باس اِز آل ویز رائٹ۔۔ذیشان محمود

چند دن قبل افسر صاحب نے ترغیب سے زیادہ ترہیب دلائی کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ
Boss is always right.
خاکسار نے ازراہ تفنن کہا کہ اس پر کالم نہ ہو جائے تو فرمایا کہ ضرور لکھیں۔ تو اسی کہاوت کے تناظر میں کچھ لکھ ڈالتے ہیں۔
اس کہاوت کو ہم نے عملی زندگی میں آنے کے بعد روز ہی مشاہدہ کیا ہے۔اور خلاصہ یہ کیا کہ باس صبح کو شام کہے تو وہ شام ہی ہے ۔ اس تحریر کو شگفتہ لکھنے کا ارادہ کیا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ سچ کی طرح کہیں کڑوی نہ ہو جائے۔ قارئین کو اپنے پر بیتے واقعات سے مطابقت محسوس ہو لیکن واللہ یہ میری یا کسی کی ذاتی زندگی پر ہرگز مبنی نہیں۔

باس کی تعریف:
باس کی تو ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن صرف اس کے سامنے۔ شاذ و نادر ہی ایسے باس ہوتے ہوں گے جن کی عدم موجودگی میں ان کی تعریف کی جاتی ہو۔ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ بالعموم تو کیا اکثر ہی اس تعریف کا مطلب خوشامد ہوتا ہے۔ آپ کے ہم مکتبوں میں کئی ایسے افراد موجود ہو سکتے ہیں جو باس کو چپڑی باتوں سے آئینہ میں اتار سکتے ہیں۔

باس کی اقسام:
باس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جیسے حیاتیات کے مضمون میں کسی چیز کی اقسام پڑھائی جاتی ہیں پھر ہر قسم کی مزید اقسام اور پھر اقسام در اقسام نکلتی رہتی ہیں، ویسے ہی یہ باس کی بھی اقسام در اقسام ہوتی ہیں۔ ویسے باس کی تین بڑی اقسام ہیں:
ایک تو عرف عام میں جنہیں باس کہا جاتا ہے جو حقیقی افسر ہوں۔
دوسرے وہ باس جو افسر کے بعد باس ہوتے ہیں۔ ہوتے تو وہ دوسرے درجہ کے باس ہیں جنہیں عرف عام میں HODیعنی افسر صیغہ کہہ دیا جاتا ہے۔
تیسری قسم کے وہ باس ہیں جو افسر نہیں ہوتے لیکن اپنی استعدادوں سے وہ باس کے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ گویا اسے کامل طور پر آئینہ میں اتار لیا ہوتا ہے۔اور ان سے پنگا لینا گویا شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنا ہوتا ہے۔

تفصیلی مشاہدہ:
پہلی قسم یعنی حقیقی باس کی چند مزید اقسام ہیں۔ ایک تو وہ باس ہیں جن سے پورا عملہ خوش ہوتا ہے ایسے باس کا دل سمندر کی طرح وسیع ہوتا ہے، ذرا ذرا سی بات پر خوش ہو کر اپنے ورکرز کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ مزید کام بھی لینا ہے۔ یہ از خود آپ کی تعریف کرتے ہیں۔ پورے عملے کے سامنے ہر کسی کی کوئی نہ کوئی خوبی بیان کرتے ہیں۔ اگر زیادہ ہی خوش ہوں تو انعام ، تحفہ، بونس یا تنخواہ میں بڑھوتی دے دی جاتی ہے۔

باس کے کمرے کے باہر بیٹھے یہ ہرکارے وہ آستین کے سانپ ہوتے ہیں جو باس کو الگ اور عوام کو الگ الگ چونا لگا کر اپنا سکہ جمائے رکھتے ہیں۔ ان پر ہاتھی کے دانت کی مثال خوب صادق آتی ہے جو کھانے اور دکھانے کے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ افسر سے زیادہ چپڑاسی سے بنا کے رکھنی چاہیے۔جیسے بعض جانور بھی انسان نما بن جاتے ہیں گو وہ جانور ہی رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں کوئی کسی بندر کو کوٹ پتلون پہنا کر جنٹلمین کہتا ہے کوئی کتے، بلی یا طوطے سے ایسے کام کرواتے ہیں۔ لیکن وہ جانور ہی رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ تیسری قسم ہے جو کوّے کی طرح ہنس کی چال چلنا چاہتے ہیں۔ بظاہر جنٹلمین بنے یہ اندر سے مقصود چپڑاسی ہی ہوتے ہیں۔

ان کے بالمقابل اسی نسلی قسم کے باسز میں ہی ایسے خرانٹ باس بھی پائے جاتے ہیں جو نہایت خر دماغ، انتہائی چڑچڑے اور کنجوس ہوتے ہیں ۔ انہیں ہر کام میں کمی اور کیڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں دفتر کا نظام وہ اکیلے چلا تے ہیں ۔ انہیں باقی سارے کام چور اور ہڈ حرام نظر آتے ہیں۔ جب تک وہ روزانہ کسی پر اپنی بھڑاس نہ نکال لیں انہیں چین نہیں آتا۔ یہ کان کے انتہائی کچے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کی بات سن کر رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اور بمشکل ایسی رائے تبدیل ہوتی ہے۔

پھر اسی پہلی قسم کی ایک اور اہم کیٹیگری ایسے باس کی ہے جو دفتر میں نظر نہیں آتے۔ ان سے کسی روز ملنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن دفتر میں ان کے خاص کارندے ان کی آنکھیں اور کان بن کر پل پل کی خبر انہیں پہنچاتے ہیں۔ جیسے استاد کی غیر موجودگی میں کلاس پریفیکٹ ساری کارروائی نوٹ کرتا ہے۔پھر استاد کے آتے ہی سارا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیتا ہے۔ سوائے اپنے دوستوں کے، تو ایسے باس کامیابی سے اپنا دفتر چلاتے ہیں کیوں کہ ان کا سارا کام خاص آدمی کر دیتے ہیں۔ ایسے باسز کا خاص جملہ یہ بھی ہوتا ہے کہ “مجھے سب معلوم ہے۔”

پھر پہلی قسم کی ایک کیٹگری پرانے خیالات کے مالک افسر کی ہوتی ہیں۔ جو 80 کی دہائی کے اصول پر کمپیوٹر کے زمانہ کو چلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ کام کرنے والوں کو ایک بار کہہ دیا دوبارہ انہیں کام مکمل چاہیے ہوتا ہے۔ ایسے دفاتر میں ایسے بوڑھے لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں جو صبح گھر سے ناشتہ اور لڑائی کر کے نکلتے ہیں اور سارا دن دوسروں سے الجھتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے رجسٹر کھول کر جگالی کرتے ہیں اور اپنا کام کسی کو نہیں سکھاتے، مبادا کوئی جگہ نہ لے لے۔ ایسے لوگ باس کے محبوب اس لئے ہوتے ہیں کہ انہیں رجسٹروں کی ہر انٹری بمعہ تفصیل ازبر ہوتی ہے۔ کمپیوٹر کی انٹری غلط بتا سکتی ہے لیکن یہ بابے غلطی کی گنجائش کم ہی چھوڑتےہیں۔ اسی لئے ایسے دفتر ابھی تک پچھلی صدی کے مینوئل نظام پر چل رہے ہیں اور کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوئے۔

باس کی ایک کیٹیگری ایسی ہوتی ہے کہ سب اسے بآسانی چونا لگا لیتے ہیں۔ ایسے آفس کا عملہ خوب فائدہ اٹھاتا ہے ۔ ایک جریدے کے دفتر میں باس سے اخبار کی بہتری کی بات ہوتی رہتی تھی۔ ایک کام کے سلسلہ میں باس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا، ہماری تجربہ کار ٹیم نے اس پر کافی کام کیا ہے وہ کہتے ہیں اس سے آگے ممکن نہیں۔ اگلے روز جب وہ کام بآسانی پیش کر دیا تو ٹیم ہمارے ہی مخالف ہو گئی کہ ہم نےاتنے عرصہ سے بمشکل چونا لگاکے رکھا تھا ۔

پھر پہلی قسم کی کئی اخلاقی و معاشرتی اقسام ہیں۔ جن کی ہ تفصیل اس مختصر مضمون میں بیان کرنا دشوار  ہے۔ مثلاً دل پھینک، عاشق مزاج، پیٹو، رشوت خور، ڈرپوک وغیرہ
پیٹو باس کی مثال بالکل اس شوہر کی سی ہے جس کی بیوی کی ماں پہلے ہی سمجھا دیتی ہے کہ شوہر کی رضا کا رستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ایسے باس کے عملہ بھی خوش رہتا ہے اور کھانے کی میز پر اپنے کام نکلوا لیتاہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ ان کے باس نے پورے دفتر کی باری رکھی ہوئی ہے۔ ایک ماہ میں وہ قریباً سارے عملے کے گھروں کا چکر لگا لیتے ہیں۔

باس کی دوسری قسم کی طرف آتے ہیں۔ دوسرے درجہ کے لفظ کو آپ    پرلے درجہ کے غیرت مند بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ قِسم ویسے تو باس در باس ہوتی ہے لیکن اس کو راضی رکھنا نئی نویلی دلہن کی ساس کی طرح نہایت مشکل ہوتا ہے۔ باس کے نام پر یا باس کو شکایت کی دھمکی دے کر کام کرانا ان کا اصول ہوتا ہے۔ ان کی مثال کسی بھی HOD ، ہاسٹل سپرٹینڈنٹ ، منیجر ، آفیسر یا ٹیچر کی سی ہے جو اوپر معاملہ بھجوانے میں ذرا دیر نہیں کرتا۔ہمیں یاد ہے ہمارے سپرٹینڈنٹ ہاسٹل پرنسپل کے نام پر کیا کیا دھمکی لگا جاتے تھے۔ اور ہمارا ڈیڑھ دہائی بعد بھی گمانِ غالب ہے کہ پرنسپل کے وہم و گمان میں بھی ایسی باتیں نہیں آتی ہوں گی۔ یہاں وہ کامیاب رہتا ہے جو اس سے بنا کے رکھے ورنہ یہ باس خود ہی ٹانگ کھینچنے کا ماہر ہوتا ہے۔ باس کی یہ نچلی قسم اکثر سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال لیتی  ہے۔ اسی سبب اس عہدہ پر براجمان لوگ کامیاب رہتے ہیں کیونکہ وہ کسی کی قابلیت سے اصل باس کو متعارف ہی نہیں کرواتے۔اگر کوئی آواز بلند کرے تو دفتر سے نکالے جانے کا سندیسہ ملتا ہے۔ ان کی گفتگو میں ”میں نے کیا“ کا استعمال بلا ارادہ ہوتا رہتا ہے۔

باس کی پہلی دو اقسام اتنی خطرناک نہیں ہوتیں  جتنی تیسری قسم۔ یہ قسم ہوتی تو عام ملازم ہے لیکن باس کی قربت کے سبب اپنی ظاہری استعدادوں میں باس کے بھی باس بن جاتے ہیں۔ دوسری قسم کی طرح یہ سب اچھا اپنے کھاتے اور غلط دوسروں کے کھاتے ڈال لیا کرتے ہیں۔ یہی باس کی آنکھیں ، کان اور دماغ بھی ہوتے ہیں۔ اندھے اعتماد، اعتبار اور آئینہ میں اتارنا خوب آتا ہے۔

ہمیں بھی ایک دفتر میں ایسی مخلوق سے پالا پڑا تھا۔ ایک بار ایک پراجیکٹ پر اسی طرح کے ہرکارے نے ہمارے ایک دوست کی محنت کا سارا کریڈٹ لے لیا ۔ اس وقت تو انہوں نے کڑوا گھونٹ پی لیا لیکن اسے مزا چکھانے کی ٹھانی۔ انہوں نے اگلے پراجیکٹ کا پرنٹ دے کر سافٹ فائل غائب کر دی۔ حسبِ  عادت سارا کریڈٹ لئے جب یہ صاحب باہر آگئے۔ اور اس پراجیکٹ پر ملکیت کے دعویدار بن کر جب سافٹ فائل کی تلاش شروع کی تو باس نے جو چند ترامیم کروائیں وہ کرنے کے لئے اصل فائل نہ پا کر نہایت پریشان ہوئے۔ ہم سب بھی انجان بنے رہے اور بالآخر سارا کام خودہی دوبارہ کرنا پڑا ۔

باس کے کمرے کے باہر بیٹھے یہ ہرکارے وہ آستین کے سانپ ہوتے ہیں جو باس کو الگ اور عوام کو الگ الگ چونا لگا کر اپنا سکہ جمائے رکھتے ہیں۔ ان پر ہاتھی کے دانت کی مثال خوب صادق آتی ہے جو کھانے اور دکھانے کے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ افسر سے زیادہ چپڑاسی سے بنا کے رکھنی چاہیے۔جیسے بعض جانور بھی انسان نما بن جاتے ہیں گو وہ جانور ہی رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں کوئی کسی بندر کو کوٹ پتلون پہنا کر جنٹلمین کہتا ہے کوئی کتے، بلی یا طوطے سے ایسے کام کرواتے ہیں۔ لیکن وہ جانور ہی رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ تیسری قسم ہے جو کوّے کی طرح ہنس کی چال چلنا چاہتے ہیں۔ بظاہر جنٹلمین بنے یہ اندر سے مقصود چپڑاسی ہی ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو جناب آخر میں ترہیب کے معنی ہی سن لیں ۔ ترہیب کہتے ہیں ڈرانے ا ور خوف زدہ کرنے کو۔ سو آپ ڈر کر رہیں کیونکہ آپ صحیح ہوں یا غلط باس ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply