اب میں نے کیا کِیا۔۔۔فوزیہ قریشی

میں کچھ نہ بھی کروں تب بھی اُن کو لگتا ہے کہ ضرور میں نے  ہی کچھ کیا ہے۔
یوں تو ہماری بیگم کی بینائی بالکل ٹھیک ہے لیکن اُن کو چشمہ پہننے کا بہت ہی شوق ہے۔ یہ کوئی عام چشمہ نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص چشمہ ہے جس کو پہن کر سب دِکھائی دیتا ہے جو کسی کو دِکھائی نہیں دیتا اور وہ کچھ بھی جو ہم نے کبھی کِیا نہ ہو۔
مزے کی بات یہ کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی اچانک سے یہ چشمہ پہن لیتی ہیں۔ کبھی راہ چلتے تو کبھی رات کے اگلے یا پچھلے پہر۔
اس چشمے نے ہمارا اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، سونا، جینا سب حلال کر دیا ہے۔
جی جی حلال کیونکہ کچھ بھی حرام دیکھنے اور کرنے کی نہ ہمت رہی اور نہ اب وہ پہلی سی جرات۔
شادی کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن ان کو ہم پر رَتی بھر بھی بھروسہ نہیں ہے بیگم کے خوف کی وجہ سے ہم ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بائیں بس سیدھے کھمبے سے ٹکرا جاتے ہیں۔۔ماتھے پر پڑے گومڑ کو دیکھ کر بھی اِن کو ترس نہیں آتا بلکہ یہی لگتا ہے ضرور ہم کسی کو دیکھ رہے ہونگے تبھی کھمبے سے ٹکرائے۔
یقین جانیے  ہم نے ولیمے والے دن سے لے کر آج تک ایک دن بھی سُکھ کا نہیں  لیا  جبکہ اب تو ہم ان کے دو عدد بچوں کے ابا بھی بن گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے نصیب ولیمے کی صبح ہی پُھوٹ گئے تھے۔ وجہ بارات والے دن نکاح کے بعد جب ہم سٹیج پر بیٹھے تھےتو ہماری چند حسین دوستوں کے میسیجز آرہے تھے۔ ان میں سے کچھ ہم پر آس لگائے بیٹھی تھیں اور کچھ پرہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میسیج کا جواب دینا بس اُن کی ڈھارس بندھانا تھا۔ ہم میسیجز کے جواب میں اس قدر محو تھے کہ ہمیں احساس نہ ہوا کہ ہماری بیگم ہمیں کَن اکھیوں سے دیکھ رہی ہیں۔
ہماری شادی ہماری اماں کی مرضی سے ہوئی۔ہم چاہ کر بھی انکار نہ کر سکے وجہ ہماری اماں کے آگے تو کبھی ابا کی بھی جرات نہیں ہوئی کہ ناں کر دیں تو ہم یہ ہمت کیونکر کر پاتے ۔ ویسے بھی ہماری شادی ہماری ایک دوست نے منتیں ، ترلے اور واسطے دے کر کروائی تھی۔۔
ہمیں اپنے بہت سارے افیرز کی طرح اپنی یہ دوست کچھ زیادہ ہی پیاری تھیں اس لئے ہم انہیں  نہ  نہیں کہہ پائے اور خوشی خوشی قربانی کا دُنبہ بننے کے لئے تیار ہو گئے۔ یوں تو ہم نے اُس دن بہت ساری حسیناؤں کے دل توڑے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم اُن کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں بیگم نہیں بلکہ ایک سی آئی ڈی آفیسر بیاہ کر لے کر جارہا ہوں جس کی تفتیش کے چکر میں مجھے بارہا تھانے اور کچہریوں کی پیشیاں بُھگتنی پڑیں گی۔ خیر اللہ اللہ کر کے رخصتی ہوئی لیکن اگلی ہی صبح کوئی پانچ بجے کے قریب مجھے آہوں اور سسکیوں کی آواز آئی۔ پہلے پہل میں نے اگنور کیا لیکن آواز کی شدت میں تیزی کی وجہ سے رہ نہ سکا اور دائیں بائیں نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں۔ ہماری بیگم شک کا چشمہ پہنے کبھی آنسو صاف کر رہی تھیں اور کبھی ہمارے فون کو تکے جارہی تھیں۔
ہمت کرکے ہم نے پوچھا
کیا ہوا؟
وہ بولیں ، یہ کیوں کِیا؟
ہم بولے! “بیگم میں نے کیا کِیا”
سرخ انگاروں والی نظریں ہم سے چار ہوئیں تو پہلا سوال تھا۔
یہ کون ہے؟
ہم نے کہا !! کون ؟
یہی، جس کے میسیجز ہیں ۔
اب ہم اور پریشان۔
پتا نہیں کونسی والی کے میسیجز پڑھ لئے ہیں محترمہ نے؟
خیر ہم نے ہمت کرکے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ  ۔۔۔۔اچھا!! یہ والی ہے۔
بیگم کا سوال تھا۔
تم نے اس کو یہ میسیج کیوں بھیجا ؟
کونسا میسیج بیگم  ؟
یہی کہ میں HUG کرتا ہوں تم FEEL کرو۔
میں کچھ گڑ بڑایا لیکن جلد ہی خود کو سنبھالتے ہوئے۔ وہ، وہ در اصل اُس کی منگنی ٹوٹ گئی تھی تو ایک اچھے دوست کی حیثیت سے میں اسے تسلی دے رہا تھا ۔اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو ابھی کال کرکے تمہاری بات کرواتا ہوں۔ میں نے اسی وقت باقی سب کے میسیجز سائڈ کرکے اس کو کال ملا دی جس بیچاری نے ایسا کوئی میسیج بھی نہیں بھیجا تھا۔
لیکن!! ہاں اس کی منگنی ضرور ٹوٹی تھی۔
دوسری طرف کال اٹھائی گئی۔
میں نےجھٹ سے سپیکر آن کیا تاکہ بیگم پر میری شرافت کی دھاک بیٹھ سکے۔
وہ بولی !! اس وقت خیریت ہے نا ۔
میں ، کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ تم نے جو میسیج کئے تھے وہ میری بیگم نے پڑھ لئے ہیں اور وہ اس وقت بہت غصے میں ہے۔
وہ بولی،
لیکن! اُن میسیجز میں تو کچھ ایسا نہیں تھا۔
اب میں اسے کیا بتاتا کہ جن میسیجز میں تھا اُس کو کال کرکے مجھے شادی کی پہلی صبح بیگم سے جوتے تو نہیں کھانے تھے نا۔ اس لئے میں مہا چالاکی سے بولا ہاں ہاں کچھ نہیں تھا لیکن میری بیگم کو پسند نہیں۔۔
بس آئندہ مجھے میسیج مت کرنا۔ یہ کہہ کر میں نے ٹَھک سے کال کاٹ دی ۔
بیگم کی طرف دیکھا تو چشمہ اُتر چکا تھا ۔
میں نے اسے یقین دلایا اگر ایسا کچھ ہوتا تو میں تم سے شادی کیوں کرتا ؟
وہ بھی بہت آرام اور پیار سے اس وقت تو سمجھ گئی لیکن پھر اس چشمے کی زد میں   میں بہت بار آیا۔ کبھی غلطی سے کسی پر نظر پڑ جاتی تو بیگم کا منہ پُھول کر  کُپا ہو جاتا اور خوفناک نظریں مجھے ایسے گھورتیں جیسے میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کر دیا ہے۔
یوں ایک برس بیت گیا اور ایک دن ہم کام سے گھر واپس آئے توبیگم کا منہ پُھول کر کُپا ہو رہا تھا۔
ہم نے معصومیت سے پوچھا
“اب میں نے کیا کِیا”
دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
بہت کوشش کی کہ کچھ اتا پتا تو چلے کہ، آخر یہ ماجرا کیا ہے؟
لیکن!! وہاں تو بس یہی رَٹ تھی کہ
“مجھے میکے چھوڑ آؤ اور کبھی لینے مت آنا”
خیر ہم نے بھی موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اسی میں عافیت جانی اور بیگم کو میکے چھوڑنے چلے گئے۔ وہاں جا کر یہ راز کُھلا کہ آج تو اُن کی شادی کی انیورسری تھی۔ تبھی تو محترمہ کا موڈ اس قدر آف تھا کیونکہ ہم یہ بُھول گئے تھے کہ اُن کی شادی ہمارے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ اس لئے کافی غور کرنے پر ہمیں بھی یہ احساس ہوا کہ ہماری شادی کو بھی ایک برس بیت گیا ہے۔
خیر پھربرسوں بیت گئے۔
لیکن!! نہ وہ کبھی خوش ہوئیں اور نہ ہمیں ہونے دیا۔
اب تو بس پل پل یہی کہنے کی عادت پڑ گئی
“اب ہم نے کیا کِیا۔”
پچھلے سال میری خالہ زاد پاکستان آئیں تو وہ ہماری طرف بھی ٹھہریں۔ ان کے آنے سے ہماری بیگم ویسے ہی خوش نہیں تھیں کیونکہ ہماری اسی کزن سے کبھی ہمارے رشتے کی بات چل رہی تھی لیکن بات بن نہ سکی اور ہم بھی بُھول بھال گئے اور وہ بھی شادی کرکے پردیس چلی گئیں لیکن جو نہ بھول سکیں وہ تھیں صرف ہماری بیگم۔۔۔۔
اُس روز جب ہم سیر پر اکٹھے تھے اتفاق سے کسی جھولے میں بیٹھتے ہوئے کزن اچانک سے ہمارے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بیگم اِس چھوٹی سی بات کو لے کر موڈ آف کر لیں گی سارے راستے موڈ آف ۔۔۔۔۔۔۔
پوچھنے پر کوئی جواب نہیں ملا مہمانوں نے بھی یہ ناگواری محسوس کی ۔ خیر جب رات گھر واپسی ہوئی تو کمرے میں جاتے ہی بیگم نے سامان پٹخنا شروع کر دیا۔
ہمیشہ کی طرح میں نے معصومیت سے کہا
“اب میں نے کیا کِیا”
تب معلوم ہوا کہ وہ میری برابر والی سیٹ پر کیوں بیٹھیں تھیں؟
دوسرا جملہ یہ تھا کہ
اگر وہ بیٹھ ہی گئی تھیں تو میں نے اُن کو کیوں نہیں اس سیٹ سے اُٹھایا؟
بہت سمجھایا
سمجھ نہ آیا
تو دل نے کہا
ہائے خدایا
کہاں پھنسایا
دوسری طرف بس وہی گردان تھی کہ اگر اتنی ہی اچھی لگتی تھی تو مجھ سے شادی کیوں کی؟
بس مجھے میکے چھوڑ آؤ اور کبھی مت لینے آنا۔
کاش یہ دھمکی نہ ہوتی اور وہ سچ میں میکے جانے کی خواہش کرتیں۔
اب تو دل بس یہی گاتا ہے
کدی تے پیکے جا نی بیگم
آوے سُکھ دا ساہ نی بیگم
کٹھیاں رہ رہ اَک گئے آں ہُن
لاگے بہ بہ تھک گئے آں ہُن
ٹینڈے وانگوں پک گئے آں ہُن
تے پر وی نکو نک گئے آں ہُن
ہُن تے سینے ٹھنڈ پا نی بیگم
کدی تے پیکے جا نی بیگم
لیکن یہ بس اِک حسرت ہے بس ہمارے معصوم دل کی۔
چند روز پہلے ہی کی بات ہے۔ میری یونی کی طرف سے ہفتے کو ٹرپ ارینج کیا گیا جس میں مجھے اپنے سٹوڈنٹس کے ساتھ جانا تھا ۔ اس لئےبیگم کو پہلے سے ہی انفارم کرنے کے چکر میں انہیں یاد کرواتا رہا کہ ہفتے کو بہت ضروری جانا ہے ۔ بیگم بہت خوش کہ میں کوئی سرپرائز دینے کا ارادہ رکھتا ہوں اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ہفتے کی شام جب میں تھکا ہارا واپس آیا۔ تو بیگم منہ پُھلا کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
” اب میں نے کیا کِیا”
جواب، کچھ نہیں
بس مجھے امی کے گھر چھوڑ دو اور کبھی لینے مت آنا۔
میں بیچارہ سارا دن کا تھکا اپنی تھکاوٹ بُھول کر چھوڑنے چلا گیا۔
وہاں پہنچا تو سالی نے پوچھا کیا گفٹ دیا آپی کو تو تب میری سمجھ میں آیا کہ
” میں نے کیا کِیا”۔
خیر عافیت اسی میں جانی کہ جلدی سے انُ کی پسند کا کیک لینے چلا گیا اور کیک پر لکھوایا کہ
my one and only good wife
اب اس کا مطلب میری نظر میں دُنیا کی واحد اچھی بیوی تھا لیکن جب کیک آیا تو اسے دیکھ کر مجھے پھر سے گُھورا گیا۔
جس پر میں نے ہمیشہ کی طرح معصومیت سے پوچھا
“اب میں نے کیا کِیا”
تو جواب یہ تھا کہ تم نے یہ کیوں لکھوایا ؟
مطلب تمہاری اور بھی کوئی بیوی ہے؟
ہائے اب تو ایسی باتیں سُن سُن کر پک گیا ہوں
ایسے میں میرا دل لمبی آہ بھر کے کہتا ہے
“تے کی کی رنگ وخا دتے نی
سجن یار چھڈا دتے نی
پشلے پیار پُلا دتے نی
بیگن تک کھوا دتے نی
ترس کوئی ہن کھا نی بیگم
کدی تے پیکے جا نی بیگم!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply