اٹلی میں چھپنے والی کتاب اور ہم پاکستانی /محمود اصغر چوہدری

اٹلی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے ۔ آزاد– زبردستی کی شادی کو نہ ۔۔ جو ایک اطالوی صحافی مارتینا کاستیلیانی نے لکھی ہے ۔ویسے تو یہ کتاب اٹلی میں موجود ان غیر ملکی بچیوں پر تشدد کے موضوع پر ہے جن کی شادی زبردستی ان کے رشتہ داروں سے کروائی گئی ۔لیکن اس کا ایک ایک ورق بتاتا ہے کہ مسئلہ صرف زبردستی کی شادی کا نہیں ہے بلکہ غیرملکی بچیوں کو صنف امتیازی کی بنا پرکس قسم کے تشدد کا سامناہوتا ۔مارتینا ایک صحافی ہیں اور انہوں نے بڑی محنت سے چندسچی کہانیاں جمع کی ہیں جو ان بچیوں کی ہیں جوگھریلو تشدد سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئیں ۔ ورنہ ان کی کم ہمتی کا انجام بھی وہی ہو سکتا تھا جو اٹلی میں کچھ لڑکیوں کے قتل پر منتج ہوا ۔

کتاب میں مذکورہ بچیوں کا تعلق پاکستان ، انڈیا ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہے ۔ کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ مصنفہ نے نہایت سادگی سے واقعات کو قلمبند کیا ہے ۔اپنی  تحریر میں کہیں بھی اشتعال انگیزی اور سنسنی خیزی کو غالب نہیں آنے دیا ۔ اپنے قلم کے نشتر سے کسی ایک مخصوص مذہب یا ثقافت پر وار کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دیانتداری سے بار بار یہ دہرایاہے کہ زبردستی کی شادی کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے ۔ کہانی سنانے والی بچیوں کے نام ، جگہ ، علاقہ سب کچھ تبدیل کر دیا گیا اور ان کی داستان رقم کرتے ہوئے معمولی سے معمولی واقعہ جملہ یا طعنہ کو اس انداز سے حذف کیا گیا ہے کہ کسی بھی جملے سے ان کی شناخت یا پہچان ظاہر نہ ہو ۔ یعنی ان بچیوں کی پرائیویسی اور سیفٹی کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مصنفہ اس کتاب کی لانچنگ کے موقع پر اٹلی میں پاکستانی کمیونٹی کی  متلاشی رہیں لیکن پاکستانیوں کی جانب سے اسے خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی ۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں ایک تو ہماری کمیونٹی کو کتاب بینی کا اتنا شغف نہیں ہے دوسرا اس کا موضوع ایسا ہے کہ ہر پاکستانی نے یہ سمجھاکہ شاید یہ کتاب پاکستانیوں کے خلاف ہے حالانکہ اس کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ کتاب اگر ہمارے خلاف بھی لکھی گئی ہو تو اسے پڑھنا ضرور چاہیے ۔ مسائل کا حل ایک بہترین مکالمے میں ہی مضمر ہوتا ہے ۔ویسے تو ہم ایسے کند ذہن ہیں کہ ہر بھاگنے والی لڑکی کے معاملے کو جنس سے جوڑ کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں لیکن یہ کتاب پڑھیں تو ہمارا ذہن کھلے گا او ر ہمیں پتہ چلے گا کہ دو ثقافتوں میں پلنے والے بچے کس قسم کے کرب ،اذیت اور ذہنی دباؤ  کا شکار ہوتے ہیں ۔

اس میں کہانی ہے اس فاطمہ کی جس کا والداسے اٹلی تو لے آیا لیکن اسے کافروں کے سکول بھیجنا نہیں چاہتا تھا۔ پڑوسیوں کی شکایت پر پولیس گھر آئی اور بچی کو سکول لیکر گئی کیونکہ اٹلی میں ایک خاص عمر تک تعلیم لازمی ہے ۔ ثقافت سے دوری کا خوف ایک بھوت کی طرح والدین کے سرپر سوار ہے جو ایک چھوٹے بچے کی نفسیات کو سمجھ ہی نہیں پاتا،لباس کے پہناوے میں ہم مذہبی پہچان ڈھونڈتے ہیں چاہے بچہ ساری کلاس کے سامنے مذاق بن جائے ۔اسپورٹس کے پریڈ میں کوئی بچی گوٹے کناری  والا سوٹ پہن کر سر پر سرسوں کے تیل کی مالش کر کے پہنچ جائے گی تو بچے اس سے کیسے دور بھاگیں گے اس کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو ماہر نفسیات ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں بچیاں کیا کرتی ہیں والدین کو خوش کرنے کے لئے گھر سے برقعہ پہن کر نکلتی ہیں اور اپنے بیگ میں جینز بھی لے جاتی ہیں جو سکول جا کر تبدیل کرتی ہیں تاکہ اپنے ہم جماعتوں کے مذاق اور نفرت سے بچ پائیں یعنی بچپن سے وہ ایک دوہری زندگی جینا شرو ع کر دیتی ہیں۔

اسی کتاب میں یاسمین کی کہانی ہے جس کے والدین کا کہنا ہے کہ اگر پردہ نہیں کروگی تو جہنم میں جاؤ  گی ۔ اگر جاب کروگی تو ہمارے سارے خاندان کی بدنامی اور رسوائی کا باعث بنو گی ۔اسی کتاب میں زویا کی کہانی ہے کہ جس کی پیدائش پر اس کی ماں نے اسے دودھ تک پلانا چھوڑ دیا تھاکیونکہ وہ لڑکی پیدا ہوئی تھی اور لڑکی کو جلدی بڑا نہیں ہونا چاہیے اسی لئے جب اس کی پہلی ماہواری آئی تو اس کے والدین نے اس کی پٹائی کی کہ یہ منحوس اتنی جلدی بڑی کیسے ہوگئی ۔ کوئی اس بچی کے کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتا جس کے والدین اسے اس بات پر پٹائی کر رہے ہوں کہ ا سکے جسم میں فطرتی تبدیلیاں کیوں رونما ہورہی ہیں جبکہ اس بچی کو خود بھی پتہ نہ ہو کہ اس میں اس کا کیا قصور ہے ؟

اسی کتاب میں خدیجہ کی کہانی ہے کہ جب وہ اپنے گھریلو تشدد سے بھاگ کر پہلی دفعہ سائیکل چلانا سیکھتی ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کس چیز کا نام ہے ۔ اس میں ان بچیوں کی کہانیاں ہیں جنہیں ان کے والدین نے پٹائی کے ذریعے غلام بنانے کی کوشش کی کیونکہ ہر ایک کے ذہن میں یہ ڈر بیٹھ گیا تھا کہ وہ ذرا چوکے تو ان کی بچیاں ان کی بدنامی کا باعث بن جائیں گے ۔ایک ایسی لڑکی کہ کہانی ہے جو شادی کر کے اٹلی پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ اس کی پٹائی اس کا خاوند اور جیٹھ مل کر کریں گے تاکہ وہ کہیں یورپین نہ ہوجائے اور اس کی پٹائی کرتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں کریں گے کہ وہ حمل سے ہے ۔

کتاب میں مذکورہ کہانیوں کو آپ جھوٹا کہنا چاہتے ہیں تو شوق سے کہیں لیکن آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ مصنفہ کو یہ کتاب لکھنے کااضطراب کیوں پیدا ہوا ،اٹلی میں کچھ پاکستانی بچیاں قتل ہوئیں ہیں جن کا جرم دو مختلف ثقافتوں میں پروان چڑھنا تھا ۔ حناسلیم ، ثمن عباس، ثنا چیمہ، آزکا ریاض اور شہناز بیگم کا قتل محض قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ یہ وہ نام ہیں جو اٹلی میں اپنی جان کی بازی ہار گئے اور ہم نہ صرف ان انسانی جانوں کو بچانے میں ناکام رہے بلکہ ان سب کے قتل کے بعد کسی نے بھی اس سنجیدہ مکالمے کو چھیڑنے کی کوشش نہیں کی کہ ایسے کون سے اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ کسی کی جان نہ جائے ۔ ہر واقعہ کے بعد ہمارا ایک ہی قسم کا جاہلانہ تبصرہ ہوتا ہے کہ اس پر بات نہ کی جائے کیونکہ ملک کی بدنامی ہوتی ہے ۔ یعنی ہم ایک انسانی جان سے بھی زیادہ اپنی ساکھ کو بچانے کی فکر میں ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مصنفہ نے کتاب لکھتے ہوئے کسی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس میں صرف غیر ملکی خواتین کے واقعات نہیں لکھے بلکہ اطالوی شہریوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کے واقعات بھی قلم بند کئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کا موضوع عالمی ہے اور ہمیں سب کو مل کر اس کا حل نکالنا چاہئے ۔ اٹلی میں رہنے والے ہر طالبعلم ، ہربچی ، ہروالدین ، ہر دینی تنظیم کو اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ مارتینا کاستیلیانی کے اعزاز میں پروگرام کرنا چاہیے ، ایسی کتاب لکھنے پر ا سکا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ اس کے ساتھ مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے ۔ تاکہ والدین اساتذہ ، دینی راہنماؤں کے ساتھ ان مسائل پر گفتگو شروع ہو اور حل تلاش کئے جا سکیں ۔تاکہ یورپ میں رہنے والے والدین کو سمجھایا جا سکے کہ آپ کی بیٹی آپ کے نکھٹو، نالائق اور ان پڑھ بھتیجے بھانجے کو یورپ لانے کی انشورنس پالیسی نہیں ہے ۔ اور اگر کوئی بچی اپنی مرضی کی تعلیم ، جاب یا کھیلوں کی سرگرمی میں حصہ لینا چاہے تو یہ اس کا اسی طرح انسانی بنیادی حق ہے جیسے آپ کے بیٹے کا ہے ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply