کے جوائنٹ کمانڈر برگیڈیئر  جے پی باجوہ نے کیمپ کا دورہ کیا۔ وہ تمام قیدیوں سے بہت اخلاق سے ملے۔ جب لوگوں نے رہائی  کی بابت سوال کیا تو جواب ملا کہ جلد ہی اچھی خبر ملے گی ۔ جب لوگوں نے مزید کریدنا شروع کیا تو انہوں نے واضح طور پہ انگریزی میں کہا””Don’t worry, relax. Talk is in progress. Soon you will get good news.”(پریشان مت ہوں ، اطمینان سے رہیں۔ گفتگو اپنے مراحل میں ہے۔ جلد ہی کوئی اچھی خبر سنیں گے۔”)
انکی اس یقین دہانی سے خوشی کی ایک لہر سی پیدا ہوگئی۔ ابّی نے بے اختیار کہا “آج کچھ میٹھا کھلا دو۔” لیکن وہاں مٹھائی کی کہاں ۔ میں جلدی سے لنگر خانےگیا اور کچن کے انچارج کی اجازت سے کچھ شکر لے کر ابّی کو کھلا کر منہ میٹھاکیا۔
اب کیمپ میں خاندان کے افراد سے ملنے کے اوقات میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ میری دو بہنیں جن کی عمر آٹھ اور دس سال کی تھیں مستقل پوچھتیں کہ کیا ہم پاکستان ساتھ جائیں گے ۔ ہمیں علیحدہ تو نہیں کر دیا جاۓ گا۔ انکا خوف یہ تھاکہ جیسے ابھی ہم الگ الگ رہتے ہیں کہیں ہم پاکستان جاتے وقت بھی جدا تو نہیں ہوجائیں گے۔ ان کو بارہا یقین دلایا جاتا کہ جب ساتھ آۓ ہیں تو ساتھ ہی جائیں گے۔ وہ معصوم بچیاں خوش ہوجاتیں ۔ اس خوشی میں بسکٹ کا دور بھی چلتا۔ امی جو میرے بڑے بھائی کے کیمپ میں نہ ہونے کے سبب قدرے پریشان رہتی تھیں اب بریگیڈئیر باجوہ کی حوصلہ افزا گفتگو سے کچھ مطمئن نظر آرہی تھیں۔اس طرح اب جنگل میں منگل کا گمان ہونے لگا۔ اور اس دفعہ بڑے اہتمام سے چودہ اگست منانے کا اہتمام کیا گیا۔
اسیری میں دوسرا یوم آزادی
قفس سے دور سہی موسم بہار تو ہے

اسیرو آؤ ذرا ذکر آشیاں ہو جائے
یہ دوسرا یوم آزادی تھا جو ہم قید میں منا رہے تھے۔طے یہ ہوا کہ رات بارہ بجے ہم سب لوگ ایک بیرک میں ایک ہی کمرے میں جمع ہونگے۔ اس شب کچھ لوگ برآمدے میں آگئے۔کمرے کے اندر ہی پاکستانی جھنڈا ایستادہ کیا گیا۔ پھر سب نے اسکے گرد کھڑے ہوکےترانہ پڑھا ۔ اسکے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ ویسے برگیڈیئر آصف صاحب کی باتوں سے بھی دلوں میں حوصلے بڑھ گئے تھے۔حسب معمول جب صبح کو گنتی ہوئی تو دیکھا کیمپ کمانڈر میجر ورما بھی موجود تھے۔گنتی شروع ہونے سے پہلے ہی اعلان ہوا تھا کہ گنتی کے بعد لوگ اپنے کمروں میں جانے کے بجاۓ میدان میں جمع ہوجائیں۔سب ڈر گئے کہ شاید رات جھنڈا لہرانے اور ترانہ پڑھنے کی کاروائی کے کا علم ہونےپہ کچھ سزا ملے گی۔لیکن ہمارا خیال غلط نکلا۔ ورما صاحب نے چبوترے پہ کھڑے  ہوکے یوم آزادی کی مبارکباد دی۔

اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوۓ انہوں نے کہا “آپ سب کو ۱۴ اگست کی بدھائی ہو۔ آپ لوگوں نے تو رات کو ہی ۱۴ اگست منا لیا ہے۔لہٰذا اب آپ جھنڈا ہمیں دے دیں۔چودہ اگست تو اب آپ پاکستان ہی میں منائیں گے۔ یہ جھنڈا جاتے وقت آپ کو واپس کر دیاجاۓ گا۔”لوگ ڈر گئے کہ شاید کوئی سزا ملے لیکن انہوں نے ہی اعلان کرکے سب کو حیران کردیا ہے کہ اب بڑا کھانا ہوگا۔ کوئی کام پہ نہیں جاۓ گا اور رات کی گنتی کی بھی معافی کردی گئی ہے۔ لیکن کل سے دن معمول کے مطابق ہی ہوگا۔ہمارے کیمپ کے محبوب اقبال صاحب نے درخواست کی کہ کل کے کام کی بھی چھٹی دے دیں ۔کل آپکا یوم آزادی ہے۔انہوں نے کہا ” اوکے لیکن گنتی تو ہوگی۔اور دونوں وقت ہوگی۔” یہ بات سن کر اس سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ کم ازکم کام کی تو چھٹی ہوگی۔

ابّی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔ اور میں ان سے کہہ رہا تھا کہ دیکھیں اب انشااللہ بہت جلد ہماری رہائی کا فیصلہ بھی ہوجاۓ گا۔وقت کے ساتھ ہوتی یہ مثبت تبدیلیاں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہورہی تھیں۔اور آنے والی خوش کن ساعتوں کی پیشگی نوید دے رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply