سیاسی جماعتوں کا سوشل میڈیا / محمد اسد شاہ

میرا گزشتہ کالم سوشل میڈیا کے حوالے سے تھا- سوشل میڈیا کی عمومی طاقت اور پاکستان میں اس کے غیر ذمہ دارانہ استعمال پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور لکھا جانا چاہیے- کیوں کہ بہتری کی گنجائش تو ہمارے معاشرے کے تقریباً ہر شعبے میں ہے اور بہت زیادہ ہے- کئی بار خیال آیا کہ اس بارے میں کتاب لکھوں، لیکن پھر کسی وجہ سے یہ خیال جھٹک دیتا ہوں- اس پر بات فی الحال ملتوی کرتے ہوئے آج کے کالم کی طرف آنا چاہیے- اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ مربوط اور متاثر کن انداز میں پی ٹی آئی نے استعمال کیا- اس استعمال اور طریقۂ استعمال کے پیچھے چیئرمین پی ٹی آئی کا ذاتی ذہن اور مزاج کارفرما ہے- قارئین کو یاد ہو گا کہ چند سال قبل تک پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا کی جماعت، اور اس کے چیئرمین کو سوشل میڈیا کا وزیراعظم کہا جاتا تھا- ظاہر ہے ایسا طنزیہ کہا جاتا تھا کیوں کہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے چیئرمین کو کوئی غیر معمولی چیز بنا کر پیش کرتے تھے، اور ان کے وہ بلند بانگ دعوے پھیلایا کرتے تھے، جنھیں بڑھکیں کہا جاتا ہے- وقت ثابت کر چکا کہ وہ واقعی بڑھکیں ہی تھیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں- ان طنزیہ القاب کی دوسری وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو وزیراعظم بننے کی خواہش بہت شدید تھی، بل کہ اب بھی ہے اور بہت شدید ہے- یہ سب بڑھکیں، دعوے، جھوٹے وعدے، شرمندگی سے بھرپور سمجھوتے، اپنی ہی ہر بات سے یو ٹرن، اور پھر ہر یو ٹرن پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے ہوئے اسے اپنی قائدانہ خوبی قرار دینا، سب کچھ دراصل اسی کے باعث ہے، یعنی وزیراعظم بننے اور ہمیشہ وزیراعظم رہنے کی ہوس- پی ٹی آئی چیئرمین کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کے دل میں وزیراعظم بننے کی ہوس بہت پرانی ہے، ان کے اپنے کرکٹ کیریئر سے بھی پرانی- جذباتی نوجوان یہ جان کر حیران ہوں گے کہ کرکٹ کا کھلاڑی ہوتے ہوئے بھی عمران اکثر جنرل ضیاء الحق سے ملاقاتیں کرنے جایا کرتے تھے- کسی کھلاڑی کا سیاسی ایوانوں کے چکر لگانا بہت عجیب اور غیر معمولی ہے- پاکستان کرکٹ میں تب بہت بڑے بڑے نام شامل تھے، جیسے ظہیر عباس، جاوید میاں داد، عبدالقادر، سرفراز نواز، سلیم ملک وغیرہ- اگرچہ سرفراز نواز بھی کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت محدود سطح پر کچھ عرصے کے لیے سیاست میں آئے – لیکن درحقیقت ان سب کی توجہ کھیل پر تھی، اور کھیل کو اقتدار کی سیڑھی بنانے کا کیڑا ان کے دماغوں میں نہیں تھا- قومی ٹیم کا حصہ ہوتے ہوئے ایک ڈکٹیٹر جنرل سے ملاقاتوں کے لیے بار بار ایوان صدر کے چکر لگانے کی کوئی مثال عمران کے علاوہ دنیا بھر میں کسی اور کھلاڑی سے وابستہ نہیں- کرکٹ کے بعد عوام کے چندے سے کینسر ہسپتال بنانا بھی دراصل وزارت عظمیٰ کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ہی تھا- یہی وجہ تھی کہ 1992 میں جب پاکستانی ٹیم نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تو سٹیج پر عمران نے اسے اپنا ذاتی کارنامہ بنا کر پیش کیا اور ہسپتال کا ذکر بھی کیا، لیکن پوری ٹیم کو “مائنس” کر دیا- یہ حقیقت عمران کی بعض سیاسی تقاریر میں اس ہسپتال کے ذکر اور بہت سے دیگر واقعات سے بھی عیاں ہے- پھر اسٹیبلشمنٹ نے بہت “محنت” کر کے 2018 میں آخر کار عمران کا وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کر دیا- لیکن اس خواب کے پورا ہونے میں سوشل میڈیا کے بھرپور اور جارحانہ استعمال کا بھی بہت کردار ہے- پی ٹی آئی چیئرمین نے سوشل میڈیا کو گویا تلوار یا توپ کی طرح استعمال کیا- اس مقصد کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سینکڑوں ماہرین بھاری ماہانہ تنخواہوں پر بھرتی کیے گئے- جو بظاہر پی ٹی آئی کے سپورٹرز ہیں- ان کا کام صرف پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت پر دن رات کیچڑ اچھالنا تھا- یہ لوگ پاکستان، امریکہ، یورپ اور دیگر علاقوں میں اپنے فلیٹس، گھروں اور دفاتر میں موبائل فونز یا لیپ ٹاپس پر کام کرتے اور ڈالرز میں تنخواہیں وصول کرتے ہیں- اتنے زیادہ ڈالرز کہاں سے آتے ہیں، کیوں آتے ہیں اور کون دیتا ہے، یہ ایک معمہ ہے- ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے فارن فنڈنگ سے جوڑتے ہوں- سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک ایک ملازم مختلف فرضی ناموں سے سینکڑوں یا شاید ہزاروں اکاؤنٹس چلاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ایک اکاؤنٹ سے گالیوں اور کردار کشی پر مبنی کوئی تصویر یا تحریر ٹویٹ یا پوسٹ ہوتی ہے، اور صرف چند ہی منٹوں میں وہ لاکھوں اکاؤنٹس سے ری ٹویٹ یا شیئر ہو جاتی ہے- پھر سادہ دل مخلص ورکرز بھی اس کام میں شامل ہو جاتے ہیں، جو دراصل اس تیز ترین پھیلاؤ سے متاثر ہو کر اسے سچ سمجھ چکے ہوتے ہیں- مختلف پروپیگنڈا ٹرینڈز بنانا اور پھر “تا حکم ثانی” یہ ٹرینڈز چلاتے رہنا دراصل اسی تنخواہ دار لشکر کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے- پی ٹی آئی کی ایک اور زبردست تدبیر یہ ہے کہ اس کے سپورٹرز اور ورکرز ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے، ایک دوسرے کو فالو کرتے اور تقویت پہنچاتے ہیں- اس طرح یہ ایک مربوط، منظم اور مضبوط جال، نیٹ ورک یا نیکسز بن کر کام کرتے ہیں- حکومت ملنے کے بعد پی ٹی آئی نے خصوصاً وفاق، خیبرپختونخواہ اور پنجاب کے سرکاری وسائلِ کو بھی اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے لیے بہت فن کاری سے استعمال کیا- قارئین کو یاد ہو گا کہ پی ٹی آئی کے ایک سوشل میڈیا ملازم کی براۂ راست “اہم ترین خاتون” کے ساتھ ایک ٹیلی فون کال پکڑی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ ہر مخالف کو غدار بنا کر پیش کرنا اس تنخواہ دار ملازم کی نوکری کا حصہ تھا- اسی ملازم کو ایک صوبے میں سرکاری کابینہ کا حصہ بنایا گیا- یوں عوامی خزانے، پروٹوکول، مراعات اور سہولیات سے وہ ملازم خود بھی جی بھر کر مستفید ہوتا رہا اور پارٹی چیئرمین کا بیانیہ سوشل میڈیا پر پھیلانے کے لیے بھی استعمال کرتا رہا- خیبرپختونخواہ میں بھی نگران حکومت نے اس سلسلے میں تحقیقات کی ہیں، جن سے ہوش ربا انکشافات ہوئے ہیں- سرکاری وسائل کا ایسا استعمال کرپشن ہے، لیکن کیا کریں کہ ان کے سپورٹرز کی تربیت ایسی کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے چیئرمین سے منسوب کسی بھی کرپشن کو کرپشن تسلیم نہیں کرتے- چند ماہ قبل ایک عالمی ایجنسی نے دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے موثر ترین سیاسی استعمال میں ملوث پانچ جماعتوں میں پی ٹی آئی کو بھی شامل کیا ہے-
پاکستان میں سوشل میڈیا کے متاثر کن استعمال میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے- جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا ورکرز بہت نظریاتی اور مخلص نظر آتے ہیں- یہ لوگ پی ٹی آئی والوں کی طرح گالی گلوچ، بدزبانی اور کردار کشی نہیں کرتے، بس اپنی جماعت، نظریئے اور قیادت کی تعریف کرتے، انھیں اہم ثابت کرتے اور وضاحتیں پیش کرتے رہتے ہیں- پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا ورکرز بہت نظریاتی اور جوشیلے ہیں- بھٹو خاندان، اور اب زرداری خاندان کی شان بیان کرتے رہنا ان کا شیوہ ہے، گاہے بہ گاہے جنرل ضیاء الحق کو فرعون و یزید وغیرہ کی صف میں شامل کرنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں- البتہ جنرل ایوب، جنرل یحیٰی اور جنرل پرویز کے متعلق خاموش رہتے ہیں- ان لوگوں کو جب کبھی موقع ملے، شریف خاندان کے خلاف بھی بغض کا اظہار کرتے رہتے ہیں- لیکن ان کا لب و لہجہ پی ٹی آئی “ملازمین” جیسا نہیں ہوتا- پیپلز پارٹی سے وابستگی کے دعوے دار پانچ سات ایسے افراد بھی ہیں جو سوشل میڈیا پر دن رات صرف مسلم لیگ نواز اور اس کے مؤقف سے ہم آہنگ صحافیوں کے لیے نازیبا زبان استعمال کرتے رہتے ہیں- یہ پیپلز پارٹی کی سوشل میڈیا پالیسی نہیں، لیکن پھر بھی یہ لوگ انفرادی طور پر ایسا کرتے ہیں- بظاہر یہ بڑی عمر کے، اور خصوصاً شعبہ قانون یا صحافت کے پرانے تجربہ کار لوگ ہیں- لیکن ان کی غیر متوازن جذباتیت اور شدید زبان ان کے شعبوں اور پارٹی پالیسی سے مناسبت نہیں رکھتی- یہ لوگ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جنھیں گالی تسلیم کیا جاتا ہے- 50، 60 یا 70 کے پیٹے میں کسی شخص کا سوشل میڈیا پر ایسے الفاظ استعمال کرنا افسوس ناک ہے- جانے یہ لوگ اپنی پارٹی کو مقبول کرنا چاہتے ہیں یا کچھ اور –
سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نواز بھی بہت سرگرم ہے- پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کی طرح مسلم لیگ نواز کے ورکرز بھی کسی لالچ کے بغیر اپنی جیب سے مخلصانہ کام کرتے ہیں- بعض مواقع پر پی ٹی آئی کے “ملازمین” کی شدید بدزبانی کے جواب میں کہیں پیپلز پارٹی اور کہیں مسلم لیگ نواز کے ورکرز بھی ویسی زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں- لیکن یہ ان کا عمومی رویہ نہیں- اشتعال انگیزی کے مقابل بعض اوقات مشتعل ہو جانا انسانی فطرت ہے- لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس ردعمل سے بھی اجتناب کرنا چاہیے- محترمہ مریم نواز جب سیاست میں آئیں تو خیال یہ تھا کہ وہ جماعت کے سوشل میڈیا سپورٹرز کو منظم اور مربوط کریں گی- چناں چہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے بعد سب سے زیادہ کام مسلم لیگ نواز کے سپورٹرز کا نظر آتا ہے- محترمہ مریم نواز کی یہ بات اچھی ہے کہ وہ اپنے تمام سوشل میڈیا سپورٹرز کو خود فالو کرتی ہیں، اور بعض مخصوص ورکرز کے کام کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں- لیکن سب سپورٹرز کی حوصلہ افزائی کا راستہ محترمہ کے ارد گرد موجود ذاتی ٹیم نے روک رکھا ہے- محترمہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا انتظام چلانے والی ٹیم کے متعلق یہ درست مشہور ہے کہ اس نے اپنی ہی پارٹی کے لاکھوں بے لوث سوشل میڈیا ورکرز کو محترمہ مریم نواز کے اکاؤنٹس سے “میوٹ” کر رکھا ہے- اس کا مقصد یقیناً یہی ہے کہ ان سپورٹرز کا کام محترمہ مریم نواز کی نظروں سے اوجھل رہے، اور ان کی حوصلہ افزائی نہ ہو سکے- اسی خامی سے دوسری خامی یہ پیدا ہوتی ہے کہ محترمہ اپنے سپورٹرز کے شان دار کام سے بھی لاعلم رہتی ہیں اور یوں یہ سپورٹرز ایک دوسرے کی نظروں سے بھی اوجھل رہتے ہیں- جیسے پی ٹی آئی کے ورکرز ایک دوسرے کے اکاؤنٹس کو تقویت دیتے اور زیادہ سے زیادہ ری ٹویٹ یا شیئر کرتے ہیں، ویسا اصول مسلم لیگ نواز کے سوشل میڈیا سپورٹرز میں پروان نہیں چڑھ سکا- ایک طرف تو گزشتہ حکومت کی معاشی تباہی کی وجہ سے پورا ملک انتہائی خوف ناک مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اور اب حکومت میں ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کی مقبولیت خطرے سے دو چار ہے، اور آئندہ انتخابات میں ووٹرز کو راغب کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہو گا- اس پر مستزاد، اگر محترمہ اپنی ذاتی ٹیم کی اس “میوٹ” پالیسی کو فوری ختم نہیں کریں گی، اور سوشل میڈیا سپورٹرز کو اپنی حوصلہ افزائی سے محروم رکھیں گی تو ان کے اپنے ہی مخلص کارکن بددل ہوتے ہوتے سرد مہری اختیار کر لیں گے- میرے ذاتی علم میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اسی وجہ سے اب سوشل میڈیا پر خاموشی اختیار کر چکے ہیں- ایسا مرحلہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے زوال کا باعث بن جاتا ہے- جماعت اسلامی، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی توجہ بھی سوشل میڈیا کی طرف کم ہے، لیکن ان کے سپورٹرز کی نظریاتی تربیت بہت پائے دار ہے- ایسی تربیت ن لیگی ورکرز کی نہیں ہوئی-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply