اِک خواب کی تکمیل کے بعد۔۔ ڈاکٹر محمد شافع صابر

یقین کامل اور اُمیدِ  پیہم انسانی زندگی میں سانس کی مانند ناگزیر ہیں، وہ خواب جو انسان کی نیندیں اڑائے دیتے ہیں، آس اور امید کے بغیر گونگے بہرے سے ہو جاتے ہیں،ان میں اتنی سکت ہی نہیں دو قدم بھی چل سکیں۔انسان کو خواب دیکھتے رہنا چاہیے، انہی خوابوں کے پورا ہونے کی امید ہی تو انسان کو زندہ رکھتی ہے، اسکے اندر روشنی کا اَن مٹ دیا جلائے رکھتی ہے “۔

کچھ ایسے ہی آج کل میرے احساسات ہیں۔میری زندگی کسی فلم کی رِیل کی مانند میری  نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی ہے اور میں اطمینان اور عاجزی سے اپنے ماضی سے حال تک کا  از خود جائزہ لے کے خوشی سے مسکرا دیتا ہوں۔ جب دل نے خواب دیکھنے شروع کیے تھے تو ان کو پایہ ء  تکمیل تک پہنچانے کی غرض دل میں سمانے لگی،یوں دل چاہتا تھا کہ چھلانگ لگاؤں اور امید فلک سے اپنے پسندیدہ تارے سمیٹ لاؤں۔اب تعبیر حاصل  ہوئی ہے ،تو دل کہتا ہے کہ مزید خواب دیکھوں کہ زور بازو کی، چاہ کی، لگن کی کوئی حد نہیں ہے۔۔تقدیر بھی ہماری کوشش اور محنت پہ مسکراتی ہے اور ہمیں راستہ دیتی  جاتی ہے۔

ڈاکٹر بننے کا تو کبھی گمان ہی نہیں تھا۔ہمیشہ سے ایک رائٹر بننے کا ارادہ تھا، کبھی کبھار دل کرتا تھا کہ ڈائریکٹر بنوں، فلمیں بناؤں کہ انسان دل کی بات کرنا چاہتا ہے اور یہ میڈیم آپکی سوچ کو لے کر لوگوں تک پہنچا آتا ہے۔۔ عام سا سٹوڈنٹ تھا (ہوں)، تو یہی سوچتا تھا کہ یہ فیلڈ صحیح رہے گی ، کبھی زیادہ سوچتااور کچھ بڑا کر دکھانے کی جستجو پیدا ہوتی تو ارادہ کرتا چاچو کی طرح CA کر لوں گا، لیکن ڈاکٹر بننے کا خیال کبھی بھی نہیں آیا تھا۔

لیکن جب بڑی بہن کا میڈیکل میں داخلہ ہوا تو دل میں خیال اُبھرا، کیوں نا ڈاکٹر بنا جائے؟؟ کوشش کروں گا تو بن بھی سکتا ہوں ۔پھر خیال آیا “بھائی صاحب! آپ کن  چکروں   میں پڑ گئے”۔
میڑک میں چار نمبر کیا آ گئے، آپ تو شوخے ہی ہو گئے ہیں۔ قصہ مختصر، کرتے کراتے میڈیکل میں داخلہ لے ہی لیا۔

تین نومبر 2014 کو نئے سفر کا آغاز ہوا۔ خواب تو دیکھ چکا تھا، اس کی تعبیر پانچ سال میں  حاصل ہونی تھی۔۔۔۔تعبیر کے لئے محنت اور مستقل مزاجی درکار تھی۔ خود سے عہد لیا کہ اس تعبیر کی راہ میں کسی چیز کو حائل نہیں ہونے دوں گا۔

میڈیکل کالج کے پانچ سال کیسے گزرے۔۔۔وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔۔۔ جس پر جنتا لکھوں اتنا کم ہے۔ خواب کی تعبیر کے دوران کئی نشیب وفراز آئے، کئی بار ہمت ٹوٹی۔ لیکن کچھ ایسے لوگ ملے جنہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی امید کا دامن نہ چھوڑنے دیا۔

میڈیکل کالج میں گزرا ہر لمحہ زندگی سے بھرپور تھا۔ لاتعداد پروکسیاں، لیکچر بنک، نہ  ختم ہونے والی لڑائیاں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر   جھگڑے ،اب تو یاداشتوں کا حصہ بن چکے ہیں، اب ان باتوں کا سوچو تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

پانچ سالوں کا سب سے ناقابل فراموش واقعہ 2018 میں پیش آیا، جب فورتھ ائیر کا رزلٹ آیا تو پوری کلاس کا رزلٹ آیا لیکن صرف میرا رزلٹ لیٹ تھا، لیٹ کیوں تھا، مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا، کسی کے بقول تمہاری شیٹ گم ہو گئی ہو گی، تو کوئی کہے کہ تم رول نمبر نہیں لکھ کر آئے ہو گے، جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ میرا رزلٹ پورے سات دن کے بعد آیا۔۔ وہ سات دن میری زندگی کے سب سے مشکل ترین دن تھے، سب دوست پاس ہو چکے تھے، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فورتھ ائیر میں ہوں یا فائنل ائیر میں؟ رزلٹ کب آئے کا؟ پاس ہوں گا یا فیل؟؟ وہ سات دن، سات سال سے کم نہیں تھے، ڈیپریشن فل زورں پہ تھا ، نہ کالج میں دل لگتا تھا اور نہ  ہی ہاسٹل میں۔ ان سات دنوں میں جس بندے نے امید بندھائی  رکھی وہ کوئی نہیں میرا بہترین دوست ڈاکٹر اسداللہ تھا جو سائے کی طرح میرے ساتھ رہا،میں مایوسی کے عمیق سمندر میں غوطہ زن تھا اور وہ مجھے کھینچ کے امید کی سطح پہ لاتا۔میں دوبارہ ڈوبنے لگتا تو پھر میرے پیچھے میرے لئے اپنے   بازو پھیلائے مجھے تیقن کی دنیا میں خوش آمدید کہتا۔۔تب مجھے اس بات کا پتا چلا کہ اس دنیا میں مخلص دوست کا ہونا،کتنی بڑی نعمت ہے۔جس کے ہونے سے موت کی وجہ مایوسی نہیں بنتی۔ سات دنوں نے وہ سبق سکھا دئیے تھے جو شاید کبھی سیکھنے کو نہ  ملتے۔ سات دنوں بعد نتیجہ آیا تو میری دوڑ پورے کالج نے دیکھی۔۔ہاسٹل سے لیکر کالج گراؤنڈ تک۔۔۔۔

پیر نومبر 2014 کا سفر، ہفتہ 22 فروری 2020 کو ختم ہوا ، جب UHS لاہور نے فائنل ائیر MBBS کا نتیجہ جمعہ اورہفتہ کی درمیانی شب رات دو بجے آن لائن شائع کیا، اب یہ نتیجہ تھا یا سرجیکل سٹرائیک۔۔ہم خود حیران تھے، میں خلاف توقع اس دن سو گیا تھا، اسداللہ جاگ رہا تھا، اس نے رزلٹ دکھ کر میسج کر دیا، جو میں نے  نہیں دیکھا، مجھے تین بجے رات شاہ زیب مغل کی کال آئی، دھڑکتے دل سے میں نے فون اٹھایا، اس نے مخصوص انداز میں بتایا کہ “جناب اپنی شکل دیکھو!! مبارک ہو ڈاکٹر بن گئے ہو”پہلے تو یقین نہیں آیا، اس نے قسمیں اٹھائیں تو یقین آیا، پھر چار بجے جو نعرے لگے اس نے باہر گلی میں سوئے چوکیدار کو بھی جگا دیا تھا۔

جو خواب، افراح صابر کے داخلہ ملنے پر دیکھا تھا، اس کی تعبیر پانچ سال میں پوری ہوئی۔

اب میں تو وہی ہوں، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ میں بدل گیا ہوں، میرا دوسرا جگری یار، ڈاکٹر ابوبکر ابراہیم مجھے روزانہ میسج کرتا ہے اور “ڈاکٹر محمد شافع صابر صاحب” کہہ کر چھیڑتا ہے اور ہم دونوں بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔ڈاکٹر شاہ زب مغل فون کر کے جگتیں مارتا ہے۔ ڈاکٹر محسن سعید روزانہ فیسبک گروپ میں تنگ کرتا ہے۔ڈاکٹر یوسف اور ڈاکٹر صائم بھی روزانہ ذلیل کرتے ہیں اور کالج کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ بڑے بھائی ڈاکٹر حسنات اب بھی سمجھاتے ہیں، اور اسداللہ ویسے کا ویسے ہی۔۔جیسے ہم دونوں ہاسٹل میں تھے، یہ علیحدہ بات ہے اب ہم اب بھی روزانہ ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں۔

فرسٹ ائیر میں تھے، فائنل ائیر کو دیکھتے تھے اور سوچتے تھے کہ یہ پانچ سال کیسے گزریں گے؟ ہم بھی ایک دن ڈاکٹر بنیں  گے، اب بن چکے ہیں تو یقین نہیں آتا۔ پھر جلدی جلدی رزلٹ دیکھتا ہوں تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں۔

کالج میں سر کہتے تھے، کہ ایک میڈیکل سٹوڈنٹ، ساری عمر سٹوڈنٹ ہی رہتا ہے،کیونکہ سیکھنے کا عمل جاری و ساری جو رہتا ہے، بس پانچ سال بعد ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ ہو جاتا ہے، اب سمجھ آیا سر صحیح کہتے تھے۔

کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ یہ پانچ سال کا عرصہ اتنی جلدی گزر کیسے گیا؟؟ تو کوئی سیکنڈ ائیر کا سٹوڈنٹ ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ بھائی یہ وقت کیسے گزرے گا؟؟ میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ یہ وقت تو پل جھپکتے ہی گزر جانا ہے،لمحہ نہیں لگتا گزرنے میں، مگر کبھی کبھار اک اک پل بھی صدی ہوتا ہے میرے بھائی۔ جیسے کہ ہمارا گزر گیا،پھر تم یاد کرو گے لیکن یہ وقت واپس نہیں آئے گا۔

فائنل، ائیر سٹوڈنٹ اور پریکٹیکل لائف کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے،جیسے خام مال تیار ہو کے مارکیٹ میں جانے کو تیار ہو۔ جیسے ہی یہ پل پار کیا، آپ پر ذمہ داریوں کا بوجھ لگ جاتا ہے۔ ذمہ داریوں سے ڈر بھی لگتا ہے، لیکن ایک نہ ایک دن یہ بوجھ اٹھانا تو ہوتا ہی ہے۔اب اس بوجھ کو اُٹھانے کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے۔اب ضرورت ہے تو اسی امید کی،آس کی جس نے پانچ سال حرکت کیے رکھنے پہ آمادہ رکھا۔

سب سے زیادہ ڈر جس بات سے لگتا ہے وہ دوستوں سے جدائی ہے، کالج ختم ہوئے تین مہینے ہو گئے ہیں اور دوستوں سے ملے بھی، گویا فون پر روزانہ بات ہوتی ہے، لیکن جیسے کالج میں بات ہوتی تھی، وہ والا مزا نہیں، شاید یہی زندگی ہے کہ  آپ کو چلتے ہی رہنا ہے بس۔

سکول، کالج کے استاد ملتے ہیں، مبارکباد دیتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں تو دل میں ایک سکون سا محسوس ہوتا ہے۔امی کبھی کبھار مسکرا کر ڈاکٹر کہہ دیتی ہیں تو انکی مسکراہٹ دیکھ کر جو دلی سکون ملتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے، ایک لمحے کے لئے لگتا ہے کہ جو پانچ سال محنت کی تھی اس کا پھل مل گیا ہے۔ کالج سے پروفیسر ڈاکٹر بشیر صدیقی مسکراتے کہتے ہیں کہ چھوٹے ڈاکٹر صاحب، کب آ رہے  ہیں ملنے؟؟تو یہی جواب دیتا ہوں، آپ چائے پلائیں گے تو ابھی آ جاتا ہوں۔ڈاکٹر اسداللہ اور ڈاکٹر ابوبکر ویسے ہی پوائنٹ مارتے ہیں جیسے کالج میں کرتے تھے!

انسان ہوں، خواب پورا ہوا ہے۔تو مزید خواب دیکھنے کو دل کرتا ہے، دل میں آتا ہے کہ میاں MBBS تو بس شروعات ہیں، کچھ حاصل کرنا ہے تو مزید کچھ کرنا پڑے گا۔تیاری پکڑ لو،ریڈی ہو جاؤ،وقت کا بزر  بجنے والا ہے۔۔ دل پھر خواب دیکھنے کو کہتا ہے، دماغ کہتا ہے کہ صاحب! بس بہت دیکھ لیے خواب، اب اٹھو اور انکی تعبیر کے لئے تگ ودو شروع کرو۔اب دل اور دماغ کی  کسی گول میز کانفرنس میں بیٹھ کے مشاورت کرائی جائے اور ان سے عہد لیا جائے کہ ایک ساتھ رہیں گے مکمل   اشتراک  سے کام کریں گے۔
دل و دماغ کی اس کشمکش پہ، جناب منیر نیازی کا یہ شعر صادر آتا ہے
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

Advertisements
julia rana solicitors

“خواب ہر کوئی دیکھتا ہے،ہر ایک کے دل میں خواہش پنپتی ہے مگر خواب کو زندگی کا مقصد بنانے والے کھلاڑی ریس میں دوڑتے ہوئے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتے کہ کیا چھوٹ گیا،کیا کرنا باقی رہ گیا بس کر گزرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بازی ہے جس میں جو بھی لگایا جائے کم ہے۔۔مقصد وہ ہوتا ہے جو کسی ڈیڈ لائن سے پہلے پایہ ء  تکمیل تک پہنچ جائے اور ڈیڈ لائن کا کوئی وقت متعین نہیں ،یہ آپکے ذہن کی مقرر کردہ حد ہے۔۔بس جب جنون میں آئیں کر گزریں،منزلوں کے راہی کا خدا محافظ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply