• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نام نہاد بل کے بعد مذہبی اتحادوں کا مستقبل/ڈاکٹر ندیم عباس

نام نہاد بل کے بعد مذہبی اتحادوں کا مستقبل/ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان میں اتحاد امت کے لیے کی جانے والی کاوشوں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ تحریک پاکستان ہی مسلمانوں کے تمام فرقہ کے درمیان اتحاد و وحدت کی تحریک تھی، جو کسی فرقے کی بالا دستی کی بجائے اسلام کی بالادستی کے لیے برپا کی گئی تھی۔ کانگرس کے حمایتوں کے علاوہ مسلمان ایک اثناء عشری شیعہ محمد علی جناح کی قیادت پر متفق ہوئے، جنہیں آج دنیا قائد اعظم کے نام سے جانتی ہے۔ اس تحریک میں بھی شیعہ سنی تمام مسالک کے لوگ شامل ہوئے۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے قومیت کی بنیاد وطن کو قرار دیتے ہوئے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، ان میں سرفہرست مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے ساتھی ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے بھی تحریک پاکستان سے فاصلہ رکھا اور مولانا مودودی بھی تحریک پاکستان میں شامل نہیں ہوئے۔ ان تمام لوگوں کی اپنی اپنی دلیلیں تھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے قائد ایک شیعہ تھے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کون کس فرقے سے ہے۔؟ یہ اتنا اہم نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ کون مسلمانوں کے سے کتنا مخلص ہے۔

قیام پاکستان کے بعد علمائے کرام کا بڑا اتحاد یا اہم مشترکہ فیصلہ علماء کے بائیس نکات ہیں، جنہوں نے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کی بنیاد فراہم کی ہے۔ قرارداد مقاصد کی شکل میں اسے آئین پاکستان کا حصہ بھی بنا دیا گیا ہے۔ ریاست میں مذہب کی حیثیت اور مستقبل میں جو صورتحال پاکستانی معاشرے کی بنی، اس میں ان فیصلوں کا بڑا بنیادی کردار ہے۔ اس کے بعد ہی علماء کو اندازہ ہوا کہ وہ ریاست کو کن کن معاملات میں طاقت دکھا سکتے ہیں۔ ریاست نے جو بیانیہ اختیار کیا تھا، وہ اسلام تھا اور اس کی عملی صورت بھی یہی نکلتی تھی کہ اسلام جاننے والوں کے پاس اختیار آئے اور یہاں اختیار ایسے لوگوں کے پاس تھا، جو سیکولر تھے، اس لیے یہ بیانیہ دیا گیا کہ یہ ملک مسلمانوں کی فلاح کے لیے ہے۔ یوں مذہب اور ریاست کا تعلق شروع دن سے مخمصے کا شکار ہوگیا۔

علمائے کرام نے متحد ہو کر قادیانیوں کے خلاف محاذ قائم کر لیا، سب کا مطالبہ تھا کہ انہیں ریاست غیر مسلم قرار دے۔ ریاست کوئی مفتی تو نہیں ہوتی اور جدید تصور ریاست کے بعد یہ کافی مشکل تھا، مگر جب احتجاج حد سے بڑھا اور پورا معاشرہ ہی متاثر ہونے لگا تو قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا۔یوں علمائے کرام کا اعتماد بڑھا اور کچھ مزید مطالبات کرکے وزرات مذہبی امور بنوانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے پہلے ریاست نے اسلامی رہنمائی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا، جسے آج اسلامی نظریانی کونسل کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ بھی بین المسالک ہم آہنگی کے لیے کافی مدد گار رہا۔ پہلے پہل تو اس میں بڑے جید علمائے کرام رہے، جنہوں نے قوانین کی اسلامائزیش میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ فورم اتحاد وحدت کا غیر اعلانیہ فورم بھی قرار پایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس فورم میں نسبتاً جید علمائے کرام آتے رہے، جو کافی حد تک فرقوں کی قیود میں بند نہیں تھے۔ اس لیے کونسل کی رپورٹس اور فیصلے اکثر اوقات متفقہ ہوتے رہے۔ بین المسالک جب بھی مسائل آئے، یہ ادارہ کافی موثر ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ باہر ہونے والے اختلافات بھی کونسل کو بھجوائے گئے اور کونسل نے اچھے انداز میں انہیں ڈیل کیا۔

اسی کی دہائی میں افغان جہاد شروع ہوا اور پاکستان میں دہشتگردی نے جنم لیا۔ اس کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی، جس نے اگلے چالیس سال تک وطن عزیز کو متاثر کیے رکھا۔ بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے، ہزاروں گھرانے متاثر ہوئے اور بڑے بڑے دماغوں سے ملک محروم ہوگیا۔ نوے کی دہائی شروع ہوئی تو علماء نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اب تو حالات حد سے زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے ایک امن چارٹر تیار کیا، جو اتحاد و وحدت کی کوششوں میں بڑی پیش رفت تھی۔ پھر پاکستان کی بڑی دینی جماعتوں کے سربراہ ملے اور انہوں نے امت کو جوڑنے کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک فورم قائم کیا، جس نے بڑی بحث و تمہید کے بعد ایک اعلامیہ پر اتفاق کیا۔ اس سے قوم کو یہ پیغام ملا کہ اب علماء مل بیٹھے ہیں، لہذا فرقہ واریت میں کمی آئے گی۔ یہ بھی کچھ عرصے بعد اختلافات کا شکار ہو کر غیر فعال ہوگئی۔

حکومتی سطح پر پنجاب میں علماء بورڈ قائم کیا گیا، جس میں علماء مل بیٹھتے ہیں اور توہین آمیز عبارات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک مقابلے کا فورم بن گیا ہے، جس میں ایک دوسرے کی کتابوں پر پابندیاں لگوائی جاتی ہیں۔مشرف دور میں متحدہ مجلس عمل قائم کی گئی، جس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور امت کو اکٹھے کرنے کا کام بھی کیا۔ حسب سابق یہ بھی اختلافات کا شکار ہوگئی۔ قاضی حسین احمد مرحوم اور سید ثاقب اکبر مرحوم نے ملی یکجہتی کونسل کو دوبارہ زندہ کیا۔ ثاقب اکبر صاحب نے بڑی محنت کی تھی۔ جماعت اسلامی کا ماضی بھی وحدت کے حوالے سے اچھا رہا ہے۔ مولانا مودودی نے امام خمینیؒ کے وفد کا بھرپور استقبال کیا۔ مولانا کی کتاب خلافت و ملوکیت آنے کے بعد جہاں مولانا کو بڑی دشواریوں کا سامنا رہا، وہیں یہ نظریہ مسلمانوں کو قریب بھی لایا۔

یہ سب کچھ ماضی ہے، اب جماعت کا ماحول اور نظریہ بڑا خطرناک ہوگیا ہے۔لیاقت بلوچ جیسے وحدت پسند لوگوں کو ظاہراً جماعت میں کارنر کیا جا رہا ہے۔یہ تصور کرنا کافی مشکل ہے کہ جماعت اسلامی کا آدمی ایک فرقہ وارانہ بل اسمبلی میں پیش کرے گا۔ ایسا ہوا اور وہ بل نو دس ممبران کی موجودگی میں پاس ہوگیا۔ اس موقع پر انصاف پسندوں نے جماعت اسلامی کی قیادت کو بہت سمجھایا، لیاقت بلوچ صاحب نے ثاقب اکبر صاحب کی چہلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، جو مسئلے حل ہوچکے ہیں، انہیں دوبارہ سے اٹھانا مصلحت نہیں ہے۔ یہ بل سینیٹ میں ایک اہلحدیث سینٹر عبدالکریم نے پیش کیا اور اس پر جمعیت علمائے اسلام ف کے وزیر مذہبی امور نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، ساتھ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب نے بھی اس بل کی بھرپور حمایت کی۔

یوں سینیٹ میں محض 25۵ فیصد سینٹروں کی موجودگی میں ایک سو بائیس بلوں میں منظور ہونے والا ایک بل یہ بھی تھا۔ ایک بات قابل توجہ ہے، پاکستان کی اکثریت یعنی بریلوی مکمل طور پر لاتعلق ہیں، یہ اس بات کا عکاس ہے کہ اس بل کا تعلق صحابہ و اہلبیت سے نہیں ہے بلکہ ایک اقلیتی گروہ کی پرتشدد سوچ کا عکاس ہے۔ اس بل کے خلاف اسلام آباد میں تاریخ ساز علماء و ذاکرین کانفرنس منعقد ہوچکی ہے۔ اس میں بڑا واضح بیانیہ دیا جا چکا ہے کہ یہ بل کسی صورت میں منظور نہیں ہے۔ صدر مملکت کے پاس شائد آخری دن ہے کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کے ذریعے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کے لیے بھیج سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی کے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں نے ان کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا؟ کیا ان حضرات نے کسی کو عمر قید کے لیے بند کیا۔؟ جب یہ دعویٰ ہے کہ ہم خلفاء کی روش پر چلتے ہیں تو خلفاء کی اس معاملے میں کیا روش تھی۔؟

اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لے لی جائے۔ آئین پاکستان ہر مسلک کو آزادی دیتا ہے اور اختلاف کی صورت میں ہر مسلک کو فقہ کے مطابق عمل کی آزادی کی ضمانت بھی عطا کرتا ہے تو صحابی اور توہین دونوں میں اختلاف ہے۔ اہلسنت اور شیعہ اپنی اپنی رائے پر عمل کریں۔ کسی ایک کی رائے دوسرے پر نہ تھونپی جائے۔ اسی طرح اہلبیت میں اختلاف ہے۔ اہلسنت امام مہدی ؑ کو اہلبیت ؑ میں سے شمار نہیں کرتے، اگر کوئی ان کی اہانت کرتا ہے تو اس کے خلاف سرے سے کوئی کارروائی ہی نہیں ہوسکتی، اسی طرح اگر کوئی یزید کی تعریفیں کرے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا، حالانکہ امام حسین ؑ کے قاتل کی تعریف امام حسینؑ کی توہین ہے، مگر یہ بل اس حوالے سے گرین چٹ دیتا ہے۔

یہ بل واپس نہ لیا گیا تو دن بدن مذہبی فاصلے بڑھنے لگیں گے۔ کوئی بھی اتحاد و وحدت کے لیے کوشش کرنے والا سو فیصد خواہش کے باوجود کچھ نہیں کرسکے گا۔ اس کی وجہ یہ کہ وہ جس بھی مسلک سے ہوگا، اسے اس مسلک کے لوگ اچھا نہیں سمجھیں گے۔ ملی یکجہتی کونسل بھی مجلس عمل کی طرح غیر فعال ہو جائے گی اور مجلس عمل کا رہا سہا ڈھانچہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ایسے میں فرقہ پرستوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا، ان کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہ معاشرے میں موجود اس فالٹ لائن سے فائدہ اٹھائیں گے۔ آپ پچھلے چند دنوں کی سوشل میڈیا ویڈیوز کا مشاہدہ کر لیں، آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ تحفظ صحابہ کے نام پر کیا کیا دھمکی دی جا رہی ہے۔ اکثریت پسندی اور زور سے وقتی قانون بنایا جا سکتا ہے، مگر اسی باقی نہیں رکھا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں بسنے والے پانچ کروڑ شیعہ عوام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں یا صدر کوئی کمیٹی بنا دیں، تاکہ اس پر مذاکرات ہو جائیں اور اسے تمام مسالک کے لیے قابل قبول بنا لیا جائے۔ ضمانت کا ہونا تو ہر صورت میں ضروری ہے، اتنی لمبی قید کی جگہ جرمانے کی سزا دی جائے، تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں۔ سزا کی بجائے تربیت کے نظام کو لایا جائے، اہل مسلک خود اپنی داخلی صفائی کریں، جیسے رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی صاحب کے فتاویٰ سے بڑی تبدیلی آئی۔ رکھیں کہ طاقت سے کسی چیز کو مقدس نہیں بنایا جا سکتا، طاقت کا اظہار ردعمل لاتا ہے اور ردعمل کے جواب میں پھر ردعمل، یوں تشدد کی ایک چین بن جاتی ہے۔پاکستان میں بڑی قربانیوں کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے، خدارا اسے قائم رکھیں اور اسے کسی صورت میں جذبات کی نظر نہ ہونے دیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply