سیدابوالاعلٰی مودودی رح مستشرقین کی نظر میں۔۔۔فرمان اسلم

سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔

اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پذیرائی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پذیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کے  پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہےذیل  نہایت اختصار کے ساتھ مستشرقین کی نظر میں ابوالاعلی مودودی کے سیاسی نظریات  کو بیان کیا گیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

1:Marshal G.s Hodson
مارشل جی۔ایس ہاجسن کی کتاب The venture of islam : Gunpowder empires in the modern times ‘3 شکاگو یونیورسٹی نے 1974ء میں شائع کی ۔جس میں ہاجسن نے ‘ سید ابواعلی’ مودودی اور جماعت اسلامی کا آغاز یوں کیاہے ” جدید دور میں شریعت کے اطلاق کا نظریہ انتہائی ترقی یافتہ شکل میں جس نے پیش کیا ‘ وہ ہندوستان اور پاکستان کی جماعت اسلامی کی تحریک ہے ‘ جس کی قیادت سید ابوالاعلی’ مودودی کررہے تھے ” ہاجسن نے نفاذ شریعت کے  ذریعے حقیقی جمہوریت اور حقیقی اجتماعیت کے نفاذ کے امکانات اور قومیتوں کے بت کو توڑ کر حقیقی اسلامی اتحاد کے تصورات کو پیش کرنے میں مولانا مودودی کی تحریر اور تحریک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور بتایا کہ مغربی دنیا نے قومیت کے تصور پر مبنی جو ریاست کا تصور دیا اس کا جواب یہ ملا کہ نفاذ شریعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست کو ایک قانونی ادارے کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اور یہ تصور پروان چڑھا کہ  شریعت کے معنی’ صرف یہ نہیں ہونگے کہ تاریخی طور پر آزادانہ حیثیت سے ‘ (ماضی کی طرح) جو ادارہ چیدہ چیدہ شرعی فیصلے دیتا ہے وہی ایک مسلم حکمران پر لاگو ہونگے ‘ بلکہ یہ بھی کہ ( اس طرح کی قومیت پر مبنی جو ریاست وجود میں آئے گی ) اس کا دستور بھی اسلامی شریعت پر مبنی ہوگا اور ایک قانونی ادارے کی حیثیت سے مزید ترقی دینے کیلئے بھی ہر چند کوشاں رہے گا ۔ مولانا مودوی نے جو نفاذ شریعت کا جدید تصور بیان کیا کہ ” ریاست کا پورا دستور بھی شریعت کی بنیاد پر ہو اور سارے قوانین بھی اسی بنیاد پر بنیں ۔ ہاجسن کے مطابق نفاذ شریعت کے تصور میں یہ تاریخی تبدیلی بھی مولانا مودودی اور ان کی برپا کردہ تحریک کی ہی مرہون منت ہے ۔ ہاجسن نے اپنی کتاب میں مولانا مودودی پر لگائے گئے الزامات،تحریک پاکستان کی مخالفت ‘ قیام پاکستان کے بعد کی نفاذ شریعت کے لئے مولانا  مودودی کی جدوجہد ‘ پاکستانی عدالتی نظام پر مولانا مودوی کی تنقید اور فکر مودودی سے متاثر ہونے والی اسلامی دنیا کی مختلف تحریکوں پر مفصل روشنی ڈالی ہے
2(Gilles kepal)
1991 ء میں فرانس سے گیلس کیپل کی کتاب The revenge of God : The resurgence of islam ‘ Christainity and jadaism in the modern world ‘ شائع ہوئی  جس نے مغربی دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ اس کتاب میں گیلس نے اگرچہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا ذکر بہت مختصر کیا ہے لیکن فکرمودودی نے جب اخوان المسلمون کے قائد سید قطب کے روپ میں جنگ عظیم دوم کے بعد احیائی جنم لیا لیکن فکر مودودی نے اخوان المسلمون کے رہنماوں اور کارکنوں کو اس شدت سے متاثر کیا کہ اب جدید مستشرقین سید قطب کی فکر کو فکر مودودی کا ہی عکس قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ کیپل کا ماننا ہے کہ پاکستان میں فکر مودودی ء طلبہ ‘ مزدوروں اور اردو صحافت و ادب کی دنیا میں مارکسزم کو شکست سے دوچار کیا ہے اور ان تحریکوں نے اسلامی دنیا کو مارکسزم کا نعم البدل فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔اس کے علاوہ کیپل نے  اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے وسط میں شروع اسلامی تحریکوں پر روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کردکھایا کہ اسلام ایک فرسودہ مذہب نہیں ‘ بلکہ لادینی نظام ‘ خوف خدا اور فکر آخرت کی بنیاد پر تشکیل نو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ سب وہ تعلیمات ہیں جن سے اسلامی دنیا کومولانا  مودودی نے روشناس کروایا اور اسی کے اثرات سارے عالم اسلام میں بھی رونما ہوئے
3: Doctor Ceasar Farah
1967 ء میں ڈاکٹر سیزر فراح کی کتاب Islam امریکہ کی مینی سوٹا یونیورسٹی سے شائع ہوئی ۔ جس میں فکر مودودی کے مختلف پہلووں پر تبصرہ کیا گیا اور مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ۔ دو انتہائی فعال اور متحرک تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر  فراح کے خیال میں ” جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت دو بڑی منظم جماعتیں ہیں ان میں سے ایک (یعنی جماعت اسلامی ) مسلمانوں کی مختلف کمیونٹی سرگرمیوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور تبلیغی جماعت مسلمانوں میں عبادات کا   ذوق  و شوق بڑھانے کے لئے ان کی روحانی اصلاح کے لئے کوشاں ہیں ڈاکٹر فرح کے مطابق پاکستان میں اسلام کی بات منظم اور موثر طریقے سے چلنی  شروع ہوئی تو صرف مولانا مودودی کی وجہ سے ۔ورنہ اس کے حکمرانوں کو تو فقط ایک علیحدہ ریاست سے دلچسپی تھی جو ہندو اکثریت سے الگ ہو ۔فراح نے اس بات کی نشاندہی بھی کہ پاکستان میں اسلامی بنیادوں پر ریاست کی تشکیل کی آواز اگر کسی نے اٹھائی ہے تو وہ مولانا مودوی اور ان کی  جماعت اسلامی ہے ۔
4:  Jhon L. Esposito
پروفیسر جون کی کتاب unholy war : terror in the name  of Islam2  راقم نے اس مضمون سے ابتدا کی کہ 11ستمبر 2001 کے واقعات کے ڈانڈے مولانا مودودی اور حسن البنا شہید سے ملائے ہیں اس کے خیال میں اسلامی انقلاب ‘ اسلامی تحریک ‘ جاہلیّت جدیدہ کے تصورات جدید دنیا کے سامنےپیش کرنے والے یہی دونوں اسلامی مصلحین ہیں اور دوسرے مسشترقین کی طرح جون کا بھی یہی ماننا ہے کہ ابوالاعلٰی مودودی کا پلڑا بحیثیت مفکر ‘ حسن البنّا پر بھاری ہے ۔اور جون کا یہ بھی ماننا ہے کہ  سید قطب ‘ حسن البنا اور سید ابوالاعلٰی مودودی نے اسلام’ اسلامی انقلاب ‘ جہاد اور جدید مغربی سوسائٹی کے بارے میں جو افکار و نظریات پیش کئے ہیں وہ مقبول عام اور ہر قسم کی اسلامی تحریکوں کی قیادت ان سے بے انتہا متاثر ہوئی ہے ۔ جدید دور کے حالات و تضاضوں کی تکمیل اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے حل کے لئے انہوں نے اسلام کو ایک مکمل اور جامع نظام حیات اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا ہے ان لوگوں نے اسلامی عقائد کی جو ایک نئی تعبیر کی ہے وہ اس قدر عام اور مقبول ہوچکی ہے کہ ساری دنیا مِیں جہاں بھی مسلمان ہیں ان کے دل و دماغ میں یہ تصورات غیرارادی طور پر راسخ ہوچکے ہیں ۔یہاں تک کہ  جولوگ اپنے آپ کو ہر قسم کی اسلامی تحریکوں سے دور رکھتے ہیں ان کا تصور اسلام بھی غیر ارادی طور پر وہی بن چکا ہے جو ان تین مفکرین نے پیش کیا ۔ تفصیل کےلئے دیکھئے ترجمان القرآن حصہ دوم۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply