“وہ” فاحشہ یا “میں” منافق؟

منٹو نے بڑا خوبصورت جملہ کہا تھا کہ “میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے بہتر کوئی نہی جانتا”۔ تم گناہ چھپ کر کرو، رب العالمینٰ ان پر پردہ ڈالے رکھے تو تم متقی اور سامنے کھڑی ہر ڈھکی کھلی چیز “فاحشہ”۔ وہ لڑکی فاحشہ جسکا سر کھلا ہے وہ لڑکا بدکار جو پتلون پہنے نکلا ہے۔
مجھے تہجد گذار کی تہجد میں کوئی دلچسپی نہیں، مجھے ایک “فاحشہ” اور ایک “بدکار” کی نماز زیادہ محبوب ہے۔ یا اسکی آنکھوں کی وہ نمی جو کبھی نبیﷺ کا نام سن کر اسکی آنکھوں کے حلقوں میں ڈیرے ڈال لیتی ہو۔ کیونکہ وہ نیکی اس احساس سے کرتا ہے کہ اس سے بڑھ کر گناہ گار شائد ہی دنیا میں کوئی رہا ہو۔ وہ باز رہتا ہے کہ لوگوں کے لیےجنت جہنم کے فیصلے کرے۔ اقبال نے ایک شعر میں بات مکمل کردی تھی:
غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پہ زباں دراز کرے
ہماری ایک بہن سعدیہ قریشی نے قندیل بلوچ کی شخصیت پر کمنٹ کیا ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں فاحشہ تھی۔ انکا کالم نیشنل اخبار میں چھپا ہے۔ میں نے پڑھا تو میرا جگر کٹ گیا۔ جب قندیل بلوچ مرحوم کی زندگی پر بائیو پک بننے کی بات ہوئی تو ہم بھی مسکرا دئیے لیکن یہ مسکرانا اسکی شخصی برائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے تھا کہ قندیل کوئی ایسی شخصیت تو نہ تھی جس پر بائیو پک بنے لیکن شائد لکھنے والے کے پاس اسکی زندگی کے بارے میں وہ تلخ سچائیاں ہوں جو ہم نہ جانتے ہوں۔ اور وہ انہیں منتقل کرنا چاہتا ہو۔
جو بھی ہو، میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ آج میں اور آپ، ذرا بند کمرے میں بیٹھ کر گریبان میں جھانکیں کہ روز ہم کتنی برائیاں کرتے ہیں۔یا بچپن میں کسی کھلے بند کمرے میں، اپنے پرائے گھر میں، چھپ کر یا سب کے سامنے کیا ہم نے کبھی کوئی چھوٹا بڑا جرم نہیں کیا؟ اگر کیا ہے۔ تو کیا صرف پانچ وقت مسجد جانا اور برقعہ پہن کر بازار میں نکلنا ہمیں اتنا پرہیز گار بنا دیتا ہے کہ ہم قندیل کو فاحشہ کہیں؟
میں نہیں کہہ سکتا، ہرگز نہیں کہہ سکتا، کیونکہ میں دل سے اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ قندیل مجھ سے لاکھ بہتر مسلمان تھی اور لاکھ بہترین انسان تھی اور سب سے بڑھ کر منافق معاشرے میں منافق نہ تھی۔

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply