عاصم از مائی بیسٹ فرینڈ/انعام رانا

سال تھا چھیانوے اور باپ کے سفارش سے انکار کی بِنا پہ میں گورنمنٹ کالج کے بجائے میرٹ پہ ایف سی کالج لاہور میں داخل ہو چکا تھا۔ دن، مہینہ یاد نہیں مگر پُنّوں کے ساتھ کئی بار ملنے والا بٹ اک دن نظر آیا تو سوچا پوچھوں کہ پُنّوں اتنے دن سے غائب کیوں ہے؟ جواب ملا کہ پُنّوں کے والد نے ایک دوشیزہ سے شادی کر لی ہے۔ میرا جواب اتنا بیہودہ تھا کہ بٹ چونکا، ہنسا اور پھر ہم زندگی بھر کے دوست بن گئے۔

42 برس کا جوان اگر 16 برس کی عمر میں دوست بننے والے پہ لکھے تو لگتا ہے جیسے سوانح حیات لکھنے لگا ہے۔ کیا رکھوں کیا چھوڑوں کہ بٹ کے بِنا زندگی میں باقی بہت کم بچتا ہے۔ وہ ابھی ہاسٹل میں رہتا تھا اور کامونکی سے لاہور آ کر دوسروں کو تسخیر کرنے کیلئے اس کے پاس فقط ہنسی تھی۔ آج تک بھی مجھے بٹ کے سِوا کوئی ایسا انسان نہیں ملا کہ آپ جس قدر بھی افسردہ ہوں، اسکی موجودگی آپ کا ڈپریشن دور کر دے۔ وہ جگت باز کے ساتھ ساتھ انتہا کا سُریلا تھا۔ اسکے پاس آپکو فتح کرنے کے دو ہتھیار تھے، جگت/مزاح اور سُریلا گانا، بچ کر جاتا کبھی کوئی نہیں دیکھا۔ جانے کتنے ہی مشکل لمحے میں نے اسکی گود میں سر رکھ کر مکیش، رفیع، ہیمنت یا نورجہاں کو سن کر سہہ لیے۔ مجھے پتہ ہی نہیں لگا کب وہ میرے وجود کا حصّہ بن گیا، میری تکمیل بن گیا۔

بٹ کے والد جنگ اخبار کے مشہور صحافی تھے۔ میرے شاعر نہ  بن پانے میں بٹ کا ہاتھ ہے کہ جس نے میری تُک بندیوں پہ انکل کا بے رحمانہ نکتہ نظر مجھے بتا کر قائل کر لیا کہ شاعری میرے بس کی بات نہیں۔ البتہ زندگی بھر وہ ہر وہ کام جو میں کرنا چاہتا تھا، اس میں میرا شریک رہا۔ روکنے کے بجائے حصّہ بن گیا، بھلے حصّہ رہتے ہوئے میرا رُخ موڑ دیا۔ بی اے میں ہمارے ایک بڑے گروپ میں فقط میں اور بٹ تھے جو پاس ہوئے۔ دونوں ہی وکیل بننا چاہتے تھے سو پنجاب یونیورسٹی جا پہنچے۔ وہاں سے بھاگے کیوں، میری کسی تحریر میں موجود ہو گا، بس قصّہ مختصر کہ پروفیسر ہمایوں احسان کے شکار ہو کر ہم پاکستان کالج آف لاء  میں آ گئے۔ وکالت پاس کر کے نکلے تو اس نے میرے والد کو بہکایا کہ کیونکہ وہ ماسٹر ڈگری کرنے برطانیہ جا رہا ہے تو مجھے بھی جانا چاہیے۔ جس دن میرے والد کا انتقال ہوا، ہم دونوں کا داخلہ یونیورسٹی میں ہو چکا تھا اور ویزہ فارم بھر چکے تھے۔

بٹ جنوری2007  میں برطانیہ آیا۔ جب حالات نے میری مشکیں کَس دیں تو ایک دن بٹ سے کہا یار میرا ایڈمیشن کرا دے۔ دو ماہ بعد میں لندن تھا۔ داخلہ میرا لندن کی ایک یونیورسٹی میں ہُوا  تھا مگر میں اور عثمان خان بٹ سے ملنے گلاسگو پہنچ گئے ،جہاں بٹ نے مجھے قائل کر لیا کہ یونیورسٹی یا تو آکسفورڈ، کیمبرج ہیں یا گلاسگو اور باقی دونوں کے بجائے گلاسگو ہی بہتر ہے کہ یہاں بٹ خود موجود تھا۔

صاحبو!  وطن سے دربدر ہُوا وہ ڈوبتا ہُوا تیراک ہوتا ہے جو تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور بٹ تو پورا شہتیر تھا۔ اس نے مجھے ماں کی مانند گود میں بھر لیا۔ ایڈمیشن، بینک اکاؤنٹ، نوکری،سب کچھ ہی تو بٹ کے  ذمہ تھا۔ البتہ جیسے ساری عمر وہ انگریزی بلکہ اردو بھی پنجابی میں بولتا رہا، باقی معاملات میں بھی وہ من موجی تھا۔ ایک دن پوچھا، بٹ یہ دریا کون سا ہے، بولا ، “River glasgow”۔مجھے دس ماہ بعد پتہ چلا کہ اس کا نام “River clyde” ہے۔ بٹ سالے اسکا نام تو کلائیڈ ہے۔ اچھا؟ کلائیڈ ہی ہوئے گا، اسی کیہڑا نہانا اے۔ اس ڈائیلاگ میں بٹ کی ساری زندگی، ساری فلاسفی چھپی ہے۔

ڈگری کر کے وہ پاکستان چلا گیا کہ اسے لگتا تھا پاکستان ہی اسکا مقام ہے۔ میں رہ تو گیا مگر وہ ہمیشہ مجھے یہ ہی کہتا رہا “رانے چل بس کر، ہُن واپس آ جا۔ “  اسے معلوم نہیں تھا کہ جن کی جڑ کٹ جائے وہ برگد نہیں فقط آندھی کے زور پہ اُڑتا ہُوا ایک پتّہ بن جاتے ہیں۔ لیکن واپس آتے ہی وہ میرے گھر کا بیٹا بن گیا۔ میری ماں کا بیٹا اور میری بہنوں کا بھائی۔ عاصم یہ کر دے، عاصم بھائی یہ کروا دیں، عاصم کو کہو کر دے گا؛ یہ میرے گھر میں ہمارے درمیان بولے جانے والے روزمرہ جملے تھے۔ مجھے پاکستان میں نہ  رہتے ہوئے بھی کبھی محسوس ہی نہیں ہُوا کہ میں وہاں نہیں۔ بٹ یہ کام کر دے، امی کیلئے یہ کر دے، فلاں پہ پرچہ کرا دے، فلاں کو اندر کرا دے؛ کبھی نہیں ہُوا کہ مجھے پاکستان میں کبھی کوئی کام ہو اور کسی اور کو کہا ہو۔ لیکن کبھی نہیں ہُوا کہ اسکے ماتھے پہ شکن آئی ہو۔ ہو جائے گا رانے، اسکا مستقل جملہ تھا۔

زندگی میں کتنے ہی کام ہیں جو میں نے فقط اس لیے کیے کہ اس نے کہا ہے۔ لا ء کالج میں ایک دن اس نے کہا رانے تُو نے الیکشن لڑنا ہے۔ میں نے کہا پاگل ہے، میرے والد نے سختی سے کہا ،خبردار، اس نے کہا میری عزت کا مسئلہ ہے، ہم لڑے اور جیتے۔ پچھلے سال وہ لندن آیا، اس نے کہا رانے کل ہم میاں نواز شریف سے ملنے جائیں گے۔ بٹ پاگل ایں، میرا پورا حلقہ احباب، میرے سوشل میڈیا دوست مجھے سولی پہ ٹانگ دیں گے۔میں نے پچھلے الیکشن میں جیسے عمران خان کی حمایت کی تھی، اگر راشد ہاشمی نے بتا دیا تو میاں صاحب نے مجھے وہیں لٹا لینا ہے۔ جواب آیا “رانے، ان میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ عزیز ہے؟” اگلی صبح میں عاصم بٹ کے ساتھ میاں صاحب کے گھر یوں بیٹھا تھا کہ ہمارے اور انکے علاوہ کوئی موجود نہ  تھا۔ اس کے بعد اس نے اس میٹنگ کی تصاویر میرے خاندان اور مشترکہ دوستو کو بھیج کر اعلان کیا کہ میں “راہ راست” پہ آ گیا ہوں۔ بلکہ ن لیگ کے پیجز پہ وہ تصویر لگوائی اور مجھے کہا تصویر لا۔ یار بٹ نہ  کر، میرے نال بہت بُری ہوئے گی۔ جواب آیا “میری خاطر بھی نہیں؟” میں نے تصویر لگائی اور آج بھی اس کی وجہ سے “بِک گیا” “بریانی کھا لی” جیسی گالی کھاتا ہوں مگر کبھی بدمزہ نہیں ہُوا۔

ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے والے، زندگی جینے والے میرے یار کو جانے کون سا دکھ تھا جو اسکے دل کا روگ بن گیا۔ لندن کی سویر سات بجے جب میری بہن نے میری بیوی کو جگایا تو مجھے بس اتنا پتہ تھا کہ مجھے لاہور پہنچنا ہے، مجھے اپنے یار اپنے بھائی کے سینے لگنا ہے۔ مجھے بین ڈالنے ہیں جو اسکی وہ بہن وہ بیٹی ڈالتی جو نہیں تھی۔ میں پتھر ہو گیا۔ عثمان خان مجھے امریکہ سے کال کر کر کے کُرلاتا تھا مگر میں پتھر ہو گیا تھا۔ پھر مجھے اپنا کزن راؤ فہد نظر آیا، ہمارا لندن کا مشترکہ دوست، اور میں ٹوٹ گیا۔ میں ایسے روتا تھا جیسے اپنے باپ کی موت پہ کہ بھائی کی موت بھی تو سائبان کی موت ہوتی ہے۔ کبھی نہیں ہُوا کہ میں آیا اور وہ مجھے ملنے سب سے پہلے نہیں پہنچا اور آج وہ یوں خاموش لیٹا تھا جیسے مجھے چھیڑ رہا ہو، پہلی بار مجھے تنگ کر رہا ہو۔ اسے قسمت کہیے یا ہماری دوستی کا آخری ثمر کہ وہ دفن بھی میرے گھر کے پاس اس قبرستان میں ہُوا، ایسی قبر میں ہُوا کہ میں اپنے گھر سے جب بھی نکلوں مین گیٹ کے پاس بنی اسکی قبر سے نظر چرائے بِنا نہیں گزر سکتا۔ ہاں عاصم تُو زندہ رہا، تُو بھی میرے ہر سفر لاہور کا لازم حصّہ رہا اور اب تیری قبر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

راشد لودھی نے روتے ہوئے اسکے جنازے پہ کہا تھا، یار عاصم کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی اور دوست کی ضرورت نہیں تھی۔ پچھلے ہفتے کسی نے مجھ سے کہا، سر! لاہور میں آپکا کوئی واقف ہے، بے اختیار میری سسکی نکلی کہ ایک تھا مگر مر گیا۔ عاصم عزیز بٹ، میرا لاہور تیرے ساتھ ہی قبر میں اُتر گیا ہے یار۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply