بچپن کے کھیل پچپن والوں کے لیے یادیں۔۔۔۔عمیر اقبال

بڑے   کہتے ہیں جسمانی ورزش صحت  کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا پیٹ کے لیے روٹی اور کھیل کود ہر عمر اور ہر دور میں یکساں اہمیت کا حامل ہے۔جو شخص کھیل کود کو پڑھائی اور دیگر ضروری مشاغل کی راہ میں رکاوٹ اور وقت کا ضیاع سمجھتا ہے اس کی دماغی اور جسمانی ساخت اور کارکردگی انتہائی توجہ  طلب ہے۔ ایک روز یوں ہی کسی واقعے کے زیر اثر یہ معروف امر ذہن میں گردش کررہا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک انوکھا خیال بھی آوارد ہوا جس کو قلم بند نہ کرنا یقیناً  بڑی زیادتی ہوتی۔

ننھے منے معصوم بچے بعض اوقات اس لیے کھیل میں سستی دکھا جاتے ہیں کہ ان کے پاس نہ بیٹ ہوتا ہے نہ بال اور نہ ہی فٹ بال۔ المختصر وہ سامان مہیا نہیں ہوتا جس کے وہ نہایت شوقین ہوتے ہیں اور جس سے نئے نئے ریکارڈ بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

اپنے بچپن کے اس دور میں جب گیند اور بلے سے کھیلنا تو دور کی بات ٹھیک طرح سے پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ ہم کچھ ایسے “آؤٹ ڈور گیمز” کھیلا کرتے تھے جو بھلائے نہیں بھولتے اور جن کو کھیلنے کی تمنا آج بھی شدت سے دل کے ایوانوں میں شور مچاتی ہے۔ ان کھیلون کا تذکرہ یقینا احباب کے لبوں پر مسکراہٹ کا سامان مہیا کرے گا۔

1 پکڑم پکڑائی:

مختصر وقت کے پیش نظر کھیلنے کے لیے ایک بہت ہی عمدہ کھیل۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ چار پانچ بچے”پُگم ” کے ذریعے یہ فیصلہ کرتے کہ “دام” کس کا ہے؟ پگم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سارے کھلاڑی اپنی اپنی ہتھیلی کی پشت کو لٹکا کر ایک ساتھ ملاتے اور اچھال دیتے۔ کسی کا ہاتھ سیدھا ہوتا تو کسی کا الٹا۔ فیصلہ اکثریت کی بنا پر ہوتا تھا۔ یعنی پانچ میں سے تین سیدھے ہاتھ نکلے تو تینوں خطرے سے باہر۔اب بچے دو۔ دو میں فیصلہ کرنے کے لیے تیسرے ہاتھ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اس کو ایمپائر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ دوبارہ “پگم ” کی جاتی۔ دونوں فریقوں میں سے جس کا ہاتھ سیدھے یا الٹے کی بنا پر اکیلا رہ جاتا پکڑنے کی باری اسی کی ہوتی۔

اب کھیل شروع ہوجاتا ہے اور پکڑنے والا کسی ایک جگہ پر کھڑا ہوکر پانچ سے دس تک گنتا ہے تاکہ بھاگنے والے جلد سے جلد پکڑنے والے کی پہنچ سے دور ہوسکیں۔ متعین گنتی کے بعد جب پکڑم پکڑائی شروع ہوتی ہے تو جو پہلے ہاتھ آگیا پکڑنے کی باری اس کی ہوتی۔ اس تیز رفتار گیم سے ایک تو دوڑ بھی اچھی خاصی لگ جاتی اور کم وقت میں تفریح اور جسمانی ورزش کا بھی اچھا خاصا انتظام ہوجاتا۔

2 برف پانی:

انتہائی دلچسپ اور مزے دار کھیل! یہ عام طور پر ویک اینڈ میں یا زیادہ وقت دستیاب ہونے کی بنا پر کھیلا جاتا۔ یہاں پگم کے ذریعے دو بندوں کا انتخاب کیا جاتا جن کو دام دینا ہوتا۔ ایک کا کام ہوتا پانی کو برف کرنا اور دوسرے کا کام ہوتا برف کو ڈیپ فریزر میں بند کرکے پگھلنے سے بچانا۔ مطلب یہ کہ ابتداء میں دونوں دام دینے والے ایک ساتھ بھاگنے والوں پر یلغار کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی “بھگوڑا” برف ہوا۔ دوسرا ساتھی اسے اپنے ساتھ لے جا کر کسی مخصوص جگہ پر اپنے پیچھے کھڑا کردیتا اور مدد کے لیے آنے والوں کو یا تو پکڑنے کی کوشش کرتا یا “قیدی” کو “ریسکیو ٹیم” سے بچانے کے لیے اپنی جان مارتا رہنا۔ اب یہ چھڑوانے والوں کا امتحان ہوتا تھا کہ کیسے اپنے ساتھی کو پھر سے بازیاب کراکر میدان میں لا سکیں۔ اتنی دیر میں پہلے والا ساتھی ادھر ادھر بھاگنے والوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے ساتھی کے پاس جمع کرانے کے لیے سر پٹ دوڑتا رہتا۔ اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آجائے کہ سب کے سب برف ہوگئے اور ایک آدھ ہی میدان میں رہ گیا تو دونوں ساتھی مل کر اس کو پکڑنے نکل پڑتے۔ چوں کہ پیچھے کوئی اور نہیں ہوتا تھا اس لیے یہ خطرہ نہیں رہتا کہ سارے برف کے گولے پھر سے پانی ہوجائیں گے۔

اب اگر وہ اکیلا کسی طرح دونوں دام دینے والوں کو “ڈاج” دے دے کر ایک دو کو بھی پانی کردیتا تو پکڑنے والوں کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور اگر وہ بھی پکڑا جائے تو پھر یہ دیکھا جاتا کہ پہلے دو کون پکڑے گئے ہیں۔ پھر باری ان کی ہوتی۔ لیکن یہ اس صورت میں، جب کھیل کو مزید جاری رکھنا ہوتا۔ ورنہ کھیل کی ایک نشست ختم ہوتے ہی سب اپنا اپنا ہوم ورک کرنے شرافت سے گھروں کی راہ لے لیتے۔

بہت سے بچے اپنی دام دیکھ کر ہی کلٹی ہوجاتے یعنی کھیل سے دستبردار ہوجاتے اور بعض مرتبہ پگم میں ہی کسی کی پدی لگ جائے تو وہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی “میں نہیں کھیل رہا ” کہہ کر نو دو گیارہ ہوجاتا۔ کوئی رحم دل لیڈر ہوتا تو اسے کھیل میں شامل رکھتا اور باری کسی اچھا بھاگنے والے کو دیتا۔ لیکن عام طور پر دستور یہ تھا اس کو ایسی حرکت پر آئندہ نہ کھلانے کی دھمکی دے کر فارغ کردیا جاتا۔

چھپن چھپائی:

چھپن چھپائی
تیری ساس کی ملائی
تو نے لپ لپ کھائی
تجھے شرم نہ آئی

یہ بچوں کا بنایا ہوا ایک خود ساختہ قطعہ تھا جس میں “آئی” کا لفظ جس کے سر پر آتا سمجھ لیجے کہ اس کی شامت آجاتی۔ یہ برف پانی پکڑم پکڑائی و دیگراں جیسے بھاگ دوڑ والے کھیلوں سے بالکل مختلف اور انتہائی مزے دار گیم ہے۔ لیکن صرف ان کے لیے جن کی باری نہیں ہوتی۔

اس کھیل کا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص کی باری ہوتی اور وہ کم جگہ ہو تو دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا اور 10 سے لے کر سو تک کی گنتی گنتا۔ جتنی زیادہ گنتی رفتار اتنی ہی تیز اور جتنے کم اعداد اسپیڈ اتنی ہی دھیمی۔ بنیادی طور پر اس گیم میں دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ایک “ایمپریس” دوسری “بھنڈا”۔ ایمپریس بغیر ہاتھ لگائے دام دینے والے کو کرنا ہوتا تھا۔ جبکہ بھنڈا پوشیدہ لوگوں کو کرنا ہوتا تھا۔ گاڑیوں کے نیچے، درختوں کے اوپر، موٹر سائیکل کے پیچھے، کیاریوں کے اندر غرض یہ کہ بڑی دلچسپ دلچسپ جگہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی جاتی اور دام دینے والے کو نانی یاد دلائی جاتی ۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا کہ جھنڈ کا جھنڈ ایک ساتھ پکڑنے والے پر حملہ آور ہوجاتا اور بھنڈا کرکے ہی دم لیتا۔

ایک خوش گوار یاد:

یہ کھیل راقم الحروف نے اپنی اکلوتی بڑی ہمشیرہ کے ساتھ گھر میں بھی خوب کھیلا ہے۔ ایک کمرہ، کچن اور لاؤنج ہمارے چھپنے کی جگہیں ہوا کرتی تھیں۔ ڈرائنگ روم اس لیے نہیں کہ وہاں دام دینے والا کھڑا ہوکر چھپنے والے کا انتظار کرتا تھا۔ جب دام میری ہوتی تو دو سے تین منٹ میں ہی بہن کو ڈھونڈلیتا تھا۔ لیکن جب چھپنے کی باری آتی تو ایک مرتبہ میں غیر متوقع طور پر کچن میں رکھی میلا دانی کے اندر چھپ گیا۔ کچن کے ہی پچھلے حصے میں ایک چھوٹی سا دھوبی گارڈ بنا ہوا تھا جہاں کپڑے اور برتن وغیرہ کی دھنائی ۔۔۔۔۔ معاف کیجے گا دھلائی ہو کرتی تھی۔ میلا دانی بھی اسی جگہ ایک طرف سلیقے سے براجمان تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب میں بہت مشکل سے پکڑ میں آیا ۔ مگردوسری مرتبہ تو حد ہی کردی۔ میلا دانی سے بھی زیادہ مشکل جگہ ڈھونڈنے کے کے چکر میں ایک دھماکے دار آئیڈیا ذہن میں آیا۔

ان دنوں گھر میں جو فریج موجود تھا وہ الماری کی طرح لمبائی میں جانے کے بجائے ٹیبل کی طرح چوڑا ئی میں نکلتا تھا۔ صبح صبح ڈیپ فریزر والے خانے کی صفائی کرائی گئی تھی اور وہ 99٪ خالی تھا۔ میں نے اپنی دبلی پتلی جسامت ا فائدہ اٹھایا اور ڈیپ فریزر میں گھس گیا۔ طویل تلاش کے باوجود جب بہن مجھے ڈھونڈ نہ پائی تو میں خود ہی اندر سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اتفاق سے بہن ڈیپ فریزر کے ساتھ ہی مجھے تلاش کرنے کے لیے گہری سوچ میں کھڑی تھیں۔ میں جیسے ہی “بھاں” کرتا ہوا باہر نکلا بہن کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اس کے اگلے ہی لمحے ہم دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ جب شام میں امی کو یہ بات بتائی تو ہم پر ایک بار پھر سے ہنسی کا دورہ طاری ہوگیا۔

4 کھوکھو:

یہ بھی بہت مزے دار کھیل تھا۔ نجانے کیوں اس کھیل کا نام سن کر مجھے ہمیشہ ایف ایم پر سنا ہوا ایک گانا یاد آجاتا ہے۔ (شاید وحید مراد پر فلمایا گیا تھا) جبکہ دونوں میں کوئی مطابقت نہیں ہے، لیکن سوچوں پر کسی کا پہرہ بھی تو نہیں ہے۔ چناں چہ کھیل کا تعارف دینے سے پہلے آپ کو وہ گانا سنادیتے ہیں۔

میرے خیالوں میں چھائی ہے ایک صورت متوالی سی
نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی
رہتی ہے وہ دور کہیں
اتا پتا معلوم نہیں
کوکو کورینا کوکو کورینا

شاید کھو کھو اور کوکو میں کسی حد تک لفظی ترادف اس گانے کی یاد دلاتا ہو۔ وگرنہ اس کے علاوہ مزید قیاس آرائیاں کرنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہم خود وقتا فوقتا آپ کو بتاتے رہیں گے ۔:)

اس کھیل میں تقریبا دس افراد تو لازمی ہونے چاہیے ۔ پانچ پانچ کی ٹیم کے حساب سے۔ کم بھی ہوسکتے ہیں مگر پھر کھیل میں وہ جان نہیں پڑے گی جو اس کا خاصہ ہے۔ چار کو مناسب فاصلے سے ایک سیدھی قطار میں کھڑا کردیا جاتا اور پانچواں باہر رہتا۔ باقی پانچ دائرے کے مخالف سمت تیار کھڑے ہوتے۔ جیسے ہی پانچواں کھلاڑی بھاگنا شروع کرتا۔ پوری ٹیم دائرے کے گرد سر پٹ دوڑ لگادیتی۔ پکڑنے والا بیچ کی لکیر پھلانگ نہیں سکتا تھا۔ لیکن یہ سہولت بھاگنے والوں کو میسر ہوتی تھی۔ چناں چہ پکڑنے والا ریسلنگ کی طرح دائرے کی سیدھ میں کھڑے اپنے باقی ساتھیوں کو پشت سے”کھو ” کہتے ہوئے اس کی جگہ پر کھڑا ہوجاتا اور پھر پکڑنے کی باری اس کی ہوتی۔ ایسا اس صورت میں ہوتا جب بھاگنے والا اس کی گرفت سے دور ہوگیا ہو یا پھر پکڑنے والے کا بھاگ بھاگ کر سانس پھول گیا ہو۔ جب سب آؤٹ ہوجاتے تو پھر اگلے فریق کے بھاگنے کی باری ہوتی۔

5 سیب سیب:

بہت ہی مشکل گیم سمجھا جاتا ہے اور یقینا ہے بھی۔ اس کے لیے دو دیواروں کا ہونا ضروری تھا۔ ایک دیوار پر تین چار بچے کھڑے ہوتے اور دوسری سامنے والی دیوار پر بھی اتنی ہی تعداد میں مختلف فاصلے سے فیلڈرز سیب کو پکڑنے کے لیے تیار رہتے۔ کرنا یہ ہوتاکہ سب کو چکما دیتے ہوئے دوڑ کر سامنے والی دیوار کو ہاتھ لگانا ہوتا تھا ۔ اس طرح آدھا سیب مکمل ہوجاتا۔ پھر اپنی دیوار پہ واپس آنا ہوتا تو پورا سیب مکمل ہوجاتا۔ اس میں کوئی بونس نہیں ملتا تھا۔ چاہے کوئی کھلاڑی آدھا سیب بنائے یا پورا۔ یا پہلے ہی پھیرے میں آؤٹ ہوجائے، بہر صورت باری ایک ہی ہوتی تھی۔ اسے کرکٹ کی طرح کا ایک کھیل کہہ سکتے ہیں جس میں آپ کو ٹارگٹ اچیو کرنا ہوتا ہے۔ شروع میں جتنا سیب بنایا جاتا بعد میں پکڑنے والی پارٹی کو اس سے زیادہ بنانا ہوتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دونوں فریق آدھا سیب بھی نہ بناسکے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میچ ڈرا ہوجاتا۔ المختصر سب سے بچ بچا کر سامنے والی دیوار کو ہاتھ لگانا بہت مشکل کام ہوتا تھا۔

6 پٹھو واڑی یا پٹھو گرم:

بہت مزے دار کھیل! چھوٹے بڑے سطحی پتھروں کا ایک مینار بنایا جاتا اور ٹینس بال سے نشانہ لے کر مارا جاتا۔ ایک نشانے باز تین مرتبہ مار سکتا تھا۔ نشانہ لگ جاتا تو پتھر ادھر ادھر بکھر جاتے۔اب نشانہ مارنے والی ٹیم کو بال کی ضرب سے بچتے ہوئے پتھروں کا مینار پھر سے تعمیر کرنا ہوتا تھا۔ اگر بال کسی کو کو لگ گئی تو اگلے فریق کی باری۔ کسی کو نہ لگی اور پتھر پورے کرلیے تو پھر سے اسی ٹیم اور اسی نشانہ باز کی باری۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بال پتھروں سے ٹکراتی اور سیدھا “وکٹ کیپر” کے ہاتھوں میں جاتی۔ ایسی صورت حال میں بھی پوری ٹیم آؤٹ ہوجاتی ہے۔ اس کھیل میں زیادہ سے زیادہ چھ افراد کا ہونا ضروری ہے۔ ویسے تو چار افراد میں بھی کھیلا جاسکتا ہے مگر اتنے کم افراد میں انجوائے منٹ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

7 ٹِپ ٹَاپ:

پلکا پھلکا سا گیم۔ برف پانی کی طرز کا کھیل کہہ سکتے ہیں۔ دو فرد پکڑنے والے۔ باقی سب بھانگے والے۔ بس فرق اتنا ہے کہ جو پکڑا جاتا اس کو کھڑا کرنے کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ اس کو کھڑا رہنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ بھاگنے والوں کو پکڑنے کے لیے ” ٹاپ” کا لفظ استعمال کیا جاتا۔ جیسے ہی کوئی پکڑ میں آتا ادھر ہی اپنی جگہ پر پنجوں کے بل یا جیسے چاہے بیٹھ جاتا۔ پنجوں پر بیٹھنے کو فوقیت اس لیے دی جاتی کہ ایک تو اس طرح کپڑے خراب نہیں ہوتے تھے دوسرا یہ کہ اگر کسی طرح پھر بحال ہوگئے تو فورا اٹھ کر بھاگنے میں آسانی ہوتی۔ پہلا اس کی نگرانی کرتا اور دوسرا باقیوں کو پکڑتا رہتا۔ جواپنے ساتھی کو چھڑانا چاہتا اس کو اسے ہاتھ لگا کر “ٹپ” کہنا پڑتا تبھی وہ آزاد ہوتا ورنہ سب کے پکڑ ےجانے کے بعد جو دو پہلے ٹاپ ہوئے تھے باری انہی کی ہوتی۔

8 آنکھ مچولی:

بہت پر لطف اور معروف کھیل۔ عموما گھر کے کسی چھوٹے کمرے میں سب کزنز کھیلا کرتے ہیں۔ کسی ایک کی آنکھ میں پٹی باندھ کر دوسروں کو بغیر دیکھے پکڑا جاتا ہے۔ پھر جو ہاتھ لگ جائے باری اس کی ہوتی ہے۔ پکڑم پکڑائی کی طرح۔ اس دوران یہ چیک کرنے کے لیے کہ اسے سب نظر تو نہیں آرہا ، آنکھوں پر دوپٹہ یا پٹی باندھ کر انگلیوں کے ذریعے سوال کیا جاتا کہ یہ کتنے ہیں؟ کبھی کوئی ایمان دار سچ بتادیتا کہ سب نظر آرہا ہےاور کبھی کوئی غلط ہندسہ بتاکر اپنی پوزیشن مستحکم رکھتا۔

اس کھیل میں بڑے رومانوی مناظر بھی وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کی تفصیل میں ہم ہرگز نہیں جائیں گے۔ لیکن اگر کسی کو جاننے کا بہت اشتیاق ہو تو ہندی فلموں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

یہ کچھ یاد گار اور مزے دار کھیل تھے جو محض حافظے کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔ اس لیے ان میں غلطی کا یقینی امکان ہے۔ لفظوں میں بھی اور کھیل کے طریقہ کار پر بھی۔

اب ایک کھیل یہ کھیلتے ہیں کہ اگر ان کھیلوں میں کوئی کمی بیشی یا کہیں کوئی پہلو تسلی بخش نہیں ہے یا کوئی غلطی ہے جس سے آپ واقف ہوں تو اس کی تصحیح کیجے اور اس کے علاوہ جو کھیل آپ نے اپنے بچپن میں گھر کے اندر یا باہر کھیلے ہیں ان کا بھی ذکر کیجے۔

اگلی نشست میں کوشش کی جائے گی کہ “انڈور گیمز” مثلا اکڑ بکڑ بمبے بو، چیل اڑی کوا اڑا وغیرہم پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تب تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ!

 

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply