حرامی ۔۔مریم مجید ڈار

شہر میں جگہ جگہ سسکیوں والے ریستوران کھل چکے تھے ۔ وہاں کوئی خاص خوراک تو نہیں بنتی تھی مگر پھر بھی سب سے زیادہ ہجوم وہیں پایا جاتا تھا۔ نوجوان جوشیلے لڑکے اور امنگوں سے لبریز نمکین دھندلے مرغولوں میں لپٹی لڑکیوں کا ہجوم۔ مدھم روشنیوں اور دبیز پردوں والے اس ریستوران میں سسکیوں کی آواز سب سے زیادہ سنائی دیتی تھی کیونکہ یہ شہر کے اس حصے میں تھا جہاں مداخلت کا امکان کم سے کم رہتا تھا۔ نوجوانوں کو باہمی دلچسپی کے امور پہ تبادلہ خیال کرنے کے لیے یہ جگہ سب سے بہترین لگتی تھی۔
وہ بھی پہلی مرتبہ اس سے اسی ریستوران میں ملی تھی مگر تب اس کے کانوں نے ان سسکیوں کی تباہ کن آسیبی قوت سے شناسائی حاصل نہیں کی تھی اور وہ صرف ان ہی باتوں کو سنا کرتی تھی جو اس کی زبان سے ادا ہوتی تھیں۔
وہ ماہر تھا، بیانہ بدلنا خوب جانتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے زبان سے کہنا کم کر دیا اور اب وہ اس کا ہاتھ تھام لیتا تھا محض!! اور اپنی خواہش کی انگلیوں سے اس کے تازہ گاچنی پوچی ہوئی تختی سے بدن پر جادوئی پورنے ڈالتا رہتا۔ وہ کچھ دن کسمسائی، خود سے نظریں چرائی پھری مگر کب تک؟؟
آخر بدن کی تختی پر  پورنوں کو، جو بظاہر نظر نہیں آتے تھے مگر وجود رکھتے تھے، پختہ کر کے ابھارنے کی گھڑی آن پہنچی۔
وہ اس کے مجبور کرنے پر آج پھر  اس کے ساتھ سسکیوں والے ریستوران میں بیٹھی ہوئی تھی۔ تبھی اس کے کانوں نے پہلی مرتبہ وہ عجیب آواز سنی۔ وہ آواز ساتھ کے کیبن سے آئی تھی۔ وہ ایک دبی ہوئی آہ تھی یا مچلتی ہوئی ہنسی؟؟ وہ فرق نہ کر پائی مگر جسم کے تار جھنجھنا ضرور اٹھے تھے۔ “کیا ہوا؟؟’ ” ماہر نے بے حد معصومانہ انداز میں اس سے پوچھا۔
اس نے نقاب الٹ رکھا تھا اور ٹھوڑی پر نقاب کے کپڑے کی گرہ کو عالم اضطراب میں نوچے جا رہی تھی۔
“یہ آواز!! یہ کیسی عجیب سی آواز ہے”؟؟ وہ بے چینی سے بولی۔ جوابا ًماہر نے اس کا ہاتھ تھام کر کان میں جو کہا وہ تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جیسا تھا۔ وہ تھرا گئی، گھبرا گئی اور کانوں میں انگلیاں ٹھونسے برقعے کا نقاب گرا کر گھر بھاگ آئی۔
وہ مسکرا کر دیکھتا رہا، روکنے کی کوشش نہ کی کیونکہ جانتا تھا تحریر لکھوانے وہ اپنی تختی اسی کے پاس لائے گی ماہر جو ٹھہرا۔
اور پھر ہوا بھی یہی!! کچھ دنوں کے وقفے سے وہ پھر اسی ریستوران میں تھے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب اس کے کان ان آہوں، سسکیوں کے منتظر تھے اور بدن کی نیند ٹوٹ چکی تھی ! وہ نیند جسے اس نے محبت کی نیند آور گولی سے حاصل کیا تھا وہ خواہش اور طلب کی چٹکیوں سے ٹوٹ چکی تھی۔
اب وہ خود سے اس کا ہاتھ تھام لیتی تھی ، گہرے سانس لیتی اور کبھی کبھار اس کے زانو پر انگلیاں پھیر دیتی۔ مگر کان؟؟ وہ صرف ان سسکتی ہنسی کی کرچیوں کے متلاشی رہتے۔ اب وہ اس سے ملنے سے بھی زیادہ ان آوازوں کو سننے کی چاہ میں وہاں جایا کرتی تھی۔
ایک شام جب بادل برس کر تھم چکے تھے وہ اس سے ملنے چلی آئی ۔ شام ہونے میں دیر تھی مگر بادلوں کی وجہ سے کچھ عجیب سماں بندھا ہوا تھا۔ آج سسکیوں کی آوازیں بھی زیادہ تھیں اور رہ رہ کر آسمانی بجلی کے گرجنے کی آواز بھی اسے سہما رہی تھی۔
تبھی بادل زور سے گرجے اور ریستوران تاریکی میں ڈوب گیا۔ وہ گھبرا گئی مگر ماہر نے اسے سنبھال لیا۔ بینچ پر جگہ کم تھی ،وہ بے آرام تھی مگر سسکیوں کے راز تک پہنچنا چاہتی تھی۔ خواہش کی انگلیاں بدن میں گڑ گئیں اور اسے خبر ہی نہ ہوئی ۔ علم تو تب ہوا جب اس کے منہ سے ایک ہنستی ہوئی سسکی نکلی اور پورنے پختہ ہو گئے۔ اس کا سر دیوار سے لگ رہا تھا اور دریافت کا پرندہ اسے بڑی ہی وحشت بھری اپنائیت سے کھوج رہا تھا۔
اچانک ایک جھماکے سے  برقی روشنیاں بحال ہو گئیں اور ماہر پورا سکون حاصل کر لینے کے بعد اس سے الگ ہوا۔
اس نے دیکھا اس کی رانوں پر سرخ دھبے تھے  اور ایک ناپسندیدہ بدبودار چپچپاہٹ زدہ نمی اس کے بدن میں اتر چکی تھی۔ وہ نظریں چرا کر لباس پہننے لگی تو اس نے اسے سینے سے لگا لیا۔
“فکر مت کرو!!! ہماری محبت پاکیزہ ہے!! اور میں وعدہ کرتا ہوں ۔شادی کروں گا تم سے! دیکھو! بعد میں بھی تو یہی ہوتا ہے پہلے ہو گیا تو کیا؟؟ آج سے تم میری سہاگن ہوئیں اب جلد تمہیں لینے آوں گا” وہ اسکے گالوں، ہونٹوں اور بالوں پر محبت بھرے بوسے دے رہا تھا  مگر اس کے وجود کی گہرائی میں ایک بیکراں خاموشی تھی۔”تو یہ راز تھا ان ہنستی ہوئی، کھنکتی ہوئی سسکیوں کا؟؟ یہ خون آلود محبت؟ ” اس نے پھیکے دل سے سوچا اور قدرے لڑکھڑا کر چلتی ہوئی ریستوران سے نکل گئی۔
ماہر جو مہینوں کی منصوبہ سازی کے بعد گوہر مقصود پانے میں کامیاب ہوا تھا، اطمینان کے گہرے احساس میں گھر کر اس نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور سگریٹ سلگانے لگا۔
دن گزرتے رہے مگر کچھ ایسے کہ ماہر حروف ساز تو ہنوز سبک رہا مگر گاچنی پوتی ہوئی تختی میں کچھ عجیب دراڑیں کھینچتا بوجھل پن آن بسا تھا۔
پہلی مرتبہ کے ٹھیک چار دن بعد وہ اس سے پھر سے ملنے کا تقاضا کر رہا تھا اور وہ جو ہزار بہانوں کا پل صراط پار کر کے اس سے ملنے پہنچا کرتی تھی، اس نے انکار کر دیا مگر اب یہ اس کے اختیار میں کہاں رہا تھا؟ حروف ساز نے بے حد سفاک لہجے میں اسے باور کرا دیا کہ انکار کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس نے اگر ملنے سے انکار کیا تو ساری عمر بن بیاہی رہے گی۔اور وہ جو بیائی گئی تھی، اب ہل چلی زمین کی مانند تھی وہ اس پل کو کوستی ہوئی جب اس کے بدن میں تجسس نے بسیرا کیا تھا، اس سے ملنے چل پڑی۔ وہ بے تابی سے ملا، ٹوٹ کر برسا مگر دل کی مرجھائی ہوئی کلی نہ کھل سکی۔ “مجھے معاف کر دو! دیکھو میرا وہ مطلب نہیں تھا! میں تم سے ملنے کے لئیے پاگل ہو رہا تھا بس اسی لئیے وہ سب کہہ بیٹھا۔۔! میرا بھی کیا قصور؟؟تم تو سلگتی ہوئی بھٹی ہو۔ بلبلے اڑاتی بوتل۔میں تمہارے لمس کے بغیر اب زندہ نہ رہ سکوں گا! دیکھو اب کبھی انکار نہ کرنا۔ ہاں!!
وہ خاموشی سے سنتی رہی، سر دیوار سے ٹکراتا رہا اور سسکیوں کی چنڈی ریستوران میں دھمال ڈالتی رہی۔
اس کے بعد تو جیسے یہ سب معمول کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ بلاتا اور اسے جانا ہوتا۔ ہر بار بینچ کے کنارے پر کسی ابھری ہوئی کیل سے اس کی کمر پر خراشیں لگتیں مگر بے حسی اسے آہ بھرنے سے بھی روک دیتی تھی۔ہر بار ریستوران سے واپسی پر اس کے برقعے کے کپڑے میں شادی کے وعدے اور محبت کے سنہری جھنجھنے بندھے ہوتے تھے اور ہر بار گھر واپسی پر وہ غسلخانے کی ٹونٹی کھول کر گھنٹوں نہایا کرتی تھی لیکن کچھ سیاہیاں انمٹ ہوا کرتی ہیں۔ کچھ پورنے لکھے نہیں جاتے بلکہ کھود دئیے جاتے ہیں اور ان میں زمانہ ہر رنگ ، ہر غلیظ رنگ بھرا کرتا ہے۔
کچھ دنوں سے اس کی طبعیت بہت ہی بوجھل سی تھی، سر چکراتا اور آنکھوں کے آگے چھاتے اندھیرے اس کی جان نچوڑ کر رکھ دیتے۔  پیلا پھٹک رنگ اور وحشت برساتی شکل کے ساتھ وہ بولائی بولائی پھرتی اور دل عجیب کچا کچا سا رہتا۔
ہفتہ بھر بخار میں پھنکتی رہی اور آج جب طبعیت قدرے بحال ہوئی تو اس نے ملنے کے لئیے بلا لیا۔ وہ بھی اب اس معاملے کا کوئی مستقل حل چاہتی تھی لہذا ملنے کی حامی بھرتے ہوئے فون بند کر دیا
نہاتے ہوئے اچانک اسے زور سے چکر آیا تو اس نے گرنے سے بچنے کے لئیے دیوار تھام لی اور تبھی اس کے ذہن میں ایک بھیانک خیال سرسرایا  ۔ “پندرہ دن!! پورے پندرہ دن اوپر ہو گئے تھے  ۔۔اس نے جلدی جلدی انگلیوں پر حساب لگایا اور لرز کر رہ گئی۔ اوہ خدایا!! اس نے سر تھام لیا اور سوکھے پتے کی طرح کانپتے دل کو سنبھالنے لگی۔ “شاید یونہی دن چڑھ گئے ہوں؟” وہ دانستہ اس بھیانک امکان کو جھٹلاتی رہی مگر انہونی کی دستکوں کو نظر انداز کرنا اتنا آسان کہاں تھا؟
“آج تم اتنی افسردہ اور تھکی ہوئی کیوں ہو”؟؟ حروف ساز نے تسکین جسم و جاں کے لمحات گزرنے کے بعد اس سے سوال کیا جو سر جھکائے انگلیاں چٹخاتی برسوں کی بیمار نظر آتی تھی۔
“پندرہ دن اوپر ہو گئے ہیں۔!! مجھے لگتا ہے۔۔۔۔۔”سہمی ہوئی آواز میں یہ ادھورا جملہ اس کے سوکھے ہونٹوں سے نکلا اور سنگ مر مر کے سفید اور سیاہ فرش پر گر کے کانچ کے چھناکے کی سی آواز سے پھیل گیا۔
“کیا کہہ رہی ہو تم!!؟؟ وہ بیٹھے سے کھڑا ہو گیا۔ “ایسا بھلا کیسے ممکن ہے؟؟” وہ سخت حیران نظر آتا تھا جیسے اسے اپنی مردانگی پر یقین نہ ہو یا اس کے بدن کو اس نے زندہ نہ سمجھا ہو
“کیوں نہیں ہو سکتا؟ ؟ وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ “سارے انسان ایسے ہی تو پیدا ہوتے ہیں۔تم بھی ایسے ہی پیدا ہوئے ہو گے اور میں بھی۔۔۔کیا تمہاری ماں نے تمہارا تخم نگلا تھا”؟؟؟ وہ توہین اور غصے سے تلملا کر بولی تو اس نے آگے بڑھ کر اس کے بال مٹھی میں دبوچ لئے۔”میری ماں کا نام لینے کی جرات کیسے کی تم نے؟؟ وہ ایک نکاحی ہوئی عورت تھی!! سمجھیں!! ؟؟ اس نے دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچ رکھا تھا اور نفرت سے سکیڑی ہوئی آنکھوں میں اس کا خون پینے کی طلب تھی۔
اسے فورا اپنی حیثیت یاد آ گئی  وہ بھول گئی تھی کہ ابھی وہ “سہاگن” بنی ہے “نکاحی عورت” نہیں!! وہ اس سے ایک بیوی کی طرح باز پرس اور جواب طلبی کیسے کر سکتی ہے؟؟
توہین، بے وقعتی اور بے بسی کے بھاری بوجھ کے زیر اثر وہ فرش پر بیٹھتی چلی گئی  اور دونوں ہاتھوں سے اس کی ٹانگ تھام لی  ۔ “خدا کے لئے مجھ سے شادی کر لو!! میری ماں مر جائے گی اگر اس آگ کی خبر اس کے کانوں میں پڑ گئی تو وہ بھسم ہو جائے گی!” محبت اپنا دامن پھیلائے رشتے کی بھیک مانگ رہی تھی۔
“دیکھو!! اتنی جلدی یہ سب ممکن نہیں ہے! تم جانتی ہو کہ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔ نوکری بھی ابھی عارضی ہے!! گھر والوں سے بات کرنا اتنا آسان نہیں ہے ابھی” وہ دنیا کا سب سے مجبور مرد بن گیا۔”ہاں مگر!! میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا  دلا کر رہوں گا، اٹھو!!” اس نے یکدم پینترا بدلتے ہوئے اسے اٹھایا اور پندرہ بیس منٹ بعد ہی وہ ایک ایسے چھوٹے اور گندے سے کلینک میں بیٹھے تھے جہاں بوجھ وصول کئیے جاتے تھے اور کند ہتھیاروں کی مدد سے پاکیزہ محبت کی حرام نشانی کو خون اور چھیچھڑوں میں بدل کر گندی نالی میں بہا دیا جاتا تھا۔وہ بہت خوفزدہ تھی ۔ حمل کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا تھا اور اپنے بدترین خدشوں کی تصدیق ہونے پر وہ ادھ مری ہو رہی تھی۔
سفید چادر سے منہ چھپائے ایک لڑکی لڑکھڑاتی ہوئی لیڈی ڈاکٹر کے کمرے سے نکلی تو وہ بے جان ٹانگیں گھسیٹتی ہوئی اندر داخل ہو گئی۔ کمرے میں بے حد ناگوار بو تھی۔۔ ایسی جیسے بوچڑ خانوں میں جمے ہوئے سڑاند مارے لہو کی ہوتی ہے۔ اس کا جی متلانے لگا۔
“اس سٹریچر پر لیٹو” خرانٹ اور شکل سے قصاب نظر آتی ڈاکٹر نے کرختگی سے اسے لیٹنے کو کہا  ۔ وہ جھجھک کر رک گئی۔ “بی بی اب لیٹ بھی چکو!! معائنہ کرنا ہے !! جب جھجھکنے کا وقت تھا تب تو نہ ڈریں تم!! اس نے تمسخر اڑاتے ہوئے ٹھٹہ لگایا اور بازو سے پکڑ کر زبردستی لٹا دیا۔وہ مشینی انداز میں اس کا معائنہ کرتی رہی ۔ پھر ضروری سوال جواب کئیے اور ایک پرچی گھسیٹ دی۔ “تین ہفتے کا حمل ہے، یہ دوا پانچ دن کھاو، گر جائے گا” اس نے پرچی تھام لی” ویسے مجھے تم جیسی لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی، سر بازار ملنے والوں کا بوجھ کیوں اٹھا لیتی ہو؟ ہزار طریقے ہیں مگر تم جیسیوں کو تب سمجھ آتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکتا ہے” ڈاکٹر نے فیس وصولتے ہوئے طنز کیا تو وہ سر جھکائے باہر آ گئی ۔ کیا بتاتی ؟؟کہ سوئے ہوئے بدن کو جگانے کی کیسی قیمت چکائی تھی اس نے۔ ؟ سارا کیا دھرا ان سسکیوں کا تھا جو اب بھی اس ریستوران اور اس جیسے کتنے ہی ریستورانوں میں گونج رہی ہوں گی۔
وہ اس کو محلے کی نکڑ تک چھوڑ گیا تھا۔ راستے کا ساتھی جو ٹھہرا!!
رات گہری ہوئی تو اس نے پرس کی اندرونی جیب میں چھپائی ہوئی بھوری کاغذی پڑیا نکال لی جس میں مصیبت سے نجات دلانے والی کرشماتی دوا تھی۔ دو گولیاں نگلیں اور کانپتے دل کے ساتھ بستر میں لیٹ رہی۔ کچھ دیر بعد دوا نے اثر دکھانا شروع کیا تو کوکھ کی گہرائی میں آگ بھڑکنے لگی۔ اسے لگا خدا اسے جیتے جی جہنم میں بھسم کر رہا ہے۔ وہ ہانپتی رہی، اذیت سہتی رہی اور پسینہ اس کے بالوں کی جڑوں سے پھوٹ کر قمیض کے گلے میں اترتا رہا ۔
پھر جیسے وہ اذیت شروع ہوئی تھی،  اپنے آپ ہی ختم بھی ہو گئی ۔ آنے والے تین دن کند چھری سے  ذبح ہونے جیسے بھیانک تھے مگر اس قدر تکلیف سہنے پر بھی اس محبت نے اس کے اندر سے نکلنے سے انکار کر دیا تھا۔
دوا ختم ہو گئی اور وہ کسی معجزے کے انتظار میں رہی لیکن معجزہ نہ ہوا۔ جانے کیسی ڈھیٹ محبت تھی جو اس کے وجود  سے نکلنے سے انکاری تھی۔ دل سے تو اسی دن نکل گئی تھی جب تجسس کا خاتمہ ہوا تھا مگر پیٹ میں چھپ چھپ کر پلتی رہی۔
ہفتہ گزر گیا مگر کچھ نہ ہوا۔ اس نے گھبرا کر حرف ساز کو پکارنا چاہا مگر رابطے کی گھنٹی بج کر نہ دی۔  جس گیارہ ہندسی بھوت نے یہ معاملہ آغاز کیا تھا وہ اسے ایک ہی پیغام دیتا رہا “آپ کا مطلوبہ نمبر فی الوقت بند ہے” وہ پاگلوں کی طرح نمبر ملاتی اور کوئی حل نہ پا کر وحشت میں اپنے پیٹ پر مکے برسانے لگتی۔ پتہ ٹھکانہ جانتی نہ تھی۔ ریستوران بھی دو چار بار دیکھ آئی مگر وہ کہیں اپنا نشان چھوڑ کر نہ گیا تھا۔
دن بدن بگڑتی حالت ماں کی نظر سے کب تک چھپی رہتی؟؟؟ ایک دن جب ماں فجر کا وضو کرنے اٹھی تو وہ غسل خانے میں قے کر رہی تھی۔
بڑھیا کے ہاتھ سے لوٹا چھوٹ کر گرا اور ٹھن ٹھناک کی آوازیں نکالتا ڈیوڑھی میں جا پڑا۔ وضو کا پانی کنواری بیٹی کی عزت کی طرح زمین پر بکھر گیا ۔
“کس کا ہے یہ”؟؟؟ اس نے بیٹی سے فقط اتنا ہی پوچھا اور کوئی جواب نہ پا کر ڈیوڑھی میں لٹی ہوئی گھٹڑی کی طرح بیٹھ رہی  ۔ دن چڑھ آیا، چڑیاں چہچہانے لگیں مگر اس کے استغراق میں فرق نہ آیا وہ خاموشی سے اپنی جھریوں زدہ ٹھوڑی کے نچلے حصے پر اگے تین چار بالوں کو مروڑتی رہی۔
صبح دوپہر میں ڈھلنے لگی تو بڑھیا کو ہوش آیا۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھی اور بھوری چادر اوڑھ کر اس کے کمرے کے دروازے پر آ کھڑی ہوئی۔
“میرے ساتھ چلو” وہ حکم تھا نہ التجا!! بس ایک گورکن کا سا سپاٹ پن تھا۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر اس کے ساتھ چل پڑی۔ راستے میں اس نے دیکھا کہ ماں اس کے سائے سے بھی دو قدم دور چل رہی تھی۔ سسکی نے اندر قہقہ لگایا اور ہونٹوں پر نمک بھری کڑواہٹ ٹھہر گئی۔وہ خاموشی سے چلتی رہی۔
“بی بی تمہاری بیٹی بہت کمزور ہے!! آپریشن سے جان جانے کا  خطرہ ہے اور دوا سے کام نہیں بننے والا! وقت اوپر ہو گیا ہے۔” ایک اور خرانٹ ڈاکٹر کے بوچڑ خانے پر بیٹھے ہوئے اس کی ماں نے یہ الفاظ سنے اور باہر نکل آئی۔ ڈاکٹر کا لالچ اسے اکسا تو بہت رہا تھا مگر دو مہینے پہلے ہی ایسے ایک کیس نے اسے تقریباً  جیل میں پہنچا دیا تھا جب لڑکی اس کے کلینک میں دم توڑ گئی تھی۔
کوئی آسرا نہ پا کر ماں بیٹی گھر لوٹ آئیں۔
اس کا دل چاہ رہا تھا ماں اسے جوتیوں سے پیٹے، بالوں سے گھسیٹے یا کم از کم زبانی طعن ہی کرے تا کہ کچھ تو ندامت کا بوجھ ہٹے جو اس کی گردن توڑے جاتا تھا مگر بڑھیا جس نے زندگی فرض نمازوں کے وقت کا دھیان رکھتے کاٹ دی تھی، عمر بھر کی عادت کیسے بھلا دیتی۔  پردیس میں بیٹھے بیٹے کا فون آتا جو ان دو کی خاطر تپتی ریت سے رزق چھانتا تھا تو ماں کے حلق سے آواز نکلتی ورنہ کئی کئی دن ہو جاتے اسے زبان کھولے ہوئے۔ دراصل اس کی گویائی بیٹی کی جرات نے چھین لی تھی۔ اور اسے اتنا مفلوج کر دیا تھا کہ وہ بم کی کلید پر بیٹھی ہوئی بدنامی کو بھی بھلا بیٹھی تھی
گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ظاہر ہونے والی جسمانی تبدیلیوں نے قیامت کے آنے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ ۔ بے بسی کے گہرے احساس کے ساتھ بڑھیا سجدوں پر سجدے کئیے جاتی، مکروہ اوقات میں بھی  نمازیں نیت کئیے جاتی مگر آنے والا وقت دعاوں اور  نمازوں سے ٹل جاتا تو اور کیا چاہئے تھا۔
ادھر وہ تین بار غسل خانے میں گر چکی تھی، ایک بار جان بوجھ کر پیٹ کے بل پختہ اینٹوں کے فرش پر بھی گری مگر وہ ڈھیٹ ایک انچ نہ سرکا۔ پلتا رہا، اس کے لہو سے غذا نچوڑتا رہا اور اب تو باقاعدہ متوجہ کرتا تھا۔ راتوں کو نیند نہ آتی تو پیٹ والا جانے کیسے جان جاتا؟؟ کبھی ہاتھ چلاتا، کبھی پیر اور وہ جو اس عذاب کی وجہ تھی، اس بن بیاہی سہاگن پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اسے پیٹ میں پلتی بدنامی سے محبت ہو گئی تھی۔
بدنامی کا خوف، دنیا والوں کے پتھر اور ماں کے دکھ سے بے نیاز وہ اس سسکی کی محبت کا دم بھرنے لگی جس نے اس سے مسکرانے کی ہر وجہ چھین لی تھی۔
محلے والوں کا آنا جانا یوں بھی کم تھا سو کسی نہ کسی طرح معاملہ چھپا رہا ۔ وہ اندھیرے کمرے میں پڑی گنبد کی طرح ابھرے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی رہتی۔ کبھی سوچتی لڑکا ہے ؟؟یا لڑکی؟؟
بال کیسے ہوں گے اور آنکھیں؟؟ اگر اس جیسی ہوئیں تو؟؟ اور ہونٹ؟؟؟ جانتی تھی کہ اس کے اندر جو بھی ہے وہ دنیا میں فقط چند گھنٹوں کا مہمان ہو گا مگر یہ حقیقت بھی اسے محبت کرنے سے روکنے میں ناکام رہی تھی۔ ۔ چھاتیوں میں دودھ بھرنے لگا تھا اور دل میں ممتا کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا۔ حروف ساز ماہر کب کا اس کے دل و دماغ سے رخصت ہو چکا تھا اب وہاں ایک ننھا سا وجود رہنے لگا تھا۔
خوابوں میں دیکھتی کہ ایک ننھا سا بچہ اس کی بانہوں میں ہے۔ اور وہ اسے اچھال رہی ہے، یکدم آسمان سے ایک سیاہ کوا نمودار ہوتا ہے اور اسے ہوا میں ہی اچک  لیتا ہے۔ وہ روتی چلاتی ہے مگر کوا اب سامنے درخت کی ٹہنی پر بیٹھا اس کے بچے کے نرم ماس میں چونچ گڑا گڑا کر اسے کھا رہا ہے۔ پھر یکدم کوے کی شکل حروف ساز کی صورت میں بدل جاتی اور وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتی۔ کبھی دیکھتی کہ ماں اس کے بچے کا سر اینٹ سے کچل رہی ہے اور لہو جو اس کے چہرے پر پھوار کی صورت گرتا ہے اسے چاٹ رہی ہے۔ وہ بے تابی سے روتی، پیٹ پر ہاتھ باندھ لیتی جیسے اسے دنیا میں آنے سے روک لینا چاہتی ہو مگر فطرت کے قانون بہت ہی سنگدل، بڑے ہی بے رحم ہیں۔  وہ کسے رک سکتا تھا؟ ہاں اس کی تقدیر طے تھی مگر دنیا سے جانے کے لئیے بھی دنیا میں آنا ضروری تھا۔
دن ایک کے بعد ایک سرکتے رہے اور اب آخر وہ رات آن پہنچی تھی جب ماں کے اتنے مہینوں کی اذیت کا خاتمہ ہو جانا تھا اور اس کی کوکھ سے بدنامی نکل کر جانے کس ڈھیری کا رزق ہونی تھی۔
پورا دن وہ بدن کو چیر دینے والے درد کی لہروں کو برداشت کرتی رہی تھی۔ ماں کے سجدے بے حد طویل ہو گئے تھے اور اس کے پیروں میں بھنور بندھ گئے تھے۔ کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے یکدم کوئی چاقو سا اس کی کمر کے نچلے حصے میں پیوست ہوا اور ایک کراہ اپنی تمام تر سفاکی کے ساتھ ماں کے کانوں سے ٹکرائی۔
وہ ننگے پاوں دوڑی چلی آئی اور کمرے کے ایک کونے میں اذیت بھری مشقت کا آغاز ہوا۔ ماں نے اس کی سسکیاں دبانے کے لیے ایک دوپٹہ کس کر اس کے منہ پر باندھ دیا اور دونوں ماں بیٹی سسکی کے وجود کو نکالنے کے لئیے نبردآزما ہو گئیں۔
بدن کٹ رہا تھا ، دھاروں بہتا پسینہ اور حلق میں چھید کرتی  چیخیں! جنہیں منہ پر بندھا دوپٹہ جذب کر لیتا تھا ۔ لمحے پھسلتے گئے اور نصف شب ادھر تھی جب جانے والے نے دنیا میں آمد کا اعلان کیا۔
بڑھیا کے ہاتھوں میں آج چار مردوں کی سی طاقت تھی اور پیروں میں توانائی  ۔ ابھی بچے نے چوں بھی نہیں کی تھی کہ منہ داب لیا۔ وہ نڈھال نیم غنودہ سی بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
“ماں!!! مجھے دکھا تو دو!! وہ کراہی۔۔ “میرا بچہ! ماں لڑکی ہے یا لڑکا؟؟ ” وہ اٹھ کر بیٹھنے کی سعی کرنے لگی۔ “حرامی ہے!” ماں نے نفرت سے اسے دیکھ کر تھوک دیا۔
پاک محبت کا حرامی نتیجہ بوڑھی عورت کے ہاتھوں میں مچل رہا تھا  ۔ اس نے فوراً  ناک کو چٹکی میں دبایا اور کچھ دیر بعد جب وہ نیم مردہ سا ہو گیا تو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے ننھی شہہ رگ کو بھینچنے لگی۔۔نرم نازک سی رگ جاں میں ناخنوں سے چھید ہو گئے اور ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ خونیں بلبلے پھوٹنے لگے  ۔وہ سینہ بھینچتی منہ نوچنے لگی مگر ماں کے چڑیل جیسے مڑے ہوئے ہاتھوں سے بچہ چھین نہ سکی۔بڑھیا جو اتنے مہینوں بم کی کلید پر بیٹھی رہی تھی اب بالاخر آزاد ہونے جا رہی تھی۔
دو چار مزید سانسیں ابھی اٹکی ہوئی تھیں جب ماں نے اسے پرانی دھجی میں لپیٹا اور باہر کو چل دی۔ ابھی اندھیرا تھا اور اس مصیبت سے نجات پانے کا بہترین وقت بھی یہی تھا۔
زچہ ماں بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی مگر آنے والا لوٹ چکا تھا۔ اسے چہرہ کرائے بنا، اس کے سینے سے گھونٹ بھرے بنا بھوکا پیاسا ہی چل دیا تھا  ۔ “میرا بچہ!! میرا بچہ!! وہ سینہ پیٹ رہی تھی ۔ پورنوں میں سسکیوں کا سیاہ اور محبت کے لہو کا سرخ رنگ انمٹ ہوا۔۔
ماہر حروف ساز کے بدن کی بدبودار چپچپاہٹ نے نو ماہ اس کا خون پیا تھا اور نو ماہ اس کے بدلے محبت دی تھی۔ وہ محبت ، وہ رشتہ ایسے ٹوٹا تھا کہ وہ اندھوں کی طرح پیٹ ٹٹولتے ہوئے ٹھوکریں کھا رہی تھی۔ سینے سے دودھ بہہ رہا تھا اور کوکھ لہو لہان تھی۔ “میرا بچہ!!! اس کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر گر کر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔
ادھر بڑھیا بڑی ہشیاری سے کچرا کنڈی تک جا پہنچی تھی۔  اس نے ادھر ادھر دیکھا اور دھجی میں لپٹا حرامی بچہ کچرے پر پھینک کر تیز رفتاری سے واپس لوٹ گئی۔
ایک آوارہ کتا جو بہت دیر سے کچرے میں کھانا تلاش کر رہا تھا۔ خون کی بو پا کر تھوتھنئ ہوا میں اٹھاتا، سونگھتا ہوا دھجی تک آن پہنچا۔
بھوک سے بے تاب کتے نے جلد ہی ناخنوں اور پنجوں کی مدد سے نرم گوشت کے اس حرامی ٹکڑے کو چیر پھاڑ دیا اور عین اس لمحے جب وہ اس کا نرخرہ چبا رہا تھا۔ ماہر حروف ساز اپنے آرام دہ کمرے کی نیم تاریکی میں فون کان سے لگائے اپنی نئی محبوبہ کو سسکیوں والے ریستوران میں ملنے کے لئیے رضامند کر رہا تھا۔۔۔
“اچھا کل دوپہر میں ملتے ہیں” اس نے فون بند کر کے تکئے تلے رکھا اور کل دوپہر کے خوبصورت وقت کو ذہن میں تصویر کرتے ہوئے سونے کی تیاری کرنے لگا۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”حرامی ۔۔مریم مجید ڈار

Leave a Reply