یہودی پروپیگنڈے نے ہٹلر کوبہت بدنام کیا ہے،مگر ہٹلر نے اپنی آخری وصیت میں یہودیوں کے متعلق جو بات کہی تھی وہ نہایت بصیرت افروز ہے،وہ بات کل بھی حقیقت تھی اورآج کے مشاہدات اوریہودی ریاست کی درندگی،سفاکی اورحیوانگی کودیکھ کر حقیقت کاروپ دھارے ہوئے ہے۔ ہٹلر نے کہاتھا۔۔
”اگردنیانے تیسری جنگ کاسامناکیا تومیں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس تباہی کے پیچھے یہودیوں کاہاتھ ہوگا۔ آج مجھے دنیایہودیوں کاقاتل سمجھتی ہے،کل یہی دنیا مجھے اس بات پرخراج تحسین پیش کرے گی کہ میں نے امن عالم کے سب سے بڑے دشمنوں کوسمجھنے میں غلطی نہیں کی۔ (بحوالہ بین الاقوامی تعلقات)۔
دنیامیں جہاں بھی شروفساد،خون خرابہ اورجنگ وجدل کابازارگرم ہے،اس کے پیچھے بالواسطہ یابلاواسطہ یہودیوں کاخفیہ ہاتھ ضرورکام کررہاہے۔ فسادفی الارض اور دہشت گردی توان کی فطرت میں داخل ہے۔ جس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انیسویں صدی اوربیسویں صدی میں ان کے جرائم اس قدر ہیں کہ ان کاشمار کرناامرمحال ہے۔فلسطین کی تقسیم اوراسرائیل کاقیام دنیاکی تاریخ کاایک انتہائی مکروہ اورافسوس ناک باب ہے۔ امریکہ اوریورپ کے یہودیوں کو،جوہرلحاظ سے اجنبی تھے،ہزاروں میل دور سے لاکرعربوں کی سرزمین پرآبادکیاگیا اوران لاکھوں عربوں کوجو صدیوں سے فلسطین میں آبادتھے، ان کے آبائی گھروں اور زمینوں سے بے دخل کردیاگیا۔ اسرائیل نے اپنے ناجائز وجود کوقائم رکھنے کے لئے عربوں کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھیں اورہنوز اس کی حیوانگی کامشاہدہ عالم انسانیت کررہاہے۔
ماضی میں فلسطین کے حدود چونکہ صحرائے شام تک وسیع تھیں، اس لئے یہودی شرپسند اس تمام علاقے کواسرائیل میں شامل کرنے کاعزم کیے ہوئے تھے۔ مصر کاجزیرہ نمائے سینابھی ان کامطمع نظررہاہے کیونکہ حضرت موسی ؑ کاوہاں سے گہرا تعلق تھا۔ اسرائیل اپنے شرپسند عزائم کواپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پرجلّی حروف میں رقم کیے ہوئے ہیں:
”اے اسرائیل!تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں“
1984ءمیں جب اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تواس کارقبہ صرف پانچ ہزار تین سو مربع میل تھا اور اس کی حدود میں پانچ لاکھ یہودی اورپانچ لاکھ چھ ہزارعرب آباد تھے۔ اب یہ رقبہ ساڑھے33ہزار مربع میل سے بھی تجاوز کرچکاہے، اورہرآن”ھل من مزید“ کانعرہ لگاکر ان جارحانہ عزائم کویکے بعد دیگرے پوراکرتاچلاجارہاہے۔ غازہ (GAZA) کے نہتے اوربے بس عوام پراسرائیل کی موجودہ ریاستی سفّاکیت اوردرندگی ان عزائم کوعملی جامہ پہنانے کاایک مکروہ طریقہ ہے اوریہ کوئی اچانک برپا ہونے والا معاملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل تدبّر اورفکرکارفرماں ہے۔
افسوس ہے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی بے بصری پر۔ عروج وزوال کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں ہے، جس قوم نے اصولوں پرچلنا سیکھاوہ ترقی سے ہمکنار ہوئی اورجس نے اصولوں سے انحراف کیا وہ تنزل کاشکار ہوئی۔ فکری وحدت قوموں اورجماعتوں کی زندگی میں مرکزی اورکلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے،قوموں کے عروج وزوال اور ترقی وتنزلی کاراز اسی میں پنہاں ہے۔ جب بھی کسی قوم نے سیاسی،ثقافتی،اجتماعی،اقتصادی اورعسکری میدانوں میں ترقی کی ہے توان کادارومدار اس قوم کی وحدتِ فکر اور تضامن افکارپرہی رہاہے۔ مسلمان جب تک وحدت فکر کے حامل اورداعی رہے ترقی ان کے قدم چومتی رہی اورجب ان کے اندر علاقائیت، قومیت، نسلی غروراورمسلکی منافرت کے جراثیم پیداہونے لگے توان کی ترقی میں یکایک زوال شروع ہوا اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے دوسری قومیں ان پر چڑھ دوڑیں، ہرجگہ ان کواپنالقمہ تربنانے لگیں۔ ان کے اختلاف وانتشار سے فائدہ اٹھاکر ان کے مفتوحہ علاقوں پرقبضے شروع کردیے ہیں۔ مسلمانوں کے عقائد پرشب خون مارناشروع کیااورانہیں باہم دست وگریباں کرکے چھوڑا۔
مسلمانوں کی حالت زارپر آنسوبہانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ضرورت ہیں تواتحادکی،تضامن افکارکی اوربلندہمتی کی۔ تب وہ دورضرورآئے گا کہ عالم اسلام کے کسی نہ کسی خطہ سے ضرور کوئی محمد بن قاسم ؒ، صلاح الدین ایوبیؒ،یوسف بن تاشقینؒ اورمحمود غزنویؒ اٹھے گا جوصلیب کے فرزندوں،استعماری حیلوں اورشرپسند اسرائیلوں کوکیفرکردارتک پہنچائے گا۔
مرگِ فرداز خشکی رودِحیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات (اقبالؔ)
دنیائے یہود اوردنیائے صلیب کی تمام تنظیمیں،پروگرام،نظریات اوربین الاقوامی ادارے پندرہ صدیوں سے صرف اسلام کومٹانے کے لئے وجودمیں آتے رہے ہیں لیکن اللہ رب العالمین کاوعدہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ۔۔
”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کواپنے سے منہ بجھادیں اوراللہ اپنے نورکوکمال تک پہنچانے والاہے،گوکافروں کوکتناہی ناگوارہو“۔(سورۃ الصّف:۸)
دیکھنا یہ ہے کہ عالم اسلام آنے والے ممکنہ عظیم طوفان کامقابلہ کیوں کرسکتے ہیں ۔
دنیا کوہے پھرمعرکہء روح وبدن پیش
تہذیب نے پھراپنے درندوں کوپکارا
اللہ کوپامردیء مومن پہ بھروسہ
ابلیس کویورپ کی مشینوں کاسہارا(اقبالؔ)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں