آج کل شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک انٹرویو کا بڑا شہرہ ہے، جس میں اس نے بہت سے معاملات پر کھل کر بات کی ہے۔ کچھ عرصے سے یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امریکی آشیرباد سے پس پردہ مذاکرات جاری ہیں اور امریکی خواہش بڑی شدید ہے کہ یہ جلد عملی شکل اختیار کریں اور آنے والے الیکشن میں امریکی صدر اسے امریکہ میں موجود مضبوط اسرائیلی لابی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے پیش کرسکیں۔ کچھ عرصے سے یہ پتہ چلا کہ مذاکرات میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے اور اب بات آگے نہیں بڑ ھ رہی۔ سعودی عرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عالم اسلام کا رہنماء بھی رہنا چاہتا ہے اور خود کو مذہب سے فاصلے پر لے جا رہا ہے۔
محمد بن سلمان سعودی عرب میں اپنے زعم میں ایک کھلے اور مغربی اقدار پر مبنی معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ اس کی عملی صورت وہاں ہونے والے کنسرٹس، مقابلوں اور دیگر معاشرتی تبدیلیوں سے وہ کر رہے ہیں۔ یعنی تصور کریں کہ وہ معاشرہ جہاں چند سال پہلے تک خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس معاشرے میں کنسرٹس ہو رہے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے فلمی سٹارز کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
محمد بن سلمان نے یمن، قطر اور دیگر معاملات میں بہت تیزی دکھائی تھی، جس کی وجہ سے ہر دو جگہ منہ کی کھانی پڑی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اشارے اور اسرائیلیوں سے روابط کی ایک تاریخ ہے۔ شاہ عبداللہ کے دور میں بھی اس کی طرف سے ایک منصوبہ آیا تھا، مگر وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس وقت سے سعودی معاشرے کو اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ ہر ایک آدھ سال میں کوئی نہ کوئی بیان پھینک کر مسلم رائے عامہ میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی بحث شروع کر دی جاتی ہے۔ آپ اپنی پارلیمنٹ میں ہونے والی مسلسل گفتگو کو سن لیں، یہ محض اتفاق نہیں ہوتا کہ کوئی سو کر اٹھے اور پارلیمنٹ میں اسرائیل کی حمایت میں تقریر کر ڈالے۔
محمد بن سلمان کی پالیسی میں مذہب کا استعمال اتنا ہی ہے، جتنا اسے اپنی حمایت کے لیے چاہیئے ۔وہ ہر صورت میں اہل مذہب کو اپنے نظریہ ریاست کی حمایت میں لانا چاہتا ہے اور اس نے عملی طور پر ایسا کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ جو ان اقدامات پر تنقید کرتے تھے، آج جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور انہیں ان کے مناصب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ محمد بن سلمان نے علی الاعلان کہا کہ ہم اسرائیل کے ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب آرہے ہیں۔ اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔ آپ نے اس کے خلاف سعودی عرب میں کہیں کوئی شور سنا؟ یا وطن عزیز میں کسی جماعت نے اہل فلسطین سے اس غداری اور فلسطینیوں کے اس سودے بازی پر محمد بن سلمان کی کلاس لی ہو؟ میرے خیال میں یہ ایک المیہ ہے۔
ہمارے دوست اوسلو اسلامی مرکز کے سرابراہ فضل ہادی بھائی نے خوب لکھا ہے کہ اسرائیل کا وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ اعلان کرے کہ مستقبل میں فلسطین کا کوئی وجود نہیں ہوگا، تب ہال تالیوں سے گونج اٹھ رہا ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان لیڈر، وینزویلا یا کوئی بھی رہنماء یا عام بندہ یہ اعلان کریں کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست اور اس کا وجود کرہ ارض پر یورپ و امریکہ کا فراہم کردہ ناجائز تسلط ہے، تب مغرب چیخ اٹھے گا، اسے Antisemitism قرار دیا جائے گا۔
جہاں تک اردن، سعودي عرب، یو اے ای اور اسرائیل پر مشتمل مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ اور ایشیاء کو یورپ سے جوڑنے کے لیے امن کوریڈور کے اعلان کا تعلق ہے تو اس پر عرب راجواڑوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر موجود ان کے مذہبی “پاپائیت” سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ بہت جلد اسرائیل سے دشمنی کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسرائیل علیہما السلام کیساتھ دشمنی سے تعبیر کریں گے۔ امکان ہے کہ وہ دن اب اتنا دور نہیں کہ “عہد اسرائیل علیہ السلام اور جدید اسرائیلی ریاست میں حیران کن مشابہت” اور مدح اسرائیل پر کتابیں لکھنا شروع ہوں گی۔
خورشید ندیم صاحب یہ تلقین فرما رہے کہ یہ بھی تاریخ کا ایک جبر ہے، جسے قبول کر لینا چاہیئے، وہ لکھتے ہیں کہ اس تجزیئے سے واضح ہوگیا ہوگا کہ نیا مشرق وسطیٰ اب کیسا ہے؟ یہ وہ نہیں ہے، جو ہمارے مذہبی تصورات یا قومی بیانیے کا حصہ ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہوگا کہ کسی غیر اخلاقی تسلط کو دنیا نے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی قبولیت اور عدم قبولیت کا تعلق تاریخ کے جبر سے ہے۔ آخر ہم نے باونڈری کمیشن کے فیصلے کو قبول کیا، جس نے جونا گڑھ کو بھارت کا حصہ بنا دیا۔ تاریخ وہاں پہنچ چکی تھی کہ اس کا پہیہ ماضی کی طرف نہیں گھوم سکتا۔
صرف ظاہری اسباب اور دنیا کی بدمعاشی کی وجہ سے قوموں کے حقوق ختم نہیں ہوتے، ہاں کچھ عرصہ کے لیے دبائے جا سکتے ہیں۔ تجزیہ کرتے ہوئے ان جوان جذبوں کو ضرور دیکھنا چاہیئے، جو دلوں میں آزادی کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ یعنی اب یہ طے ہوگیا کہ دنیا میں سب طاقت سے ہوگا، دلیل اور اخلاقیات کی کوئی جگہ نہیں ہوگی؟ یقیناً آزادی پسندوں کے لیے مشکلات ہوں گی، مگر سعودی عرب کو بھی اسرائیل سے وہی ملے گا، جو مصر کو ملا اور آج بھی قرض پر چل رہا ہے۔ خطے میں موجود مطلق العنان بادشاہوں کے علاوہ یہاں عوام موجود ہے اور عوام اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ محمد بن سلمان کو ایٹمی پلانٹ نہیں ملے گا، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اسے امن کا آدھا نوبل پرائز اس وجہ سے دے جائے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا، اس کے اثرات کی گرمی کو بہرحال محسوس کرنا پڑے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں