• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ(از مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، ایک مطالعہ)۔۔ثاقب اکبر

الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ(از مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، ایک مطالعہ)۔۔ثاقب اکبر

ہمارے پیش نظر حضرت علامہ سید حسین احمد مدنی کی مختصر کتاب الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ کا وہ نسخہ ہے، جس پر تعلیقہ اور حاشیہ دارالعلوم دیوبند کے استاد مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی کا ہے اور جسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملتان سے شائع کیا ہے۔ مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی کے بقول یہ رسالہ گم ہوگیا تھا، جو ان کی پیہم کوششوں کے نتیجے میں آخرکار مکتبۃ الحرم مکہ معظمہ سے تقریباً پون صدی کی گمنامی کے بعد دستیاب ہوگیا۔ پھر مولانا نے اس پر تعلیقہ اور حاشیہ لکھا اور حوالہ جات مکمل کیے۔ انھوں نے نظریۂ مہدویت کے حوالے سے اس پر ایک گرانقدر مقدمہ بھی لکھا اور ایک محقَّق دستاویز کی صورت میں شائع کیا۔ بعدازاں اسے پاکستان سے عالمی مجلس ختم نبوت نے بھی شائع کیا اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ امام مہدیؑ کا نظریہ دراصل ختم نبوت کے نظریے پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے، تاہم اس کی اپنی تفصیلات ہیں، جو اس کتاب کے مطالعے، احادیث پر گہری نظر ڈالنے اور مقدمے کا دقتِ نظر سے جائزہ لینے سے سامنے آتی ہیں۔

مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی ’’کچھ باتیں کتاب کے متعلق‘‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں: ایک دن بیٹھا ماہنامہ الرشید ساہیوال کا خصوصی شمارہ مدنی و اقبال نمبر دیکھ رہا تھا، اس میں حضرت شیخ الاسلام قدس سِرّہٗ کے غیر مطبوعہ مکاتیب کا ایک مختصر سا مجموعہ مرتبہ جناب محمد دین شوق صاحب بعنوان ’’مکتوبات مدنیہ‘‘ بھی شریک اشاعت ہے۔۔۔ اس مجموعہ کا تیسرا مکتوب جو ڈربن افریقہ کے کسی صاحب کے جواب میں ۲۲ صفر ۱۳۵۳ھ کو لکھا گیا ہے۔ اس میں امام مہدیؑ آخر الزماں کے بارے میں حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت امام مہدی قیامت سے پہلے بلکہ نزول عیسیٰ علیہ السلام اور خروجِ دجال اور فتنۂ یاجوج و ماجوج ودا بتہ الارض و طلوع شمس من المغرب وغیرہ سے پہلے ظاہر ہوں گے۔ قیامت میں تو تمام انبیاء اور اولیاء کا اجتماع ہوگا۔ حضرت مہدیؑ دنیا میں مذہب اسلام کی زندگی اور اس کی تقویت کا باعث ہوں گے۔ وہ اس وقت ظہور فرمائیں گے جب کہ دنیا ظلم و ستم سے بھر گئی ہوگی۔ ان کی وجہ سے دنیا عدل و انصاف، دین و ایمان سے بھر جائے گی، ان کا اور ان کے باپ کا نام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور آپ کے والد ماجد کے نام کے مطابق ہوگا۔ صورت بھی آپ کی صورت کے مشابہ ہوگی، آپ ہی کی اولاد سے ہوں گے۔ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل میں سے۔‘‘

مکہ مکرمہ میں ظاہر ہوں گے۔ اول جو جماعت ان کے ہاتھ پر بیعت کرے گی، وہ تین سو تیرہ آدمی ہوں گے۔ حسبِ عددِ اصحاب بدر و اصحاب طالوت۔ لوگوں میں یکبارگی انقلاب پیدا ہوگا۔ حجاز کی اصلاح کے بعد سیریہ اور فلسطین وغیرہ کی اصلاح کریں گے۔ دارالسلطنت بیت المقدس ہوگا۔ ان کی حکومت پانچ یا سات یا نو برس ہوگی۔ اس بارہ میں صحیح روایتیں تقریباً چالیس میری نظر سے گزری ہیں اور حسن و و ضعیف بہت زیادہ ہیں۔ ترمذی شریف، مستدرک حاکم، ابو دائود مسلم شریف وغیرہ میں یہ روایات موجود ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر قیامت آنے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا، جب بھی اللہ تعالیٰ مہدی کو ضرور ظاہر کرے گا اور قیامت ان کے بعد لائے گا۔ لہٰذا اس میں بجز تسلیم کوئی چارہ نہیں۔ بہت سے جھوٹوں نے اب تک مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی میں یہ علامتیں نہیں پائی گئیں، جو مہدی موعود کے متعلق ذکر کی گئی ہیں۔ میں نے مالٹا جانے سے پہلے مدینہ منورہ کے کتب خانہ میں تلاش کرکے صحیح صحیح روایتیں جمع کی تھیں، مگر افسوس کہ وہ رسالہ روسی انقلاب میں جاتا رہا۔ اب میرے پاس وہ نہیں رہا اور جن لوگوں نے اس کو نقل کیا وہ بھی وفات پا گئے اور رسالہ پھر نہ مل سکا۔‘‘

رسالے اور اس کے موضوع کی اہمیت نیز آخری جملوں کے پیش نظر ہی مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی نے اس مذکورہ مسودے کی تلاش کا بیڑا اٹھایا اور آخرکار اس میں کامیابی حاصل کی۔ زیر نظر رسالے میں مولانا سید حسین احمد مدنی نے اپنا مقصدِ تحریر اپنے ابتدائیہ میں یوں لکھا ہے: ’’بعض مجالس علمیہ میں مہدیٔ موعود کا ذکر آیا تو کچھ ماہرین علم نے مہدیٔ موعود سے متعلق وارد حدیثوں کی صحت سے انکار کیا تو مجھے یہ بات اچھی لگی کہ اس موضوع سے متعلق مروی حسن و ضعیف روایتوں سے قطع نظر صحیح حدیثوں کو جمع کر دوں، تاکہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تبلیغ بھی ہو جائے۔ نیز ان حدیثوں کی جمع و تدوین سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض ان مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکا نہ کھا جائیں، جنھیں علم حدیث سے لگائو نہیں ہے، جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ۔ یہ حضرات اگرچہ فن تاریخ میں معتمد و مستند ہیں، لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا اعتبار نہیں ہے۔‘‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا سید حسین احمد مدنی کا اصل رسالہ عربی میں ہے۔ مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی نے اس کا متن بھی دیا ہے اور اردو ترجمہ بھی پیش کر دیا ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے جو روایات ذکر کی ہیں، وہ مندرجہ ذیل صحابہ کرامؓ و امہات المومنینؓ سے منقول ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ، امام علی ابن ابی طالبؑ، ام المومنین حضرت ام سلمہؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت ابو قتادہ ؓاور حضرت ثعبانؓ۔ مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی نے اپنے مقدمے میں امام مہدیؑ کے بارے میں احادیث ِپیغمبرؐ روایت کرنے والے چند مزید صحابہ کرامؓ کے اسماء بھی لکھے ہیں جو یہ ہیں: حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عمران بن حصینؓ، حضرت حذیفہ بن یمانؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت جابر بن ماجد صدفی ؓاور حضرت عوف بن مالکؓ۔

مولانا حبیب الرحمٰن نے اپنے مقدمے میں متعدد اکابر اہل سنت کے اقوال مولانا حسین احمد مدنی کے نقطۂ نظر کے اثبات کے لیے نقل کیے ہیں۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے ہم فقط علامہ محمد بن جعفر الکتانی المتوفی ۱۳۴۵ھ کے ایک قول کے ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں: مشہور فیلسوف مؤرخ علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اپنی وسعت علمی کے مطابق جملہ طرقِ احادیث کی تخریج کے استیعاب کی کوشش کی ہے اور نتیجتاً ان کے نزدیک کوئی حدیث علت سے خالی نہیں ہے، لیکن محدثین نے علامہ ابن خلدون کے اس خیال کو رد کر دیا ہے، کیونکہ امام مہدیؑ کے بارے میں وارد احادیث اپنے راویوں کے مختلف ہونے کے باوجود بہت زیادہ ہیں، جو حدِّ تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ جنھیں امام احمد بن حنبل، امام ابو دائود، امام ابن ماجہ، امام حاکم، امام طبرانی، امام ابو یعلی موصلی امام بزار وغیرہ نے دو اوینِ اسلام یعنی سنن، معاجم، مسانید میں روایت کی ہیں اور ان احادیث کو صحابہؓ کی ایک جماعت کی جانب سے منسوب کیا ہے۔ لہٰذا ان امور کے ہوتے ہوئے ان کا انکار کسی طرح مناسب و درست نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذکورہ بالا مصادر حدیث ہی سے مولانا حسین احمد مدنی نے صحیح احادیث نقل کی ہیں، ان سے امام مہدیؑ کے نسب، قربِ قیامت میں ان کا ظہور، ان کا دورِ حکومت، ان کے ظہور کے بعد پیش آنے والے اہم واقعات، نزول مسیح ؑاور دیگر اہم امور پر روشنی پڑتی ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے بنیادی علامات اور پیش گوئیاں اہل سنت اور اہل تشیع میں مشترک ہیں۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ بھی امت اسلامیہ کی مشترکہ میراث ہے اور یہ ان امور میں سے ہے، جو امت میں وحدت اور اتحاد کا باعث ہیں۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ عوام الناس کو حقائق سے آگاہ کیا جاتا رہے، تاکہ وہ نئے نئے فتنوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ امت کے روشن مستقبل اور آخرکار حق کے غلبے کا عقیدہ ہے، جو مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ تمام پسے ہوئے لوگوں کے دل میں امید کا چراغ روشن رکھ سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply