کشمیر جنت نظیر کا ایک حسین مقام “پیر چناسی”۔۔شاہد محمود

مظفر آباد آزاد کشمیر سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر پیر چناسی سید حسین شاہ بخاری رحمت اللہ علیہ کا مزار ہے۔ یہ مزار ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے او یہ مقام 9500 فٹ بلند ہے۔ اللہ کریم کی قدرت ہے کہ اس کے بہت سے دوست (ولی اللہ) پہاڑوں سے خصوصی انس رکھتے ہیں اور کئی اولیاء اللہ کی آخری آرام گاہیں بھی پہاڑوں پر ہیں۔ جیسے اسلام آباد میں پیر سوہاوا، راولاکوٹ میں تولی پیر اور مظفر آباد میں پیرچناسی اور پیر سہار۔ شاید اس لیے کہ اللہ کریم سے قربت کا جتنا احساس یہاں ہوتا ہے، نفس کو کھوجنے اور مسائل ِکائنات پر غور و فکر کا جتنا موقع یہاں نصیب ہوتا ہے کہیں اور نہیں ملتا۔ اولیاء اللہ اس معاملے میں شاید ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی فرماتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر جبلِ نور پر قیام فرما ہوتے تھے- غار حرا میں عبادت کرتے تھے-
علامہ اقبال رح نے شاید اسی تناظر میں کہا ہے کہ؛

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نِگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کُہستانی

کہا جاتا ہے کہ حضرت سید حسین شاہ بخاری رحمت اللہ علیہ بلوچستان کے علاقے سے تقریبا 350 سال قبل ہجرت کر کے تبلیغ کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ یہ مقام 9500 فٹ بلند ہے۔ نزدیکی آبادی بھی خاصی نیچے پائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف پیر سہار کو راستہ جاتا ہے، جہاں پیدل جانا پڑتا ہے دوسری طرف نیلم کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ اور وادی کاغان کے پہاڑ مکڑا کا نظارا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب دہائیوں پہلے میں فیملی کے ساتھ نومبر میں مری گیا تو مری سمیت دیگر سیاحتی علاقوں میں برف نہیں تھی۔ ہم نے جو کار کرایہ پر لی تھی اس کا مالک اچھا انسان تھا۔ ہماری برف دیکھنے کی خواہش پر وہ ہمیں پیر چناسی کی جانب لے چلا۔ پہاڑوں میں سڑک پر سفر کرتے عام طور پر ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف جنگل یا کھائیاں ہوتی ہیں۔ لیکن پیر چناسی اتنی اونچائی پر ہے کہ سڑک کے دونوں اطراف گہری کھائیاں اور خوبصورت پر جان نکال لینے والے گہرے جنگل ہیں۔ راستے میں ہی سڑک پر برف جمی ہوئی تھی کار تھوڑا بہت پھسلتی بھی تھی اور ساتھ ہم ڈول جاتے اور ہمارا دل ڈوب جاتا۔ کئی مرتبہ ہم گاڑی رکوا کر نیچے اترے کہ یہ سامنے تو پیر چناسی ہے گاڑی کی بجائے پیدل ہی چلتے ہیں لیکن جمی ہوئی برف پر چڑھائی چڑھنے کی کوشش نے چودہ طبق روشن کر دئیے۔ بمشکل پھسلتے سنبھلتے دوبارہ گاڑی میں بیٹھ پیر چناسی پہنچ گئے۔ پیر چناسی میں کئی فٹ موٹی برف کی تہہ دیکھ کر ہم بہت حیران ہوئے اور اللہ کریم کی حمد و ثناء زبان پر جاری ہو گئی۔ دربار پر جا کر بزرگوں کو سلام کیا، فاتحہ خوانی کی اور پھر اردگرد کا جائزہ لینے نکلے تو عجب کام ہوا۔ گھٹنوں سے بھی اوپر تک برف میں ٹانگیں دھنس دھنس جاتی تھیں اور اوپر سے سورج کو ہم پر پیار آ گیا اور اتنی شدت سے چمکنے لگا کہ اوپری بدن سورج جھلسا رہا تھا اور نیچے برف ٹانگوں کو شل کر رہی تھی۔ اللہ کریم کا شکر کہ کچھ ہی دیر میں سورج کو بادلوں نے ڈھک کیا تو تپش سے بچت ہوئی۔ دائیں بائیں تھوڑی گہرائی میں گھر نظر آئے جن کی چھتیں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں اور کسی کسی گھر کی چمنی سے دھواں نکلتے دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ پیر چناسی میں جو نظارہ آپ پر سحر طاری کر دیتا ہے وہ ہے پیر چناسی مزار کے صحن میں بیٹھے انتہائی خوش الحانی سے تلاوت کرتے مقامی افراد اور ان کے بچے جو مزار کو اپنے انداز سے سجاتے محبتیں بانٹتے سیاحوں کی راہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنے خوددار بچے ہیں کہ بہت ہی مشکل سے ہم انہیں ان کی محنت و محبت کے شکریہ کے طور پر کچھ تحائف دے سکے جن کے ملنے سے ان کی خوشی قابل دید تھی۔ اور ہاں پیر چناسی پر غروبِ آفتاب کا منظر، قوس قزح کے حسین رنگوں کا امتزاج پیش کرتا ہے۔
مظفرآباد سے پیر چناسی جاتے ہوئے راستے میں جا بجا دل موہ لینے والے خوبصورت برف پوش پہاڑ، پہاڑوں سے گرتی گنگناتی آبشاریں، پھوٹتے چشمے، حسین وادیاں، سرسبز جنگل، پرندوں کی چہچہاٹ، پرسکون جھیلیں، جھومتے برستے بادل، ملتے ہیں۔ اور ہیارے پاکستان میں اسی طرح کے پیارے محبتیں، شفقت و خلوص بانٹنے والے احباب۔ سب کے لئے سلامتیاں، ڈھیروں پیار اور محبت بھری پرخلوص دعائیں۔
دعا گو، طالب دعا شاہد محمود

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply