کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(نواں دن)۔۔گوتم حیات

کچھ دنوں سے میری آنکھوں میں درد رہنے لگا ہے۔ نیند کہیں روپوش ہو گئی ہے اور بھوک جیسے  ختم سی ہو گئی ہے۔ بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پاتا ہوں۔ سارا دن اور ساری رات بستر پر آرام کرتے ہوئے بھی میں بے آرام سا ہو گیا ہوں۔ کل رات تو آنکھوں میں اتنا شدید درد محسوس ہوا کہ میں بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور دیر تک اپنی دونوں آنکھوں کو دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے ملتا رہا۔ پھر میں نے سر میں سرسوں کے تیل کی مالش کی اور جب کچھ راحت محسوس ہوئی تو دوبارہ سے بستر پر لیٹ گیا۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے رات کے تین بج گئے اور پھر اچانک کوؤں کی کائیں کائیں کا شور میری سماعتوں سے ٹکرایا۔ میں تشویش میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ یہ کوّے رات کی اس گھڑی کیوں شور کر رہے ہیں۔۔۔ کیا یہ کسی آنے والی مصیبت کو دیکھ کر ہم انسانوں کو ہوشیار تو نہیں کرنا چاہ رہے۔ یہ سوچ کر میری بےچینی مزید بڑھنے لگی۔ اپنے اطراف کا میں نے جائزہ لیا اور یہ محسوس کیا کہ ان کوؤں کی کائیں کائیں نے صرف مجھے ہی جھنجھوڑا ہے، میرے گھر اور گلی کے دوسرے لوگ تو مزے سے سو رہے ہیں۔ لیکن میں وثوق سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ دوسرے لوگ مزے سے سو رہے ہیں، کیونکہ میں تو اپنے کمرے کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی یہ سب اندازے لگا رہا ہوں۔ کیا معلوم وہ سب بھی میری طرح اپنے اپنے بستروں پر دراز بےچینی کی کیفیت میں کروٹیں بدل رہیں ہوں اور کوؤں کی ان صداؤں پر شش و پنج میں مبتلا ہوں۔
انہی خیالات کے بھنوروں کے چکّروں میں ڈولتے ہوئے مجھے کہیں دور سے کسی مُرغ کے بانگ دینے کی آواز آئی۔ اس لمحے مُرغ کی بانگ مجھے بہت بھلی لگی اور میں خوش ہوا کہ سحر اب قریب ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد میں پھر کوؤں کی کائیں کائیں کے شور کے بارے میں غوروفکر کرنے لگا کہ رات کی اس گھڑی کوؤں کے کائیں کائیں کرنے میں آخر کونسا راز پنہاں ہے۔۔۔ کاش مجھے بھی قدرت کی طرف سے اس راز کو سمجھنے کی اہلیت مل سکے، آخر کو ہم انسان گزرے زمانوں کے مقدّس صحیفوں کے مطابق”اشرف المخلوقات” ہیں اور ہمارا رُتبہ دنیا کے تمام چرند پرند سے بڑھ کر ہے۔ یہی باتیں سوچتے سوچتے محلّے کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آئی اور بے اختیار میرے کان میں برسوں پہلے کسی کتاب میں پڑھے گئے ایک شعر کی سرگوشی ہونے لگی اور میں اسے گُنگُنانے لگا۔
اگر میں غلط نہیں تو یہ شعر محترم اشرف یوسفی صاحب کا ہے۔ ان کا یہ شعر پرندوں کی صداؤں کو افضل ترین بنانے کے لیے کافی ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے وہ شعر درج ذیل ہے؛
اذانوں نے بہت دھوکے دیے  ہیں
پرندوں کی صدا پر جاگتا ہوں۔۔۔
اس شعر کو گُنگُناتے ہوئے میں گہری نیند میں چلا گیا اور جب میری آنکھ کُھلی تو آدھا دن بیت چکا تھا۔ بھوک کی شدّت سے نڈھال میں اپنے کمرے سے اُٹھ کر نیچے کچن میں گیا۔ وہاں پر میرے لیے ایک پلیٹ پر دو پراٹھے ڈھانک کر رکھے ہوئے تھے۔ پراٹھوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد میں نے آدھا گلاس دودھ میں آدھا کپ پانی ملا کر چائے کی چھوٹی پتیلی میں ڈالا اور اسے چولہے پر رکھ کر ہلکی آنچ دی۔ اس دوران کافی کے دو چمچ ایک خالی کپ میں ڈال کر میں اُسے سونگھنے لگا، کافی کو یوں سونگھتے ہوئے مجھے بیحد لطف آرہا تھا، میں دیر تک یوں ہی چولہے کے سامنے کھڑا اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے کافی کے کپ کو سونگھتا رہا اور پھر چولہے پر رکھی پتیلی سے تیز اُبلتا ہوا پانی ملا دودھ کپ میں انڈیل کر اس کو چمچ سے ہلایا۔ کافی کو سونگھ کر میری طبعیت میں پُر کیف سی مدہوشی طاری ہو چکی تھی اس لیے پلیٹ پر ڈھکے ہوئے دونوں پراٹھوں کو نظرانداز کر کے میں خالی پیٹ کافی پیتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
فرصت سے کافی پینے کے بعد میں جب اپنے موبائل فون کی طرف متوجہ ہوا تو اس میں مِسڈ کالز کے نوٹیفیکیشن نمایاں تھے۔ میں نے نمبر دیکھا تو وہ نزہت شیریں کا تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ دن کے اس پہر ان کی کال کیونکر آئی ہو گی۔۔۔۔ خیر میں نے ان کا نمبر ملایا اور کچھ دیر بعد دوسری طرف سے ہنستی مسکراتی ہوئی نزہت شیریں کی آواز آئی۔ وہ صائمہ کے لیے فکرمند تھیں اور پھر مجھے کہنے لگیں کہ عاطف تم بہت ہی اچھا کام کر رہے ہو یہ کرونا ڈائری لکھ کر، میں تو چاہتی ہوں کہ تم یہ لکھنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھو اور میں نے “مجاہد” سے کہا ہے کہ وہ تمہاری کرونا ڈائری کی قسطیں اپنے میگزین “رہبر” میں بھی شائع کریں۔
مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کہ “نزہت شیریں” نے میری چھوٹی سی کاوش کو اتنا سراہا۔۔۔ بات چیت کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہو گئی ہوں، گھر سے باہر جانا اب مفقود ہو چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بہت اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ میرا وزن حیران کُن طور پر کم ہونے لگا ہے اور جب میں نے اپنی موجودہ روٹین کا جائزہ لیا تو ایک نکتہ میری سمجھ میں آیا کہ یہ سب ہر روز گھر پر میرے جھاڑو پونچا لگانے کی مہربانی سے ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں گھر پر یہ کام کاج کر کے میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم آفس میں کام کرنے والی خواتین اپنے کمفرٹ زون میں رہ کر آرام طلب ہو چکی ہیں اس لیے ہمارا وزن بےتحاشا بڑھ جاتا ہے اور پھر اس کی وجہ سے دوسری بیماریاں بھی انسان کو لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم آفس میں کام کرنے والی عورتوں کو تندرست و توانا رہنا ہے تو ہمیں اپنے گھروں میں جھاڑو پونچا کرنے کی عادتوں کو اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے گھریلو کام اگر ہم اپنے گھروں میں خود سے کرنے لگیں تو اس کے مثبت نتائج ہماری شخصیت میں جھلکیں گے اور عاطف میں تو مردوں کے لیے بھی یہ کہوں گی کہ وہ آفس کے کاموں کے علاوہ گھر کے کاموں پر بھی تھوڑی توجہ دے دیا کریں، کچن کے سِنک پر پڑے ہوئے گندے برتنوں کو دھو لینے اور کمرے کی جھاڑو لگا دینے سے ان کی مردانگی پر کوئی آنچ نہیں آجائے گی۔
مجھے نزہت شیریں کی یہ باتیں سن کر اچھا لگا۔ میں مکمل طور پر متفق بھی ہوں ان کی باتوں سے۔۔۔ کاش کہ ہمارے شہر کے دوسرے لوگ بھی ان اہم باتوں پر سوچ بچار کریں اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔
میں اپنے پڑھنے والوں کو نزہت شیریں کے بارے میں آگاہ کرتا چلوں کہ یہ خاتون “سندھ کمیشن برائے حقوقِ نسواں” کی “چئیرپرسن” ہیں۔ مرد اور عورت کے یکساں حقوق پر مجھے فہمیدہ ریاض کی نظم کا ایک اہم شعر یاد آرہا ہے۔۔۔
عورت اور مرد برابر ہیں،
اور یکساں ہے حق جینے کا!
آج مارچ 2020 کی آخری تاریخ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ دن ڈھلنے کے بعد مغرب کی اذان کو ہوئے بھی آدھا گھنٹہ بیت چکا۔۔۔ میں اس وقت اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا فرحت بخش ہَوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی ڈائری کی نویں قسط کو مکمل کر رہا ہوں۔ آسمان پر شعبان کا چاند جِھلملا رہا ہے۔ اس سمے میں اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھا کر شعبان کے چاند سے پوچھتا ہوں کہ آج کرونا کے سبب پاکستان سمیت دنیا بھر میں کتنی اموات ہوئی ہوں گی؟؟؟ کیا آنے والے دنوں میں کرونا کی بلا ٹلے گی یا ہم اس کے تعفن زدہ سیلاب میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائیں گے۔۔؟ میں آسمان کی طرف سر اُٹھائے چاند کے جواپ کا شدّت سے منتظر، تنہا، چھت پر بیٹھا کئی طویل گھڑیاں گزار چکا ہوں۔۔۔ مگر چاند کا کوئی جواب نہیں آتا۔۔۔۔ چاند اب دیکھتے ہی دیکھتے برف جیسے سفید بادلوں میں چُھپ گیا ہے اور میں رنجیدہ دل کے ساتھ چھت سے سیڑھیاں اُتر کر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہوں!!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply