فلسفۂ ناکامی ۔۔۔۔۔ابوعبدالقدوس محمد

ابتدائے آفرینش سے انسان خواہشات، تمناؤں، آرزوؤں کامجسمہ ہے۔ وہ سارے جہاں کو اپنے تصرف میں لینا چاہتا ہے، ہر خوبصورت چیز کو اپنا بنانا اور ہر قیمتی چیز کا مالک بننا چاہتاہے بلکہ مثل پارس چاہتا ہے کہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگائے وہ سونابن جائے۔ الغرض خواہشات کا ایک نہ رکنے والا سیلاب ہے اورحدیث کی رو سے، ”انسان کے منہ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے”(متفق علیہ)۔ یعنی اس کی خواہشات کو صرف موت ہی لگام دے سکتی ہے۔

اس حدیث میں خواہشات کی مکمل نفی نہیں کی گئی بلکہ یہاں نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دینا مقصود ہے۔ خواہشات کا ابھرنا تو فطری امرہے اورخوب سے خوب تر کی جستجو و آرزو ہی ترقی وکامیابی کے لئے مہمیز ومحرک ہیں۔ جائز خواہشات کی تکمیل اور کامیابی کی تمنا کرنے میں کوئی عیب نہیں۔ ہر شخص فطری طور پر کامیابی کا متمنی ہے۔ ناکامی تو ناکامی، شکست خوردہ انسان کو بھی کوئی گلے لگانے کے لئے تیار نہیں ہوتالیکن جب جدوجہد اورعملی کوشش کی بات کی جائے توکامیابی کے عملی اقدامات بہت کم افراد کرتے ہیں۔ اکثر بلاسعی وعمل ہی کامیابی کے آرزومند ہوتے ہیں۔ اور اپنے قدم تودرکناراپنی پلکوں تک کو جنبش دیئے بغیرعنقاء پرندے ہما کے منتظررہتے ہیں اورکامیابی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ وہ قرآن مجید میں بیان کردہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں :اوربے شک انسان کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرے(النجم:٣٩)۔ دارالعمل میں کامیابی رنگین خیالات، تخیل، سہانے خواب دیکھنے سے نہیں بلکہ عمل، جدوجہد اورکوشش سے ملتی ہے۔ بقول شاعر

ہے عمل لازم تکمیل تمنا کے لئے

ورنہ رنگین خیالات سے کیاہوتاہے

لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ خواہشات کے اس سیلاب کو عملی دھارے کارخ دیاجائے۔ جب کسی کام کی ابتداء مقصود ہوتوپہلے اچھی طرح اس کے عملی خاکہ، عواقب و نتائج پر غوروفکر کرلیا جائے اوربہترہے کہ استخارہ بھی کرلے۔ استخارہ کے معنی ہی بھلائی طلب کرناہے۔ لہذا اگر کوئی اہم کام شروع کرنے سے پہلے استخارہ کرتا ہے تو اگراس کام میں انسان کے لئے بھلائی ہے تو اللہ رب العزت اس کام کو آسان بنادیتاہے اورایسے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں جن کی مدد سے وہ کام پایہ تکمیل پہنچ جائے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:فسنیسرہ للیسری: اس کو ہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے۔ (اللیل: ٧)یعنی بھلائی اوراچھائی کے راستے پر چلنا اس کے لئے آسان بنادیں گے اوراس کے لئے اچھے کام ہی آسان بنادیئے جائیں گے۔ اگروہ کام دنیا و آخرت کے خسارہ کا باعث ہے تو اس کام میں مشکلات پیداہوجائیں گی۔ اس طرح اس کام کو نہ کرنے کا خیال اس کے دل میں جاگزیں ہوجاتاہے۔

جب ایک بارکام کے عواقب ونتائج سے بہرہ مند ہوگئے اور جان لیا کہ وہ ناممکن العمل نہیں یعنی آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف نہیں اورانسانی بساط میں ممکن ہے پھر خواہ چاند پر جانے ہی کاکام کیوں نہ ہو اور وہ اپنی قوت، طاقت، استطاعت، صلاحیت، قابلیت، لیاقت، دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کا ارادہ کرچکاہے توپھرکسی بھی طور پیچھے مڑکر نہ دیکھے۔ نہ ہی ناکامی کے خوف سے اپنی جدوجہد ترک کرے بلکہ ناکامی کاشائبہ تک دل میں نہ لائے۔ بہترین منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی اختیار کرنے کے بعددلچسپی، لگن، دلجمعی، یکسوئی اورخلوص کے ساتھ سخت کوشش و محنت کرے اور نتیجہ اللہ رب العزت پر چھوڑ دے۔ اس عمل سے اس کے اعتماد میں اضافہ اور کام میں حسن ونکھار پیدا ہوگا۔ قابل تعریف ہیں وہ افراد جو خواب دیکھنے کے بجائے عملی اقدامات کرتے ہیں۔ خالی بیٹھنے کے بجائے دوسروں کی خاطر کام کرنا پسند کرتے ہیں جیسے شہد کی مکھی جو ہمہ وقت دوسروں کو شہد کی مٹھاس وچاشنی دینے کے لئے مصروف عمل رہتی ہے اوراللہ رب العزت نے اسے یہ اعزاز بخشا کہ قرآن مجید کی ایک سورت اس کے نام سے موسوم کردی۔

نتائج :

انسانی کوشش کے نتائج کی تین صورتیں ہیں۔ مکمل کامیابی، جزوی کامیابی اورناکامی۔ اگرسوچ مثبت ہوتو تینوں صورتیں ہی سود مند ہیں۔

مکمل کامیابی:کامیابی توبہر کیف ہے ہی کامیابی کہ انسان نے اپنی منزل مقصود حاصل کرلی۔

جزوی کامیابی:بعض اوقات انسان کو مکمل کامیابی کے بجائے جزوی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ آدھاگلاس بھرے ہونے کی صورت میں مثبت سوچ رکھنے والا غم کے بجائے خوشی کا اظہار کرے گا۔ جیسا کہ انگریزی محاورہ ہے(Half a loaf is better than none) ”بالکل نہ ہونے سے کچھ ہونابہتر ہے”۔

مکمل ناکامی:بہترین منصوبہ بندی اور کوشش کے باوجود بھی اگر ناکامی ہوئی تو اس کا افسوس نہیں کرنا چاہئے اور انسان کو اپنی سوچ مثبت رکھنی چاہئے۔ کیونکہ مقابلہ کرنے والا ہی کامیاب اورناکام ہوتا ہے۔ شہسواری کرنے والا ہی گھوڑے سے گرتاہے ورنہ گھٹنوں کے بل چلنے والا شیر خوار طفل کہاں گرے گا۔

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں

وہ طفل کیاگرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے گا

فلسفہ ناکامی:

خواہ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی ناکامی اسباب اوروسائل کی کمی سے نہیں بلکہ ذہنی اضمحلال، قوت فیصلہ کے فقدان اورجذبات کی کمی سے واقع ہوتی ہے اورہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کاصرف اورصرف ایک ہی نتیجہ ہے ناکامی، ذلت ورسوائی۔ تاریخ میں کامیاب اورناکام دونوں کرداروں کی بے شمار مثالیں ہیں جب کوئی قوم لڑائی اورنقصان کے خوف سے بغیرلڑے جنگ ہارگئی اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوئی یا قلیل فوج نے سازوسامان کی پرواہ کئے بغیر بڑی فوج کو ہزیمت اورشکست سے دوچارکیا۔

طارق بن زیاد نے کشتیاں جلانے، فرار کے راستے مسدود کرنے اور ناکامی کا خوف اپنی فوج کے دل سے نکالنے کے بعدجب اندلس پربغیر سازوسامان بارہ ہزار کی قلیل فوج کے ساتھ حملہ کیاتو زنگ آلود تلواروں والی قلیل فوج نے دیار غیرمیں بہادر ی کی وہ لازوال داستانیں رقم کیں اوراس بے جگری سے دشمن پر وار کیا کہ ایک لاکھ مسلح دشمن کی فوج ان کے سامنے نہ ٹھہرسکی اورمیدان بدر ہوگئی۔ یہ ٹوٹی تلوار والے ایک لاکھ کے مسلح لشکر پر غالب آگئے۔

کپڑوں پر پیوند لگے ہیں تلواریں بھی ٹوٹی ہیں

پھربھی دشمن کانپ رہے ہیں آخرلشکرکس کا ہے

زخموں کے نشان بدن پر سجانے والے مجاہدین جنہوں نے میدان جنگ میں دشمنوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا، اگریہ شکست بھی کھاجاتے تو بھی انہیں موردالزام نہ ٹھہرایا جاتا کیونکہ انہوں نے جس ہمت وجرأت کا مظاہرہ کیا وہ بہرحال قابل قدر وستائش تھا۔ اس کے برخلاف پرتعیش محلوں کے وہ باسی جنہوں نے مقابلے کی ہی ہمت ہی نہ کی اور بغیر جنگ لڑے اپنا مال، جان اورعزت دشمن کے حوالے کردی۔ جیسا کہ خلیفہ مستعصم جس نے تین لاکھ کی فوج اورجلال الدین خوارزم کی دعوت کے باجودصرف اس خوف سے تاتاریوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لیا کہ شکست کی صورت میں بغداد کو نقصان پہنچے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بالآخر ہلاکو خان نے اردگرد کے تمام مسلم علاقوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد بغداد پر نہ صرف حملہ کیا بلکہ اسے مکمل تباہ و برباد کردیا اوربیس لاکھ کی آبادی والے شہرسے صرف چار لاکھ افراد ہی زندہ فرار ہوسکے، خلیفہ وقت بھی مارے جانے والے لوگوں میں شامل تھا اور کئی دن تک دجلہ فرات میں پانی کی بجائے لاکھوں مسلمانوں کا خون اورلاکھوں نادر ونایاب کتابوں کی سیاہی بہتی رہی۔ اوران کی مثال اس شخص کی طرح تھی جس نے آگ لگ جانے کے بعد اس خوف سے ہاتھ پاؤں تک نہ مارے کہ باوجودکوشش وہ جل کر مرجائے گا۔ تویقینا اس ہلاکت کا سبب اس کی اپنی کوتاہی اورسستی ہے۔

کتنے معصوم ہیں انساں کہ جل جاتے ہیں

اپنی کوتاہی کودے کر غم وآلام کانام

ناکامی پر افسوس!

عظیم اورکامیاب ترین افراد کی بھی ہر کوشش کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کوئی عظمت کی دلیل نہیں کہ کوئی شخص کبھی ناکام ہی نہیں ہوا بلکہ ناکامی کے بعد مشکلات اورنامصائب حالات کا سامنا کرتے ہوئے کوئی شخص جس انداز سے جرات، بہادری اورحوصلہ سے مقابلہ کے لئے اٹھتا ہے وہ عظمت کی دلیل ہے۔ اسی کے بارے میں کنفیوشس(Confucius) کا مشہور قول ہے:

Our greatest glory is not, in never falling but in rising every time we fall.

ہماری عظمت اس میں نہیں کہ ہم کبھی نہ گریں بلکہ گر کر ہر بار (پہلے سے بھی زیادہ )بلندہونےمیں ہے۔

بعض اوقات ناکامی کا بھی سامنا کرناپڑسکتاہے۔ جیسا کہ مشہور سائنسدان اورموجدتھامس ایڈیسن(1847) کا شہرہ آفاق قو ل ہے کہ بلب کی ایجاد سے پہلے مجھے تقریباً تین سو بار ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا لیکن اس سے میں نے تین سو ایسے طریقے بھی دریافت کئے جن سے بلب نہیں بنتے اوراسی وجہ سے وہ صرف ایک بلب کی ایجاد تک محدود نہ رہا بلکہ اس نے اپنی زندگی میں تیرہ سو ایجادات رجسٹرڈ کرائیں اور آنے والوں کے لئے کئی ایسے راستے روشن کرگیا جن کے مرہون منت ہی آج سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ممکن ہوئی۔

لہذا اگر محنت و جدوجہد اوربہترین حکمت عملی کے باوجود بھی شکست ہوجائے تو پھر ناکامی پر افسوس وندامت نہیں ہوناچاہئے کیونکہ کسی بھی کام کے نتائج کے اظہار کی دوصورتیں ہیں۔ دنیاوی اور اخروی، عارضی اورقطعی، وقتی اور ابدی۔ اس وسیع تر تناظر میں دیکھاجائے توحقیقت یہی ہے کہ :

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر ضائع نہیں کرتا(التوبۃ:١٢٠)۔ اور حدیث مبارکہ :” مومن کا معاملہ حیرت انگیزہے۔ اس کے ہر معاملے میں خیروبھلائی ہے۔ ایسا مومن کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ رب کا شکر اداکرتاجس میں اس کے لئے بھلائی ہے اور اگر اس کو کوئی نقصان (ناکامی)پہنچے تو اس پر وہ صبر کرتا ہے جس میں اس کے لئے بھلائی ہے۔ ” (مسلم)۔

اس طرح مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا بلکہ صحت و مرض، غناء وفقر، کامیابی وناکامی، خوشی و غم اورنفع و نقصان الغرض زندگی کے تمام احوال میں وہ رب العزت کا شکر اداکرتا ہے اور اس کی رضا حاصل کرتاہے جو مومن کی زندگی کا مقصد حقیقی ونصب العین ہے۔

دنیاوی اعتبار سے بھی ناکامی کامیابی کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ انسان اپنی خامیوں اورکوتاہیوں کاادراک کرلیتاہے۔ غلطی جان لینے کے بعد اسے دہرانایہ مومن کی شان کے خلاف ہے۔ یعنی مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ وہ نہ صرف اپنی غلطیوں بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے بھی سبق سیکھتا ہے اوران کا تدارک کرنے کی کوشش کرتاہے۔

ثانیاً وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ جس کی تلاش میں کچھ دوسری راہیں اس پر روشن ہوجاتی ہیں جو انسان کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کردیتی ہیں۔ جب وہ ایک نئے عزم کے ساتھ دوبارہ کوشش کرے گا تو کم از کم ان غلطیوں کو نہیں دہرائے گا جن کی وجہ سے اسے ناکامی کا سامناکرنا پڑا۔ بہرحال انسان کو کبھی بھی مایوس، مضمحل، پرمژدہ نہ ہونا چاہئے۔

نہ ہو مضمحل میرے ہم سفر، تجھے شاید نہیں اس کی خبر

ان ہی ظلمتوں کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے

عظیم مقاصد کے حامل افراد اگر اپنے مقصدعظیم میں کامیاب نہ بھی ہوں توچھوٹے چھوٹے کئی فوائد ضرور حاصل کرلیتے ہیں۔ مثلاً پھل دار درخت لگانے والااگر اس درخت سے سے پھل نہ بھی حاصل کرپائے پھربھی اس کے سایہ سے محروم نہ ہوگا اور ماحولیاتی آلودگی میں ضرورکمی کا باعث بنے گا۔ یا علم کی فضیلت جاننے والا اگر علم کی بڑی بڑی قندیلیں روشن کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے لئے اپنی مکمل زندگی صرف کردے اگر اس میں اسے کامیابی نہ بھی حاصل ہوئی مکمل معاشرہ علم کے نور سے روشن نہ بھی ہوا تو اس سے مستفید طبقہ کچھ علم کے نور سے تومستفیض ہوگا اور اس طرح وہ اپنے بجھنے سے پہلے کچھ شمعیں توجلانے میں بہرحال کامیاب ہوہی جائے گا۔

عمربھرجلنے کااتناتوصلہ پائیں گے ہم

بجھتے بجھتے چند شمعیں توجلاجائیں گے ہم

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”فلسفۂ ناکامی ۔۔۔۔۔ابوعبدالقدوس محمد

  1. محترم جناب ایڈیٹر مکالمہ
    جناب فلسفہ ناکامی آپ کی ویب پر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔محترم یہ تحریر میری ہے اورمیرا پورا نام ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ ۔لہذا یہاں لفظ یحییٰ کا اضافہ فرمادیں ۔میں آپ کی خدمت میں مزید تحاریر ارسال کرنا چاہتا ہوں ۔میں نے آپ کے رجسٹرہونے کی کوشش کی لیکن بے سود۔لہذا مجھے اپنا ای میل ایڈریس عنایت کریں جہاں میں آپ کی خدمت میں مزیدتحاریر ارسال کرسکوں۔شکریہ
    والسلام

Leave a Reply