• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنرلوں اور ججوں کو زمین کی الاٹمنٹ غیر آئینی قرار دئیے جانے کا احسن فیصلہ ۔۔ غیور شاہ ترمذی

جنرلوں اور ججوں کو زمین کی الاٹمنٹ غیر آئینی قرار دئیے جانے کا احسن فیصلہ ۔۔ غیور شاہ ترمذی

لاہور میں مقیم ایک دوست اطہر (فرضی نام) نے کچھ سال پہلے بتایا تھا کہ کلمہ چوک فیروز پور روڈ کے نزدیک ان کی آبائی جائیداد کو کچھ دیگر لوگوں کی جائیداد کے ساتھ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے دفاعی مقاصد کے لئے حاصل کرنے کا کہہ کر اپنی حدود میں داخل کر لیا تھا۔ دیگر لوگوں کو تو سول ایوی ایشن نے اس acquisition کی سرکاری نرخوں پر پےمنٹ کر دی تھی لیکن اطہرکے خاندان کو اس کی کوئی پےمنٹ نہیں کی گئی۔اطہر کے مطابق ، سالہا سال سے اطہر کے خاندان نے مختلف سرکاری اداروں کو درخواستیں دیں کہ اگر ان کی جائیداد acquire کر لی گئی ہے تو اس کی پےمنٹ کر دی جائے اور اگر یہ جائیداد acquire نہیں کی گئی تو سول ایوی ایشن اس پر کیا ہوا قبضہ ختم کرے۔

ان درخواستوں کے علاوہ عدالت عالیہ میں چلنے والے کیس میں بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کبھی بھی اطہر فیملی کی اس جائیداد کو acquire کرنے کا اعتراف نہیں کیا مگر اس پر کیا ہوا قبضہ بھی چھوڑنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ دفاعی اعتبار سے اس جگہ کو اس کے مالکان کے حوالہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سارے قصہ میں مخفی جھٹکا اور اصل کہانی یہ ہے کہ سول ایوی ایشن نے کبھی بھی اطہر فیملی کی اس جائیداد کو کسی دفاعی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا تھا بلکہ اس جائیداد پر سول ایوی ایشن نے بڑے بڑے شادی ہال بنائے ہوئے ہیں جنہیں اپنے کچھ کٹھ پتلیوں کو ٹھیکوں پر دیا ہوا ہے۔ زوردار افواہ یہ ہے کہ ان شادی ہالوں سے حاصل ہونے والی لمبی کمائی بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے بڑوں کی جیبوں میں جاتی ہے۔

اطہر کی فیملی کے لئے اور ایسی کئی فیملیوں کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اگلے روز سپریم کورٹ نے فوجیوں اور ججوں کو زمین کی الاٹمنٹ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دی۔ عدالت عظمی نے اپنے فیصلہ میں لکھاہے کہ آئین و قانون افواج پاکستان اور ججوں کو (سرکاری یا نجی) اراضی لینے کا حق نہیں دیتا۔ بری، بحری یا فضائی افواج اور ان کے ماتحت کوئی بھی فورس رہائشی، زرعی یا کمرشل زمین لینے کا حق نہیں رکھتیں۔ سپریم کورٹ نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی جانب سے زمین حاصل کرنے کے معاملہ پر فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں منظور کر لیں۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کا زمین حاصل کرنے کا اختیار ختم کر دیا تھا جسے سپریم کورٹ نے برقرار رکھا ہے۔

اس فیصلے سے پہلے بھی 18 دسمبر 2003ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار رضا خان اور جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری نے ملک کی مسلح افواج کے ارکان کو سرکاری زمین الاٹ کے اقدام کو سرکاری زمین الاٹ منٹ کے سلسلہ میں حکومتی پالیسی اور کامونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ پنجاب ایکٹ کی دفعہ 10 کے تقاضوں کے منافی قرار دیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ اس نوٹیفکیشن کے تحت ملک کی مسلح افواج کو سرکاری زمین الاٹ کرنے یا پٹہ پر دینے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی جبکہ کامونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز پنجاب ایکٹ مجریہ 1912 ء کی دفعہ 10 کے تحت ایسے کسی بھی شخص کو زرعی اراضی الاٹ کرنے کی واضح مخالفت کی گئی ہے جو وفاقی یا صوبائی حکومت کسی ترقیاتی ادارے، یا بلدیاتی ادارے کا ملازم ہو۔

اس فیصلہ کے باوجود بھی رینالہ خورد میں 90 مربع اراضی سابق جرنیلوں، بریگیڈیئرز اور دیگر فوجی افسران کو اسی سکیم کے تحت سنہ 2007 ء میں چک 20/ILR اور چک 22, 23, 24 میں الاٹ کی گئیں جبکہ 100 سال سے اس علاقہ کے کسان اور مزارعین ان زمینوں کو کاشت کر رہے تھے۔ سنہ 1947ء کے بعد نشیبی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس زمین میں سیم و تھور نے قبضہ کر لیا۔ کاشت کاروں کے لئے اس زمین کو کاشت کرنا مشکل ہو گیا۔ سنہ 1999ء کی خشک سالی نے اس زمین کو ایک دفعہ دوبارہ خشک کر دیا تو کسانوں اور مزارعین نے اس کو دوبارہ کاشت کرنا شروع کردیا۔ سنہ 2007ء میں چوہدری پرویز الٰہی حکومت نے یہ زمین 100 سال سے اسے آباد اور پھر 1999ء کے بعد دوبارہ آباد کرنے والوں کو دینے کی بجائے فوجی افسران کو ایک نام نہاد سکیم کے نام پر لیز پر دے دیں جس کی وجہ سے الاٹمنٹ لینے والوں اور مقامی کاشتکاروں میں شدید تصادم بھی ہوا۔

پاکستانی افواج کے دوسرے کمانڈر انچیف جنرل گریسی جب پاکستانی فوج کو کمان کر رہے تھے تو جنرل ایوب خان نے پلاٹ لینے کی درخواست کی تھی مگر جنرل گریسی نے ایوب خان کو پلاٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حیران کن طور پر ایک برطانوی افسر نے اس ملک کی زمین کو اسی دھرتی کے سپوت سے بچایا مگر چوہدری پرویز الٰہی نے رینالہ خورد میں 90 مربع اراضی فوجی افسران میں تقسیم کر دی جس میں 6 ریٹائرڈ جرنیلوں کو 24 گھوڑیاں پالنے کے لئے 24 مربع زمین بھی الاٹ کی گئی یعنی ہر جرنیل کو 4 گھوڑیاں پالنے کے لئے 4 مربع زمین۔ ان جرنیلوں میں سابق چیئرمین نیب ریٹائرڈ جرنیل شاہد عزیز، سابق کور کمانڈر گوجرانوالہ جرنیل ریٹائرڈ خالد منیر خان، سابق چیئرمین فوجی فاؤنڈیشن جرنیل ریٹائرڈ سید عارف حسین اور سابق جرنیل جاوید عالم خاں شامل تھے۔ گھوڑی پال اور جانور پال سکیمیں انگریز دور کی 100 سالہ پرانی سکیمیں ہیں جن کے ذریعے انگریز سامراج آزادی کی جدوجہد سے غداری کرنے والے افراد کو زمین الاٹ کرتے تھے تاکہ ان کی غداری کا صلہ زمین کی صورت میں ادا کیا جاسکے۔ ایسے ہی گھوڑیاں پال سکیموں سے مستفید ہونے والے آزادی کی جدوجہد میں انگریز سامراج کا ساتھ دینے والے افراد اب پاکستان کے بڑے جاگیردار خاندانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان گھوڑی پال سکیموں میں انگریزوں سے زمینیں الاٹ کرانے والوں میں شاہ محمود قریشی، بیگم عابدہ حسین، فیصل صالح حیات اور دیگر رؤسا خاندان شامل ہیں۔

فوج اور سول بیوروکریسی میں ایک سے زائد پلاٹس کا کلچر عام ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ فوج میں ایسی “سویٹ ہارٹ” ڈیلز کو قابلِ قبول بنایا گیا۔ بڑے افسران کو خوش کرنے کے لئے بڑی بڑی جائیدادیں دینے کی بجائے کم آمدنی والے سرکاری ملازمین اور جونیئر افسران کے لئے کم قیمت پلاٹ دستیاب ہونے چاہئیں مگر کسی بھی ایسے سرکاری ملازم کو ایک پلاٹ سے زیادہ پلاٹ لینے کا حقدار نہیں ہونا چاہیے۔ بری، بحری اور فضائی افواج یا ان کے ماتحت کوئی بھی فورس اطہر جیسے عام شہریوں سے رہائشی، زرعی یا کمرشل زمین لینے کا حق نہیں رکھتی۔ ہاں اگر کوئی نجی جائیداد کسی دفاعی مقاصد کے لئے چاہیے ہو تو بھی ضروری ہے کہ یہ زمین عوامی مقصد کے لئے حاصل کی جائے، اس زمین کے حصول کا قانون ہونا چاہیے اور اس قانون میں زمین حاصل کرنے کے لئے معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ اگر اس زمین کے مالکان معاوضے سے مطمئن نہ ہوں تو انہیں متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئین پاکستان کے تحت سول سرونٹس 60 سال، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہے۔ بعد از ریٹائرمنٹ زندگی گزارنے کے لئے انہیں معقول پینشن دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مالی سال 2020۔21ء کے بجٹ میں پنشن کی مد میں 4 کھرب 70 ارب روپے مختص کئے گئے جس میں ایک کھرب 11 ارب روپے سرکاری ملازمین کی پنشن کے لئے مختص کئے گئے جبکہ 3 کھرب 59 ارب روپے سے زائد کی رقم افواج پاکستان کے ریٹائرڈ افسران اور اہلکاروں کے لئے رکھی گئی تھی۔ پنشن کی مد میں ادا ہونے ہونے والی رقم سویلین حکومت چلانے کے اخراجات کے تقریباً مساوی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت بیرون ممالک سے قرض لے کر خسارہ بڑھا رہی ہے اور رواں مالی سال میں 29 کھرب 46 ارب روپے سے زائد کی رقم قرض کی صورت میں ادا ہونی ہے۔ وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ بچے جو ابھی پیدا ہونے ہیں ان کے بچے بھی غربت کا شکار ہوں گے۔ پاکستان کا فوجی اور عدالتی نظام برطانوی طرز پر قائم ہے جسے عوامی اور فلاحی بنانے کی ضرورت ہے۔ بیشتر پاکستانیوں کو بنیادی رہائش کی سہولت تک میسر نہیں۔ ایسے میں ملک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا انسانیت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ اس روشنی میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عوام کے جذبات اور قومی مفادات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔

Facebook Comments