ڈاکٹر طاہرہ کو معاف کردیں/اظہر سید

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے ایک گھناؤنی سچائی بیان کی بیشتر سچے مسلمان اور پکے پاکستانی انہیں جھوٹی ،دروغ گو فراڈ اور بکواسیات کے ہتھیاروں سے چھلنی کرنے چل پڑے ۔ یہ بات سچ ہے تالہ معاشرے کا چلن نہیں بلکہ نفسیاتی مریضوں کے انفرادی کیسز ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے اس طرح کے کیسز کا تعلق کسی خاص علاقے سے نہیں بلکہ کسی بھی پسماندہ اور روایات میں جکڑے علاقہ میں اس طرح کے انسانیت سوز واقعات ہوئے ہیں ۔

جن گائناکالوجسٹ نے گواہی دی ہے وہ تمام کیسز اس وقت مشاہدے میں آئے جب پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ ایک کیس میں مظلوم کا تالہ لگا ایک حصّہ کٹ گیا ۔دوسرے کیس میں شدید انفکیشن پیدا ہوئی ۔تیسرے کیس میں متاثرہ حصّہ لٹک گیا ۔صرف چند کیسز کی گواہیاں ہیں اور وہ بھی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا آرٹیکل شائع ہونے کے بعد سامنے آئی ہیں ۔جس طرح کا مخالفانہ ردعمل آرہا ہے وہ سراسر غلط فہمی کی بنیاد پر ہے ۔تالہ بندی کہیں نہیں ہوتی اور نہ اس طرح کا کوئی کیس کہیں رجسٹرڈ ہے ۔ صرف انفرادی واقعات ہیں جو سالوں میں کہیں کہیں سامنے آئے ہیں ۔ ڈاکٹر طاہرہ نے انہی چند انفرادی کیسز کی بات کی ہے جسے یار لوگ اپنے علاقوں کا چلن سمجھ بیٹھے ہیں اور لاٹھیاں لے کر موذی کا سر کچلنے چل پڑے ہیں۔

بیس پچیس سال ہوئے ایک مولوی نے صرف شک کی بنیاد پر اپنی بیوی کے اسی حصہ کے اندر راڈ ڈال کر کرنٹ لگایا تھا جہاں تالہ لگانے کی بات ہو رہی ہے ۔ہم نے یہ کیس کور کیا تھا خاتون بچ تو گئی تھی لیکن دو تین سال بعد انہی زخموں کی وجہ سے مر گئی تھی ۔

بھارت میں گزشتہ سال ایک طالبہ کو چلتی بس میں بعض لڑکوں نے عصمت دری کا نشانہ بنایا تھا وہاں بھی عصمت دری کے بعد لوہے کا راڈ استعمال کیا گیا تھا وہ لڑکی بھی بعد ازاں مر گئی تھی ۔

کراچی میں ابھی چار روز قبل ایک نوجوان نے ایک راہ چلتی باحجاب لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا، سی سی ٹی وی کیمروں کی وجہ سے بیشتر پاکستانی دیکھ چکے ہیں۔

قبر سے میت نکال کر ہوس پوری کرنے والے معاشرے میں ایک خاتون ڈاکٹر کے مشاہدات پر مبنی تحریر کو جھوٹ قرار دینا ہم نہیں سمجھتے انصاف ہے ۔

کیس ایک ہو یا پانچ سات ،اس طرح کے کیس بھلے دو تین دہائیوں میں ملک کے کچھ حصوں میں سامنے آئے ہوں صرف اس بنیاد پر کسی گائناکولوجسٹ کو بدترین ٹرولنگ کا نشانہ بنانا ،کہ ایسا نہیں ہوتا درست نہیں۔

ٹھیک ہے ایسا نہیں ہوتا لیکن اگر چند کیسز میں ایسا ہوا ہے تو اس کا کیا کرنا ہے ۔
گواہیاں اور ثبوت مانگنا اس وقت ممکن ہے جب کوئی معاملہ رجسٹرڈ ہوا ہو ۔

جس ملک میں لڑکیوں کو شادی میں رقص کرنے پر زندہ جلا کر مار دیا جاتا ہو اور اس معاملہ کو سامنے لانے والا بھی کئی ناکام قاتلانہ حملوں کے بعد قتل کر دیا جاتا ہو وہاں اس طرح کے کسی جانور کی نشاندہی کرنا خود قتل ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے اور گائناکالوجسٹ اپنی اور مریض کی جان بچاتی ہیں پولیس کے پاس نہیں جاتیں ۔تالہ بندی کے انفرادی کیسز میں یقینی طور پر اسی لئے کوئی بھی معاملہ رجسٹرڈ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نوسر باز کو بچانے میں مصروف ہے کیونکہ نوسر باز کے ساتھ وہ بھی اور اس کا ساتھ دینے والے دوسرے  بھی سب پھنس رہے ہیں اس کے پاس مالاکنڈ ڈویژن میں قتل ہونے والی بچیوں یا نشاندہی کرنے والے کے قتل پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہے اسے زحمت دینے کی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے میں خرابیوں کو دور کرنے ،علم اور شعور عام کرنے اور عورت کو حقیر سمجھنے والی رسوم و روایات کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کو معاف کر دیا جائے اور عورت کو فخر کی بجائے غیرت سمجھنے والی ذہنیت کے خلاف ہتھیار اٹھانے چاہئیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply