صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج کا عروج/فرمان اسلم

کرسٹوفر کولمبس( 1)Christopher Columbus)1451-1506) ‘ واسکوڈے گاما (2)Vasco da Gama)1460- 1524)اور فرڈیننڈ میگیلان (3) 1480- 1521 ( Ferdinand Magellan)کے بحری سفروں نے اہل مغرب کی آنکھوں کے سامنے نئی دنیا اور مشرق بعید(Far East) کے دروازے کھول دیے ۔ اہل ہسپانیہ نے جنوبی امریکہ میں ‘ انگریزوں نے شمالی امریکہ اور ہند کے ساحلوں پر’ و لندیزیوں نے جزائر شرق الہند(Dutch east indies) میں ‘ فرانسیسیوں نے امریکہ اور ہند میں اپنی تجارتی کوٹھیاں اور نو آبادیاں قائم کیں۔ سلاطین مشرق کے باہمی نفاق اور معاصرانہ چشمک سے فائدہ اٹھا کر تجارت اور صنعت وحرفت کے علاوہ سیر حاصل علاقوں پر تصرف کیا گیا اور اطراف عالم سے زروجواہر سے لدے ہوئے جہاز مغربی ممالک کو جانے لگے ۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ مغرب میں صنعتی انقلاب(4) (Industrial Revolution)برپا ہوا ۔ اس انقلاب کا آغاز کم و بیش(1760) عیسوی میں انگلستان میں ہوا ۔ جب آرک رائٹ نے سوت کاٹنے کی کل ایجاد کی جو آبی قوت سے چلتی تھی ۔

(1782 ) میں جیمز واٹ نے دخانی انجن(Steamengine) ایجاد کیا ۔ (1830 )میں لیور پول اور مانچسٹر کے درمیان ریل کی پٹڑی بچھائی گئی ۔ (1838) میں پہلے دخانی جہاز ” گریٹ ویسٹرن” نے بحر اوقیانوس(Atlantic ocean) کو عبور کیا ۔ (1832-35) میں سموئیل مورس نے تار برقی (Electric Telegraph) ایجاد کی ۔ ان ایجادات نے صنعت اشیاء اور رسل و رسائل میں آسانیاں پیدا کردیں ۔ 1800 اور 1850 کے درمیانی برسوں میں صنعتی انقلاب یورپ اور امریکہ میں پھیلتا ہوا جاپان تک پہنچ گیا اور انگلستان کا صنعتی اجارہ ختم ہوگیا ۔

صنعتی انقلاب کے ساتھ وسیع پیمانے پر مصنوعات کی ساخت ہونے لگی جن کی کھپت کے لئے منڈیوں اور کچے مال کی فراہمی کے لیے نو آبادیوں کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ (1875) کے لگ بھگ یورپی اقوام میں ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں اور نو آبادیوں کے حصول کے لیے بے پناہ تگ و دو کا آغاز ہوا ۔ مشرق وسطی سے لیکر ہندوستان تک اور جزائر شرق الہند سے لیکر چین و جاپان تک کے اکثر ممالک پر مغرب کا سیاسی اور اقتصادی تسلط قائم ہوگیا ۔ اس تجارتی رقابت نے سیاسی چشمک کو ہوا دی اور تجارتی اور ملکی مفاد کے تحفظ کے لئے متعدد خونریز جنگیں لڑی گئیں ۔ ان صدیوں میں مشرقی عوام کی حالت زار و زبوں تھی ۔ معاشرتی تنزل ‘ اقتصادی بے چارگی ‘ عسکری کمزوری اور ہاہمی نفاق کے باعث اہل مشرق ‘ مغرب کی طرف سے امنڈتے ہوئے اس سیلاب کا مقابلہ نہ کرسکے اور خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ۔ مٹھی بھر انگریزوں نے ایک صدی میں ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور ولندیزی جزائر شرق الہند پر قابض ہوگئے ۔ (1853) میں امریکی بحری بیڑا کموڈور پیری(Matthew Perry) کی قیادت میں یوکوہاما کی بندرگاہ میں زبردستی داخل ہوگیا ۔ اور پیری نے جاپانیوں کو ڈرا دھمکاکر تجارتی مراعات حاصل کیں۔ انگریزوں نے جنگ افیون Opium War (5) (1839 تا 1842) میں اہل چین کو بزور شمشیر افیون خریدنے اور کھانے پر مجبور کیا۔( 1900 Battle of Peking)(6)میں چین کے محبان وطن نے غیر ملکیوں کو ملک سے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن ایک بین الاقوامی فوج نے انہیں شکست دے کر بغاوت کو فرو کردیا اور چین سے ایک خطیر رقم بطور تاوان جنگ وصول کی ۔

مشرق صدیوں سے بے حسی اور خواب غفلت میں لپٹا پڑا تھا کہ اہل مغرب کی جارحانہ ترک تاز اور تاخت وتاراج نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا ۔ جاپان اس بیدار کا نقیب اوّل ہے۔ جاپانیوں نے حیرت انگیز مستعدی سے جدید علوم وفنون کی تحصیل کی کلیں بنائیں ‘ کارخانے کھولے اور فون کو جدید آلات حرب و ضرب سے مسلح کیا۔ جنگ روس و جاپان Russo-Japanese War, (1904–05),(7)میں جاپان کو فتح ہوئی تو تمام مشرقی ممالک میں آزادی کی تحریکیں برپا ہوگئیں ۔ جیسے جنگل کی آگ دیکھتے دیکھتے چاروں طرف بھڑک اٹھتی ہے ۔ اور مشرق نے مغرب کے پیران تسمہ پا ء سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے ۔ اہل مغرب نے اپنا قبضہ اور تسلط برقرار رکھنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ لیکن روز بروز ان کی آہنی گرفت کمزور پڑتی گئی ۔ جاپان نے کوزے کا ڈھکنا اٹھا کر عفریت کو آزاد کر دیا تھا ۔

نظام کلیسا ‘ فوجداری قانون(criminal law) اور سلطنت کے نظم و نسق کے ساتھ ” سامراج” (Imperialism)بھی اہل مغرب کو رو م (Rome) سے ورثے میں ملا تھا ۔ رومی غیر اقوام کے ممالک کو اپنی نو آبادیاں (Colonies)سمجھتے تھے ۔ پیونک جنگیںPunic Wars264 تا 146قبل از مسیح) سامراجی مقاصد کے لیے لڑی گئی تھیں ۔

لیکن رومیوں کے معاصر ورثاء اہل مغرب ایسے سیدھے سادے نہیں ہیں یہ لوگ اپنے تجارتی اغراض اور عزائم کو ” مذہبی اور اخلاقی اقدار کے تحفظ ” اور اشاعت تہذیب و تمدن” جیسی خوش آئند ترکیبوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

سامراجیوں اور تاجروں نے سترہویں صدی سے مذہبی تبلیغ کی اہمیت کو محسوس کرلیا تھا ۔ چنانچہ سینکڑوں مشنری ادارے قائم کیے گئے اور مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جوق در جوق مشرقی ممالک کو جانے لگی۔ عیسائیت کی اشاعت سے اہل مغرب کا مقصد یہ تھا کہ دیسیوں (Natives)نے عیسائیت قبول کر لی تو وہ اپنے آقاؤں کو اپنا ہم مذہب سمجھ کر ان کی معاشی لوٹ کھسوٹ( Economic pillaging) کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے ۔ اس طرح اہل مغرب نے مذہب کے نام پر اقتصادی تسلط (Economic dominance)برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے کہا تھا: ” جب سفید آدمی آیا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی ۔ اب اس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل” ہیتی کی بندرگاہ پورٹ پرنس میں ملکیوں نے مسیح علیہ السلام اور شیطان کے سنگین مجسمے نصب کررکھےہیں ۔ ” مسیح کا مجسمہ سیاہ رنگ کا ہے اور شیطان کا مجسمہ سفید رنگ کا” (8)

اخلاقی قدروں کے ان محافظوں اور مسیحی انسان دوستی کے ان مبلغوں نے بڑی بے رحمی سے ملکی باشندوں کا استحصال کیا ۔

امریکیوں نے لال ہندیوں (Red Indians) کا قتل عام کرکے سینکڑوں قبیلوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا ۔ کانگو میں شاہ لیو پولڈ دوم کے زمانے میں ملکیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے ۔

صرف پندرہ برسوں میں اس دانشمند بادشاہ نے جو کلیسا کا ایک مستحکم ستون تھا اور بزعم خود بڑا مخیر اور انسان دوست تھا ،قتل عام سے کانگو کی۔  آبادی  کو دو کروڑ سے گھٹا کر نوے لاکھ کردیا تھا ۔ (9)

اہل مغرب زبان سے انسانی برادری اور انسانیت عالیہ کا دم بھرتے ہیں ، لیکن مشرق کی رنگ دار اقوام کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں ۔امریکہ کے حبشی غلاموں نے خون پسینہ ایک کر کے جنوبی ریاستوں کو آباد کیا اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے امریکہ کو خود کفیل کر دیا لیکن آج تک امریکی انہیں جانور سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تاہیٹی اور نیو برٹن میں حبشی عورتوں سے دودھ پلوا کر سوروں کی پرورش کرائی جاتی تھی۔ (10)

,, سفید آدمی کا بوجھ,, (White man’s burden) اسی برخود ذہنیت کی تخلیق ہے ۔ اس نظم میں رڈیارڈ کپلنگ نے اہل مشرق کو نیم ابلیس اور نیم طفل کے القابات ارزانی فرمائے ہیں۔

لطف یہ ہے کہ ان سامراجیوں اور طالع آزماؤں کی حرص و ہوس سے خود ان کے ہم وطن بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔ مشرق کی دولت سے کارخانہ دار کے خزینے معمور ہوگئے ۔لیکن عوام کی حالت بدستور سقیم رہی۔ صنعتی انقلاب کے بعد جس اقتصادی استبداد کو ان پر مسلط کیا گیا وہ جاگیر داروں کے استبداد سے اک گونہ بدتر تھا۔ جس سے خود تجارتی طبقے نے صدیوں کی کشمکش کے بعد رہائی پائی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اب غلام کا نام مزدور پڑ گیا تھا ۔ ازمنہ وسطٰی میں پادری بالعموم جاگیر داروں کا ساتھ دیتے تھے ۔ بلکہ ان میں سے بعض خود بڑے بڑے جاگیردار تھے ۔ نظام جاگیرداری کی تنسیخ کے بعد یہ لوگ تاجروں کے ساتھ مل گئے ۔

صنعتی انقلاب کے بعد کم و بیش ایک صدی تک انگلستان یورپ کا بڑا صنعتی مرکز بنا رہا ۔ یہاں کپڑے کے کارخانوں اور کوئلے کی کانوں میں لاکھوں مزدور کام کرتے تھے ۔ زمینداروں نے اپنے کھیتوں کو بھیڑ بکریوں کے باڑوں میں تبدیل کردیا تھا ۔ اس لئے کسان گروہ در گروہ تلاش معاش میں شہروں کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں کارخانوں میں مردوں کے علاؤہ عورتوں اور بچوں سے بھی دن رات میں بیس بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھا ۔

اہل سرمایہ کی خود غرضی اور سنگ دلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس زمانے کے انگریز مصلحین (Reformers) اور انسان دوست جو غلامی کے انسداد کے لیے واویلا کررہے تھے ۔ انہیں مزدوروں اور عورتوں کی حالت زبوں کا مطلق احساس نہ تھا ۔وہ ہر اس آواز کو دبادیتے تھے جو ان بچوں کی بہتری کے لیے بلند کی جاتی تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ اس سے ان کی آمدنی میں کمی واقع ہونے کا اندیشہ تھا ۔

برٹنڈرسل اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ,, غلاموں کی تجارت کے متعلق انگریزوں کا رویہ ایک نفسیاتی عجوبے سے کم نہیں کیونکہ جو لوگ غلامی کے انسداد کے درپے تھے وہی صنعتی ظلم و استبداد کو برقرار رکھنے پر تلے ہوئے تھے۔ وہ حبشی غلاموں سے تو ہمدردی کا اظہار کرتے تھے لیکن خود اپنے بچوں کی طرف ان کا رویہ سنگ دلانہ تھا,,(11)

کارخانے  میں کام کرنے سے مزدور کو اپنی قوت بازو کے صرف کا جو صلہ ملتا تھا اس سے کہیں زیادہ نفع  کارخانہ دار کو پہنچتا تھا ۔ جرمن فلسفی کارل مارکس نے سب سے پہلے مزدوروں کی اجرت اور کارخانہ دار کے نفع کے درمیان روز بروز بڑھتے ہوئے اس فرق کی طرف توجہ دلائی اور دنیا بھر کے مزدوروں کو اس نا انصافی کے خلاف متحد ہوکر کشمک (struggle) کرنے کی دعوت دی ۔ اس طرح تحریک اشتمالیت (Socialism) کی بنیاد پڑی جو پہلی جنگ عالمگیر ( world war One) کے اواخر میں لینن کی کوشش سے روس میں اشاعت پذیر ہوئی۔ اس کی مقبولیت پر تعجب کرتے ہوئے برٹنڈرسل نے لکھا ، اسلام کے علاوہ کسی نظریے یا ادارے کو ایسی حیرت ناک ترقی نصیب نہیں ہوئی جتنی کہ اشتمالیت کو ہوئی ،، (12)

زرعی انقلاب کے بعد صنعتی انقلاب کو تاریخ عالم میں سب سے زیادہ اہم سنگِ میل سمجھا جاسکتا ہے ۔ جس طرح زرعی انقلاب نے کاشتکار کے عہد کی قدروں کو بدل دیا تھا اسی طرح صنعتی انقلاب کے ہمہ گیر شیوع سے زرعی معاشرے کی دس ہزار برس کی پرانی قدریں اور روایات نامحسوس طور پر بدلتی جارہی ہیں ۔ ول ڈیورانٹ( Will Durant) لکھتے ہیں. ٫ زرعی معیشت کے خاتمے اور صنعتی انقلاب کے برپا ہونے سے معاشرے میں آہستہ آہستہ نا معلوم طور پر تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں ۔ عوام بیدار ہوگئے ہیں ۔ بادشاہت کا  خاتمہ  ہوگیا ہے۔ اشتراکیت کا ہر طرف نفوذ  ہورہا ہے ۔ عورت آزاد ہوچکی ہے ۔ قدیم اخلاقی بندشیں ختم ہورہی ہیں ۔ ضبط نفس کی بجائے اظہار نفس کا رواج ہورہا ہے ۔جنگ و جدال نے زیادہ خوفناک صورت اختیار کر لی ہے ۔ ہمارے عزیز ترین عقیدے شکست و ریخت ہورہے ہیں ” ۔ (13)
مزید تفصیل کیلیے مراجعت کیجیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(1) تفصیل کے لیے دیکھیے ۔ A history of life and voyages Of Christopher Columbus by Washington Irving
(2)  Voyages and adventures of Vasco Da Gama by George M. Towle
(3)  The Life of Ferdinand Magellan and the first circumnavigation of the Globe
(4)  The industrial Revolution in World History by Peter N. Stearns
(5)  Creating the Opium War British Imperial attitude towards China 1792-1849 by Hao Gao
اور Civilization On Trial by Toynbee
(6)  Peking 1900 The boxer Rebellion by Peter Harrington
(7)  Russo Japanese War 1904-05 by A Ivanov & P Jowett
(8)  Human Society by Russell
(9) بحوالہ New Hopes for A changing World by Bertrand Russell
(10) بحوالہ Mansion Of Philosophy by Will Durant
(11) بحوالہ freedom and organisation by Bertrand Russell
(12)  New Hopes for A changing World by Bertrand Russell
(13)  Mansion Of Philosophy by Will Durant
( یہ مضمون علی عباس جلالپوری کی کتاب روح عصر سے لیا گیا ہے جسے تلخیص ‘ ترمیم اور حوالہ جات کے اضافے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply