رویتِ ہلال پر کمیٹیوں کا اختیاراور تقسیم کا واویلا

ایک علاقے کے لوگوں کے رویتِ ہلال کی شرعی شہادتوں کی بنیاد پر رمضان و عید کرنے میں بنیادی طور پر تو کوئی شرعی قباحت نہیں۔ لیکن آج کل مسئلہ اقوام وممالک اور نظمِ اجتماعی کی رعایت کا ہے، جو اپنی جگہ شرعاََ مطلوب امر ہے۔ پہلی صورت قدیم مزاج کے مطابق ہے، اور دوسری جدید کے۔ہماری اصل مصیبت یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہمیں رمضان و عید کو قدیم فطری سادگی کے مطابق منانا ہے، یا جدید صورت کے مطابق۔ قدیم صورت کی رو سے تو ایک علاقے کے لوگوں کو اپنی رویت کے مطابق فیصلے کا اختیار ہے، لیکن جدید صورت کی مطابق ایک مملکت کی سرحدوں میں ، ایک نظم ِاجتماعی کے تحت پورے ملک میں رمضان وعید اکٹھے ہونے چاہیں۔ اگر پہلی صورت کی گنجایش رکھیں گے تو دوسری کبھی ظہور پذیر نہیں ہو سکتی۔ ہم دونوں کا ملغوبہ چلا رہے ہیں اور فضول میں یہ واویلا بھی مچاتے رہتے ہیں کہ مولویوں نے قوم کو رمضان وعید میں تقسیم کر دیا۔ اللہ کے بندو! جب رویتِ ہلال کمیٹیاں ایک سے زیادہ ہوں اور الگ الگ رویتِ ہلال کے اعلان کا اختیار بھی رکھتی ہوں، تو ان کے اپنا اپنا چاند چڑھا لینے میں اچنبھا کیا! جس معاشرے میں گہری فرقہ وارانہ تقسیم پائی جاتی ہو،وہاں مختلف کمیٹیوں کو فیصلوں کے نفاذ کا اختیار دیے رکھنااورپھر شور مچانا 'الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ' کا مصداق ہے۔ یا مکمل اختیار ایک ہی کمیٹی کو دیں یا واویلا چھوڑدیں۔ دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان و عید کو اگر سائنسی فلکی حسابات کے مطابق بنانا آپ کو قابلِ قبول نہیں تو بھی پورے ملک میں ایک رمضان اور ایک عید کا ہونا محال ہے۔ رویت میں تو امکان موجود رہے گا کہ کچھ لوگوں کو چاند نظر آیا ، دوسروں کو نظر نہ آئے تو وہ کیا کریں! جب معاملہ سائنسی طور پر طے ہو گا تو کسی کو نظر آنے پر بھی چاند کو چاند کہنے کی جرت نہ ہوگی۔ مختصر یہ کہ یا پیدایشِ قمر کی سائنسی شہادت پر اعتبار کریں یاکم ازکم ایک ہی کمیٹی کو اختیار دیں کہ اس کا فیصلہ حکومتی رٹ کی طرح نافذ ہو، ورنہ یہ کھچ کھچ اور تماشاچلتا رہے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply