تفتان کا سرطان- مشکلات اور تجاویز/نذر حافی

ہمارا پاکستانی ہونا ہی کافی ہے۔ سرکاری اہلکار ہوں یا عوام سب کو اسی شناخت پر فخر کرنا چاہیئے۔ باقی ساری باتیں اور شکایتیں بعد کی ہیں۔ عوام اور سرکاری اداروں کے دوطرفہ تعاون کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہر جگہ عوام کی صفوں میں بھی اور سرکاری اداروں میں بھی دیانتدار اور بددیانت ہر طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ عوام اور سرکاری اہلکاروں دونوں کو ایک دوسرے سے سو فی صد بدگمان نہیں ہونا چاہیئے۔ اسی بدگمانی سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اگر عوام میں سے کوئی قانون شکنی کرے تو جیسے اُس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیئے، ویسے ہی اگر کوئی سرکاری کارندہ اپنی ڈیوٹی کو انجام دینے میں کوتاہی یا خیانت کرے تو اسے بھی کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مکمل بندوبست ہونا چاہیئے۔ یعنی چھوٹ کسی کو نہ ملے، لیکن عوام اور سرکاری اہلکاروں کا باہمی احترام بھی قائم رہے۔

تفتان کا مسئلہ نچلی سطح کے کچھ سرکاری ملازمین کا پیدا کردہ ہے۔ ہم نے اپنے طور پر سروے کرکے دیکھا ہے، آپ بھی سروے کر لیجئے۔ چند ایک سرکاری اہلکاروں کے منفی رویّے کی وجہ سے مسافر ایک طرح کے عدمِ تحفظ، احساسِ کمتری، نفرت اور انجانے سے خوف میں مبتلا ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ریاستی اداروں کی طرف سے اس عدمِ اعتماد کی فضا کو توڑنے کی پالیسی اپنائی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تفتان کے مسئلے سے عام عوام کو بہت منفی تاثر جا رہا ہے۔ یہ سوچ عام ہو رہی ہے کہ زیارات کیلئے ایران جانے یا وہاں پڑھنے کی وجہ سے سرکاری اہلکار لوگوں کو ٹارچر کرتے ہیں، حالانکہ بات صرف ایک یا چند سکیورٹی گارڈز یا امیگریشن کے عملے کے چیک اینڈ کنٹرول کی ہے۔ تفتان بارڈر پر درپیش مشکلات کے ذکر کے ہمراہ ہم کچھ تجاویز بھی پیش کر رہے ہیں، ہمیں بحیثیتِ پاکستانی بھرپور امید ہے کہ اربابِ حل و عقد مذکورہ مشکلات اور تجاویز کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ضروری احکامات صادر کریں گے۔

مشکلات:
۱۔ بارڈر پر مذہبی جنونیت کا سامنا
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مذہبی جنونیت ہر طرح کے جنون سے بڑھ کر مضر ہے۔ بدقسمتی سے سکیورٹی عملے کے نام پر تفتان بارڈر پر کچھ مذہبی جنونی افراد تعینات ہیں، جو وہاں پوچھ گچھ کے دوران عوام کو اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کے عقائد کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مذہبی جنونیوں کے پاس طنز، گالی گلوچ اور توہین کے علاوہ اور کچھ تو ہوتا نہیں، چنانچہ ان افراد کی طرف سے ہمیں شدید اہانت اور توہین کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

۲۔ لوگوں کا ذاتی اور نجی ڈیٹا غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے
آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی شخص کا ذاتی اور نجی ڈیٹا انتہائی حساس ہوتا ہے۔ اسی کی بنا پر ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، خودکُش دھماکے اور طرح طرح کے جرائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ سول لباس میں عوام کا نجی ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، وہ کسی بھی طور سے ذمہ دار افراد نہیں ہیں۔ آپ ان کی تعلیم، کوالیفکیشن اور خاندانی بیک گراونڈ کو چیک کروا لیجئے۔ ان کے رویّے اور طرزِ عمل سے عیاں ہے کہ یہ مختلف جرائم پیسشہ افراد کے نیٹ ورکس سے مربوط ہیں۔ ویزہ ملنے کے باوجود جو ڈیٹا بار بار عوام سے از سرِ نو جمع کیا جاتا ہے اور لوگوں کے ساتھ جو برتاو کیا جا رہا ہے، وہ یہ آشکار کرتا ہے کہ ان لوگوں پر اعلیٰ حکام کی طرف سے کوئی چیک اینڈ کنٹرول نہیں۔ ملک میں ہونے والے قتل، چوری اور ڈاکے جیسی وارداتوں نیز جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر یہ ڈیٹا انتہائی غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

۳۔ فیڈ بیک کو اہمیت نہ دینا
ہم جانتے ہیں کہ ادروں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں عوام کے فیڈ بیک سے بہت مدد ملتی ہے۔ اس سے جہاں عوام اور اداروں کے درمیان فاصلہ ختم ہوتا ہے، وہیں جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا بھی تنگ ہوتا ہے۔ ملک کے سارے روٹس اور بارڈر پر فیڈ بیک اور عوامی رائے کی جمع آوری کا کوئی انتظام نہیں۔ لوگ اس روٹ پر سفر کے دوران اور بارڈر پر جو تجربات کرتے ہیں، ان تجربات کی بہت اہمیت ہے۔ ملک کا بارڈر ایک حساس مقام ہوتا ہے، تفتان بارڈر اور دیگر بارڈرز پر عوام سے ان کا فیڈ بیک لینے اور ان کی آراء کی جمع آوری کو اہمیت نہیں دی گئی۔

۴۔ بارڈر پر آقا اور غلام کی تفریق
کسی بھی ملک کے بارڈرز انتہائی حسّاس مقامات ہوتے ہیں۔ ان پر ایسا عملہ تعینات کیا جانا چاہیئے، جو واقعتاً حب الوطنی میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو، تاکہ وہ لوگوں کو وداع کرتے ہوئے اور ان کا استقبال کرتے ہوئے دل و جان سے اپنے فرائض انجام دے۔ بدقسمتی سے بارڈر پر ہمارے کارندے تو چھت اور پنکھے کے نیچے بیٹھے ٹھنڈا پانی پی رہے ہوتے ہیں اور ان کے کمرے کے باہر لمبی لائنوں میں عوام گرمی اور پیاس میں جھلس رہے ہوتے ہیں۔

۵۔ پروفیشنل تربیت کا فقدان
امیگریش اسٹاف میں جہاں اخلاقی بحران نمایاں ہے، وہیں ان کی پروفیشنل تربیت میں کمی بھی آشکار ہے۔ بعض تو شکل و صورت اور حُلیے سے کسی انڈین فلم کے ہیرو اور یا پھر کسی داعشی و طالبانی ٹولے کے کمانڈر لگتے ہیں۔ سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کو بھی پاکستان کے قومی لباس اور پاکستانی ثقافت کا پابند ہونا چاہیئے۔ ان کی پروفیشنل تربیت میں ایسا کوئی عنصر نہیں کہ انہیں دیکھ کر ان کے ایک محب وطن پاکستانی ہونے کا احساس پیدا ہو۔ اسی طرح ان کے لباس پر ان کا نام بھی نہیں لکھا ہوتا، جس کی وجہ سے وہ اپنی ڈیوٹی سے سوئے استفادہ کرتے ہیں اور ان کی شکایت بھی درج نہیں ہوتی۔

۶۔ رشوت کا دھندہ اور جرائم میں اضافہ
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ تفتان اور ریمدان دونوں بارڈرز پر مسافروں سے ویزہ ہونے کے باوجود تین، چار، پانچ ہزار سے دس ہزار تک رشوت وصول کی جاتی ہے۔ یقیناً اگر کسی کے پاس ویزہ نہیں ہوتا ہوگا تو اس سے قدرے زیادہ رشوت لے کر اسے بھی جانے دیا جاتا ہوگا۔ ماضی میں کلبھوشن یادو اور اس طرح کے دیگر نیٹ ورکس کا تلخ تجربہ ہم کرچکے ہیں۔ یہ سب کچھ رشوت اور بھتہ دیئے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تو چند چیدہ چیدہ اور اہم مسائل ہیں، جو ہم نے بیان کئے، اب ہماری کچھ تجاویز بھی ہیں، جن پر ہمدردانہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔

تجاویز:۔
۱۔ ہم بحیثیت قوم کسی بھی طرح کی شدّت پسندی اور جنون کے متحمل نہیں۔ خصوصاً سکیورٹی فورسز کو ہر طرح کے جنون اور شدت پسندی سے پاک ہونا چاہیئے۔ سرکاری ملازمین چاہے سول کپڑوں میں ہی ہوں، ان پر ڈیوٹی کے دوران سیاسی یا مذہبی گفتگو اور تبلیغ پر پابندی ہونی چاہیئے۔ برائے مہربانی پہلی فرصت میں تفتان بارڈر پر موجود جنونی افراد کے بارے میں انکوائری کی جائے اور آئندہ تمام بارڈرز پر ایسے افراد کو متعین کیا جائے، جو ایسے امراض کا شکار نہ ہوں۔

۲۔ “صوفی صاحب اینڈ کمپنی” کے مسئلے کو سنجیدہ لیا جائے۔ تفتان بارڈر کا ڈیٹا ایسے افراد سے لے کر فوری طور پر قابلِ اعتماد اور محفوظ ہاتھوں میں منتقل کیا جائے۔ لوگوں کی جان و مال اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اور ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کیلئے “صوفی صاحب اینڈ کمپنی” کی سرگرمیوں کے بارے میں تحقیق کی جائے کہ اب تک کہیں وہ ڈیٹا کسی جرائم پیشہ نیٹ ورک کے ساتھ شئیر تو نہیں کرتے رہے۔ برائے مہربانی اس امر کو یقینی بنایا جائے۔

۳۔ آج کی جدید اور سُپر ماڈرن دنیا میں فیڈ بیک کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اسے نظر انداز نہ کیا جائے۔ سفری مشکلات سے بچنے اور بارڈرز پر سکیورٹی عملے کی بدعنوانی کی صورت میں جگہ جگہ موبائل نمبرز لکھے ہونے چاہیئے، تاکہ لوگ فوری مدد طلب کرسکیں۔ اس سے عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور عوام اور فوج و پولیس کے درمیان حائل خلیج بھی ختم ہو جائے گی۔ یوں ملکی سلامتی اور دفاع کیلئے عوام اور حکومت ایک پیج پر آجائیں گے۔ شکایات اور فیڈ بیک کے حصول کیلئے عوام کی شناخت مخفی رکھنے کا اعلان ہونے کی صورت میں سکیورٹی اداروں کو عوام کی طرف سے بہت مدد ملے گی۔

۴۔ انٹری گیٹس پر مامور تکفیری “صوفی صاحب اینڈ کمپنی” کے بجائے مہذب، تعلیم یافتہ اور محب وطن ٹیم کو فوری طور پر تعینات کیا جائے۔ بارڈر پر جو بنیادی سہولیات عوام کو نہیں دی جا رہیں، وہ سرکاری اسٹاف کو بھی نہ دی جائیں، تاکہ مساوات اور فرض شناسی کا عنصر زندہ رہے۔ سرکاری عملے کو بھی عام پبلک کی طرح بغیر پنکھے اور بغیر چھت کے روڈ پر بٹھایا جائے۔ اس طرح وہ سخت گرمی میں لوگوں کو زیادہ لمبی تبلیغ نہیں کریں گے۔ نیز انہیں بھی گرمی اور پیاس کا احساس ہوگا، یا پھر عوام کیلئے بھی ایک چھت اور پنکھے کا انتظام کر دیا جائے۔

۵۔ پروفیشنل تربیت کے بغیر قومی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اس وقت مسافروں سے جو لوگ معلومات کی جمع آوری کیلئے ایک فارم پُر کرواتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ اس فارم کے حوالے سے اُن کی اپنی کیا ذمہ داری ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی ذمہ داری فقط لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہے۔ وہ خود لوگوں کی توہین کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں کو ایک سفید کاغذ دے دیتے ہیں کہ اس کاغذ پر اپنی معلومات لکھیں۔ ظاہر ہے کہ ایک سفید کاغذ پر لکھی گئی معلومات اوپر نیچے ہوتی ہیں، وہ اس کو بھی لوگوں کی توہین کرنے کا ایک بہترین بہانہ بنا لیتے ہیں۔ انہیں سکھایا جانا چاہیئے کہ فارم پُر کرنا اُن اہلکاروں کی اپنی ذمہ داری ہے۔

لوگ فارم پر کرکے ان کی مدد کرتے ہیں اور اگر کسی فارم یا سفید کاغذ پر لکھی گئی معلومات میں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کی اصلاح اور درستگی خود سرکاری اہلکار کی آفیشل ذمہ داری ہے۔ معلومات کی جمع آوری کیلئے صرف فارم یا سفید کاغذ کا ہونا کافی نہیں بلکہ رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب (Right Person for the Right Job) بھی ضروری ہے۔ اس کیلئے کوئی بہت زیادہ اعلیٰ تعلیم کی ضرورت نہیں بلکہ صرف سرکاری ملازم کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ وہ اپنا کام لوگوں پر نہ ڈالے۔ وہ پوری توجہ سے ایک سرکاری ملازم ہونے کے ناطے وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے، بصورت دیگر عوام اس کی شکایت لگانے کے مجاز ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تفتان کے مسئلے کو چند سرکاری اہلکاروں نے سرطان بنا دیا ہے۔ اس سرطان کا علاج بھی انہی اداروں کے سمجھدار اور تعلیم یافتہ افراد کے پاس ہی ہے۔پاکستانی عوام میں ابھی تک یہ امید زندہ ہے کہ اس ملک میں ابھی ایسے تعلیم یافتہ، پروفیشنلز، مہذب اور ذہین آفیسرز موجود ہیں، جو اس سرطان کو جڑ سے اکھاڑنا جانتے ہیں۔ پاکستانیوں کو یقین ہے کہ یہ ملک ہزاروں شہداء کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہے اور یقیناً اس ملک کی اعلیٰ پوسٹوں پر ان شہداء کے خون سے وفاداری کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ چنانچہ اپنے ریاستی اداروں کی عوام دوستی اور دوراندیشی پر اعتماد کرتے ہوئے یہ تجاویز مرتب کی گئی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے وفادار اور محب وطن متعلقہ اعلیٰ حکام کی جانب سے جلد ہی تفتان بارڈر پر مذکورہ سرطان کا خاتمہ کیا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply