فطرت اور اخلاقیات

“الشریعہ” میں کچھ عرصہ قبل راقم کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا تھا، اس میں دیگر نکات کے ساتھ ساتھ ایک نکتہ “فطرت اور اخلاقیات” کے حوالے سے بھی تھا۔ جناب زاہد صدیق مغل صاحب آج کل اس نکتے پر گفتگو فرما رہے ہیں ۔میں نے متعلقہ مختصر گفتگو کوان کی ایک متعلقہ پوسٹ پر بھی لگایا ہے،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مضمون کی اس بحث کو یہاں بھی پیش کر دیا جائے۔ہمارے ممدوح سکالریہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ فطرت بھی اخلاق کا ماخذ نہیں بن سکتی۔دلیل وہی تاریخ والی دلیل جیسی ہے کہ یہ متعین ہی نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی فطرت کیا ہے؟مختلف ادوار اور حالات سے گزرنے والے انسانوں کی فطرت مختلف ہوتی اور مختلف نتائج دیتی ہے،لیکن یہ نظریہ بھی مذہب واخلاق کی کسوٹی پر پرکھنے سے باطل قرار پاتا ہے۔اولاً اس لیے کہ قرآن میں فطرت کے خیر و شر معلوم کرنے کا پیمانہ ہونے کے واضح شواہد ہیں۔ ارشاد ہے “فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ “،”پس اپنا رخ پورے طور پر دینِ حنیف کی طرف رکھیے۔خدا کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پید کیا۔اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ،یہی صحیح دین ہے”۔ایک اور جگہ فرمایا:”وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۽فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا “،”اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کی تکمیل کی۔پھر اسے اس کی نیکی و بدی سمجھادی”۔حدیث میں بھی واضح طور پر کہا گیا کہ”کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الُفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہٗ یُھَوِّدَانِہ اَوْیُنَصِّرَانَہِ اَوْیُمَجِّسَانِہِ ۔”،”ہر بچہ فطرت پر پیداہوتا ہے،پھر اس کے والدین اس کو یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں”۔
ان نصوص سے اس دعوے کی واضح تردید ہو رہی ہے کہ انسان کی’ اصلی حالت‘کے تعین کا کوئی پیمانہ نہیں،اور اس حقیقت کو واشگاف کر رہے ہیں کہ انسان کی اصلی حالت کا مسئلہ محض فلا سفہ اور مغربی مفکرین کا ڈھکوسلہ نہیں بلکہ خالص مذہبی تصور ہے۔مذکورہ نصوص کی شرح میں بہت سے شارحین نے لکھا ہے کہ اگر آدمی کو اس کی اصلی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ مشرک وکافر نہیں بلکہ موحد ہو گاجبکہ ہمارے دانشور انسان کو سوسائٹی سے کاٹ کر دیکھنے کوسیکولر مفکرین کی”لامتصور شے کو متصور کرنے کی لا حاصل کوشش”سے تعبیر کرتے ہیں۔اگر ہمارے ممدوح دانش وروں کو فطرت سے اس لیےَ بیر ہے کہ مختلف ماحول کے لوگوں کی فطرتیں مختلف ہوتی ہیں اورانسان کی فطرت مسخ ہوسکتی ہے، تو ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی چیز بتائیے جو مختلف فیہ نہ ہو اور مسخ نہ ہو سکتی ہو۔مسخ کرنے پر آئیں تو سیکولر ولبرل ہی نہیں خود اہلِ مذہب اللہ کی آخری کتاب کو اس کی تعبیر وتشریح کے نام پر مسخ کر ڈالیں۔اقبال نے اس کا جگہ جگہ رونا رویا ہے۔کہیں وہ کہتے ہیں۔۔۔
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
کہیں شکوہ سنج ہیں۔۔۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اور کہیں نوحہ کناں ہیں۔۔
زمن بر صوفی وُ ملاّ سلامے
کہ پیغامِ خدا گفتند مارا
ولے تاویلِ شاں درحیرت انداخت
خداو جبرائیل ومصطفی را
پھر قرآن نے باربارتاکید کی کہ معروف کو اختیار کرو اور منکر سے بچو۔نیز اس نے انبیا کو حکم دیا اور داعیانِ حق کا فریضہ ٹھہرایاکہ وہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں ۔یہ معروف ومنکر کیا ہے؟کوئی بھی معتبرلغت اور شرحِ الفاظِ ربانی اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو نظر آئے گا کہ معروف سے قرآن کی مراد جانی بوجھی ہوئی اچھائی ہے۔یعنی معروف وہ ہے جس کو فطرت اچھا قرار دے ۔اسی طرح منکر جانی بوجھی ہوئی برائی ہے،جسے فطرت براٹھہراتی ہے۔مزید برآں قرآن نے متعدد جگہ مختلف قانونی امور کو عرف کے مطابق طے کرنے کا حکم دیا ہے،جس سے مراد متعلقہ مہذب معاشرے کے شرفا کا دستور ہوتا ہے۔ یہ دستو ر بھلائی کی فطری قوتِ تمیز ہی سے ترکیب پاتا ہے۔ اگر فطرت برائی بھلائی میں تمیز کی اہل نہ ہوتی تو قرآن اس کی بنیاد پر وجود پذیر ہونے والے دستور پر اعتماد نہ کرتا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply