روزگار کے سلسلہ میں اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ دیس اور پردیس کے بیچ پنڈولم کی طرح جھولتے ہوئے گذرا ہے۔ آنے کی خوشی نہ جانے کا غم ۔ لیکن جب بھی فیملی کے ساتھ سفر درپیش ہوتا ہے، ہفتوں قبل ایمرجنسی سی نافذ رہتی ہے:
’’بُکنگ ہو گئی ؟، ٹکٹ مل گئے۔۔ ؟ ، بی بلاک والے گرائیوں کے لئے مٹھائی اور پارے ڈھاکے والے بھائیوں کے لئے سَکّ،ککھ ، سُمبلوُ،ککڑولے، ہولے، اور چھولے لے لئے ہیں ۔۔۔؟ کپڑے استری کروائے یا اُسی لٹکتی لمکتی شلوار قمیض میں ہوائی سفر کے سہ روزہ کا ارادہ ہے ؟. خدا واسطےاب اس ’’گرگابی‘‘ کو چُھٹّی دے دو، کوئی نہیں جانتا کہ اس کی ایڑیاں ایک طرف سے جڑ تک گھِسی ہوئی ہیں ۔ دیکھنے والے چال دیکھ کریہی سمجھتے ہیں کہ تمہارا چلن ’’تڑ‘‘تک بگڑا ہوا ہے۔ اور ہاں موزے اورٹائی تو میں نے پچھلے ہفتے ڈرائی کلین کروا چھوڑے تھے، لیکن تمہارا پرنا اورلی گورے کا کالا چشمہ نہیں ملا۔ ابھی پرسوں ہی بچّے پہن کر اندھا بھینسا کھیل رہے تھے۔ ‘‘
عرض کیا آپ ہمیں اتنا دیہاتی بھی مت سمجھیں ،آپ نے سردار رنگلا خان کا بنگلہ تودیکھا ہے، بیٹھک میں اُن کی قد آدم تصویر بھی دیکھی ہو گی؟ غور کرتیں تو یاد رہتا کہ سردار صاحب نے اپنے قد سے پکّے بٹّے ایک ڈانگ اُونچا شملہ زیبِ سر فرما رکھا ہے ۔ وردی اس قدر کلف زدہ کہ شلوار کی دھار پر تلوار ہونے کا گمان گذرتا ہے۔ کوٹ کی جیب میں رومال قرینہ سے اڑسا ہوا ہے۔ دوہری گرہ کی ٹائی بھی ڈاٹ رکھی ہے۔ کہتے ہیں پہلے بی ڈی انتخابات میں جو پوسٹر چھپوایا گیا،شملہ اُس سے کہیں اُونچا نکل گیا تھا۔ کارکنان کو امیدوار کی قرارواقعی سر بلندی کے لئے شملہ کا بقیّہ آٹے کی لئی سے پوسٹر سے اُوپرچپکانا پڑا تھا۔ یہ تاریخی واقعہ ہم نے صرف اس لئے لف ہذا کیا کہ انگریزوں کے راج میں اگرسردار رنگلا خان جیسا معتبر بٹلرشلوار قمیض کے ساتھ ٹائی پہنتا تھا، تو ہم بھی موصوف کی تقلید کر سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس شلوار قمیض کے علاوہ نک ٹائی بھی ہے ۔‘‘
’’نک ٹائی ۔۔۔۔؟‘‘بیگم جل بھُن کر بولیں ’’وہ تو آپ ٹوہر شوہر نکالنے کے لئے صرف برفانی طوفان میں دوہرے مفلر تلے باندھتے ہیں یا پھر کمپنی کے حکم پر پاسپورٹ سائز تصویر مہیّا کرنے کے لئے فوٹو گرافر کی دُکّان پر۔ ‘‘
یہ اور ایسی کئی آپ بیتیاں اور پاپ بیتیاں ہم پراچانک اُس وقت کِریں گریں جب بے دھیانی میں ہم نے نسیم سلیمان کی ’’یادوں کی الماری‘‘کا پٹ ذرا سا کھولا۔ ایسا نہیں کہ نسیم سلیمان ہماری طرح ’’بجّوڑ‘‘(غیر سلیقہ شعار) ہیں ۔ لیکن الماری چھوٹی ہو اور مال متاع کثیر تو سلیقہ در بھِتّ کجا،کُنڈے قبضے اکھاڑکر اُمنڈ پڑتا ہے۔ جیسا کہ اوپرعرض کر چکے ہیں کہ ہماری نیک نیّت بیگم آج بھی ہمیں مُنڈا کھُنڈا اور ’’بابو شابو‘‘بنائے رکھنا چاہتی ہیں ، لیکن ہمارے قبضے کُنڈے کھونچلے ہو چکے ہیں ، درازیں
درزیں بند ہونے کو نہیں آتیں۔ اسی طرح نسیم سلیمان کی نیک بیتی میں وفور پایا جاتا ہے
لیکن تنگ دامانی کی وجہ سے سامان امنڈا پڑاہے۔ اس حد تک کہ بچاری الماری کے چاروں اورجگہ جگہ پسلیاں اور پیٹ نکل نکل آئے ہیں۔ آپ نے گوالمنڈی کا سیٹھ جھانواں مانواں دیکھا ہے؟
نسیم سلیمان جن اُستانیوں اور ’’اُستانوں‘‘کی پڑھی پڑھائی ہیں ، پورا خِطّہ اُن کی استادیوں کا معترف رہا ہے۔ نسیم نے اُن ہستیوں کا ذکر کر کے بہت کچھ یاد دلا دیا۔
کس حوالے سے مجھے کس کا پتا یاد آیا
حسن کافر کو جو دیکھا تو خدا یاد آیا
’’یادوں کی الماری ‘‘ کے دوسرے خانہ ’’وی یے وی یے چار سو‘‘میں آیا ہے کہ:
’’جب پہاڑے کی کلاس شروع ہوتی تو چھُٹی کے شوق میں بڑے متحرک ہو جاتے۔ اور پورے زور و شور سے پہاڑے پڑھتے۔ دوسری یا تیسری کلاس کا کوئی ایک یا دو اسٹوڈنٹس کھڑے ہو جاتے اور کورس کے انداز میں ’’پہاڑے‘‘پڑھاتے۔۔۔۔ اک دونی دونی دو دونی چار‘‘
(اورتفریحی گھنٹی کے بعد یہی وہ پُر مسرّت موقع ہوتا جب اسیرانِ بلا کی رہائی کا بگل بجتا تھا۔۔۔۔۔ چلووووو چھُٹّی)
’’کالج اور ہم‘‘والے الماری کے خانہ میں جو مال ٹھُنسا ہوا ہے،اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: ’’راستے اللہ کی مدد سے خود نکل آتے ہیں،راستہ نکل آیا۔کالج میں آنے کا خواب خواب پورا ہوا۔ دُور تو تھا نہیں ،بس نیچے اسکول تھااور اس سے ذرااوپر کالج۔ اُس دور میں کالج کی پرنسپل میڈم خالدہ قدرت شمسی تھیں ۔ماشااللہ کیا جادوئی شخصیت تھیں وہ۔ اُن کی ذاتی توجہ اور دلچسپی کی وجہ سے کالج صحیح معنوں میں کالج لگ رہا تھا۔ ‘‘
(میڈم سے ہماری بھی نیازمندی تھی ۔ ہم نسیم سلیمان کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں کہ میڈم شمسی جیسی ٹاورنگ پرسنلٹی کم از کم اپنے خطّہ میں ہم نے کوئی اور نہیں دیکھی۔ اُنہوں نے چومکھی لڑ کر برائے نام کالج کو کالج بنایا اور منوایا ۔ ہم اُنہیں سلیوٹ کرتے تھے، سلیوٹ کرتے ہیں ۔ اور ہاں میم خدیجہ حفیظ، سائرہ مصطفےٰ ، عذرا لطیف ، برکت رعنا اور اکبر خاتون کو سلام کرنا بھی ہم اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ یہ شخصیات نہ ہوتیں تو میڈم شمسی کا کام دشوار تر ہوتا۔ )
ہمیں ’’پہاپولہ ٹرانسپورٹ ‘‘اور ’’چودہ اُنّی‘‘کی تصاویردیکھ کر بہت کچھ یاد آیا۔ جس کا مفصّل ذکر کبھی اور کریں گے۔ اس وقت KIM(کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ) کی تصاویر دیکھ کر کچھ اور ہی یاد آگیا ہے۔ اور بے طرح یاد آگیا ہے۔ اس ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر سیّد اختر حسین شاہ ۔ ہمارے دور پار کے رشتہ دار اور قریبی یار۔ ہم پاک فضائیہ کے ایک تربیتی ادارہ میں ملے،پھر گھُلے ملے۔اور پھر بچھڑ گئے۔ غالباً چار سال کی جدائی کے بعد ایک سہانی صبح راولاکوٹ میں ملن ہوا۔ جو چند گھنٹوں کے بعد بچھڑن میں بدل گیا۔ شاید دودہائیوں کے بعد ہماری مختصر سی ملاقات ابوظبی میں ہوئی۔ اور پھر آج یادوں کی الماری سے ہمارا دوست کِرا۔ ہم گِرے ۔ جب اُٹھیں گے تو نسیم سلیمان کی تصنیف کو ازسرِ نو دیکھیں گے۔ تھینک یو نسیم سلیمان۔

’’یادوں کی الماری ‘‘ کے دوسرے خانہ میں ’’وی یے وی یے چار سو‘‘میں آیا ہے کہ:
’’جب پہاڑے کی کلاس شروع ہوتی تو چھُٹی کے شوق میں بڑے متحرک ہو جاتے۔ اور پورے زور و شور سے پہاڑے پڑھتے۔ دوسری یا تیسری کلاس کا کوئی ایک یا دو اسٹوڈنٹس کھڑے ہو جاتے اور کورس کے انداز میں ’’پہاڑے‘‘پڑھاتے۔۔ اک دونی دونی دو دونی چار‘‘۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں