ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا الزام کتنا سچاہے؟/عامر حسینی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے وجائنا پر تالہ ڈالنے کے واقعات کے حوالے سے جو تحریر لکھی اُس میں انھوں نے ملتان، ژوب کے ساتھ ساتھ عورتوں کے ساتھ اس سلوک کی مثالیں قبائلی علاقوں میں پائے جانے کا زکر کرتے ہوئے، اپنا ذاتی مشاہدہ بھی بیان کیا، میرے ذہن میں اسے پڑھتے ہوئے یہ خیال نہیں آیا کہ وہ سرائیکی، بلوچ،سندھی یا پشتونوں کے کلچر اور ثقافت کو من حیث المجموعی قابل مذمت قرار دے رہی ہوں، یہ اُن کا مقصد نہیں تھا لیکن جنھیں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تحریریں ویسے ہی “گستاخی” لگتی ہیں، وہ اس پر پھٹ پڑے ہیں میل شاؤنسٹ (ان میں بہت ساری خواتین بھی شامل ہیں جن کا تعلق زیادہ تر دائیں بازو کے مذہبی بنیاد پرست سیکشن سے ہے) کہیں تو سرائیکی، بلوچ قوم پرستوں کو اُکسارہے ہیں تو کہیں سندھی اور پشتون قوم پرستوں کو مشتعل کررہے ہیں –
کئی ایک تو ایسے چغد ہیں وہ امر سندھو اور عرفانہ ملاح سے توقع لگا بیٹھے ہیں کہ وہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے ‘ترقی پسند’ ہونے کا میڈل چھین لیں –

کچھ کا بس نہیں چل رہا وہ ڈاکٹر صاحبہ پر اگر 295 سی کا نہ سہی 298 اے کا مقدمہ ہی درج کرادیں –

ایک زمانہ تھا جب ‘جنسی ہراسانی’ کا لفظ ہمارے ہاں اسقدر مروج نہ تھا اور اس کے خلاف کمپین ابھی اشراف کے ہاں تک محدود تھی، اُس زمانے میں جب عورتوں کے خلاف اس بہت بڑے حقیقی سماجی مظہر پر گفتگو کی جاتی تو آپ کو فوری ‘مغربیت زدہ’ کہہ دیا جاتا تھا-

میں نے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کے دوران ٹین ایج لڑکوں، بچیوں کے ساتھ تو جنسی ہراسانی کے واقعات تو دیکھے ہی ساتھ ساتھ میں نے صرف نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ 30 سے 40 سال کی خواتین کے ساتھ بھی جنسی ہراسانی کے واقعات دیکھے اور زمانہ طالب علمی میں ہزاروں میں سے کوئی ایک بچی یا خاتون ہوا کرتی تھی جو اس پر جوابی ردعمل دیتی ورنہ سب خاموشی سے برداشت کرتی تھیں –
اور اُم رباب نے بالکل درست کہا کہ ہمارے گھروں میں ایسے واقعات پر عموماً عورتوں کو خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے-
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تحریریں ہمارے سماج کے تاریک ترین گوشوں کو سامنے لارہی ہیں ۔

مجھے ایسے موقع  پر منٹو اور عصمت چغتائی یاد آتے ہیں –
سماج میں اکثر “ناقابل تردید حقائق” کے بیان کو “ٹیبو” بنادیا جاتا ہے اور مطالبہ ہوتا ہے کہ عورتوں کو “بی بی پروین اختر” اور مردوں کو “حاجی ثناءاللہ” بناکر دکھایا جائے – جسے منٹو نے ننگے سماج کو زبردستی “چولی” پہنانے کے مطالبے کا نام دیا اور اس مطالبے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ٹھیک مطالبہ رکھا پہلے سماج کا ننگا پَن ختم کریں وہ ننگا پَن دکھانا بند کردے گا –

منٹو جب اُن عورتوں اور مردوں کے کردار سامنے لیکر آتا جن کا سب کو پتا تھا لیکن ان کے بارے میں بات کرنا بھی ٹیبو تھا تو اُس پر سٹیٹس کو کے حامی، رجعت پرست تو رہے ایک طرف خود ترقی پسند کہلانے والے بھی چیخنے لگ جایا کرتے تھے – ایک ردعمل تو یہ تھا کہ ایسے کردار سرے سے ہمارے سماج میں موجود ہی نہیں ہیں، منٹو سنسی خیزی پھیلارہا ہے، دوسرا ردعمل یہ تھا کہ کیا ‘عورتیں اور مرد’ بس وہی ہیں جن کے کردار منٹو کی کہانیوں میں ہیں؟ دونوں رد عمل کھلے لفظوں میں یا بین السطور مطالبہ یہ کررہے تھے کہ منٹو ان کرداروں پر مبنی اپنی کہانیاں نہ لکھے –

یہی دو ردعمل عصمت چغتائی کی کہانیوں اور ناولوں پر سامنے آئے تھے –

Advertisements
julia rana solicitors london

اب طاہرہ کاظمی عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے جن معاملات پر تفصیل سے لکھ رہی ہیں اور اُن کی تائید اُن سے سینئر، اُن کی معاصر اور اُن سے جونئیر گائناکالوجسٹ کررہی ہیں تو ردعمل دو طرح کا ہی ہے، ایک ردعمل ہے کہ کیا بیان کرنے کو یہی معاملات رہ گئے ہیں؟ ایک نسوانی امراض کی ماہر سرجن خاتون ڈاکٹر اپنے شعبے میں اپنی پریکٹس کے دوران اور اس پر تحقیق و مشاہدے کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر لکھ رہی ہے تو یہ تو بہت اچھا ہے، وہ جس  شعبے کی ماہر ہے اسی پر بات کررہی ہے ناکہ وہ پاکستانی معیشت یا سیاست پر خود کو ماہر بناکر پیش کرے اور پھر کہے ‘مستند ہے میرا فرمایا ہوا’، یہاں یہی تو ہورہا ہے، کئی ایک شاعر اور ادیب فکشن اور شاعری لکھنے اور اس راستے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے سیاست دانوں کی طرح بیانات جاری فرمارہے ہیں اور اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں پر بلاسفیمی کے الزامات عائد کرنے لگتے ہیں –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply