جوتوں میں ستارے/محمد وقاص رشید

دھوپ شدید تھی، اسکے معصوم گال پسینے سے وہ آئینہ بن گئے تھے جن میں سے مجھے اپنا قومی چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اسکی عمر دس سال رہی ہو گی۔ مجھے ہاتھ دیا، میں رک گیا۔ کہاں جانا ہے بچے۔ پھاٹک توڑی وینڑیں (پھاٹک تک جانا ہے )۔ وہ بیٹھا تو میں نے موٹر سائیکل چلا دی۔

پھاٹک آیا تو کہنے لگا۔ “فیٹکری ” توڑی گھنِ ویسو (فیکٹری تک لے جائیں گے )۔ میں نے کہا ہاں بیٹھے رہو لیکن پہلے آپ نے پھاٹک تک کہا تھا۔وہ خاموش رہا میں نے دوبارہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
تھوڑا وقت مل گیا۔ پوچھا کہاں رہتے ہو بچے۔ کہنے لگا کوٹ چاننڑاں توں ارلے پاسے (جگہ کا نام میں بھول گیا کوئی خیل تھا )۔ میں حیران ہوا کیونکہ یہ جگہ اسکندرآباد سے کوئی لگ بھگ پچیس تیس کلومیٹر ہے۔ میں نے پوچھا اتنی دور۔۔ ادھر ہی کوئی کام کیوں نہیں کرتے۔ کہنے لگا اتھاں لوکی بوٹ پالش کے نئیں کریندے (وہاں لوگ بوٹ پالش نہیں کرواتے )۔ میں نے پوچھا پڑھتے نہیں ہو ؟ کہنے لگا نہیں، چھیویں وچوں چھوڑ ڈتے (چھٹی کلاس میں چھوڑ دیا )۔ میں نے کہا کیوں ؟ کہنے لگا, ابو دا ذہن کم کے نئیں کریندا ہنڑ (ابو کا ذہن اب کام نہیں کرتا )۔ میں نے کہا کہاں ہیں وہ ؟۔ کہنے لگا , گہار ہی وتے (گھر میں ہی ہے)۔ میں نے پوچھا کتنے بہن بھائی ہو کہنے لگا ترے (تین۔ ایک بھائی اور بہن اس سے چھوٹے تھے)۔ میں نے کہا واپس کب جاؤ گے۔ کہنے لگا ڈیگر ویلے (مغرب کے وقت )۔ کھانا کھایا ہے ؟ کہنے لگا۔ نہیں کام کے نہیں ملیا (کام نہیں ملا ابھی تک )۔ میں نے کہا بچے یہاں تو سب کے سیفٹی بوٹ ہیں وہ بھی سوبر لیدر کے یہاں کون پالش کروائے گا۔ کہنے لگا ٹرکاں آلے اڈے لگا ویساں (سیمنٹ لوڈ کرنے والے ٹرکوں کے اڈے پر جاؤں گا )۔ اتنے میں فیکٹری آ گئی۔ اس سے کہا لے بیٹا۔ خدا حافظ۔
فیکٹری گیٹ میں اندر جاتے جاتے رک گیا،واپس آیا۔ گیٹ کے سامنے ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔میں اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ وہ ہر کسی کے جوتوں کی طرف دیکھتا تھا کیونکہ ملاں صاحب کے بقول جو رزق وہ ہر بچے کی طرح ساتھ لے کر آیا تھا وہ گرد کی صورت دوسروں کے جوتوں پر جما ہوا تھا۔

میں نے دیکھا کہ جوتوں پر پڑی گرد اسکی ننھی آنکھوں میں ستاروں کی طرح چمکتی۔ وہ امید بھری آنکھوں سے معصوم گالوں پر لجاجت سی لا کر ایک ہاتھ میں شاپر میں پکڑے پالش اور برش سے ایک ہلکا سا اشارہ سا کرتا اور انکار پر وہی ستارے ایک بار پھر مٹی کے ذرے بن کر جوتوں پر واپس چلے جاتے۔

چند دن پہلے ان ہاتھوں میں قلم تھا اب کاتبِ تقدیر کو ضرورت پڑی قلم لے لیا ،پالش برش تھما دیا۔ اب یہ شاپر اسکا بستہ ہے۔ بستے میں پڑی کتابوں نے صرف چھٹی جماعت تک کا سبق دیا تھا۔ پالش برش کے شاپر نے پوری زندگی کا نصاب پڑھا دیا۔

مارکیٹ میں اکثر پالش برش تھامے لڑکے ایک بار پالش کہتے ہیں اگلے ہی لمحے روٹی کھانڑیں کہتے ہیں تو ایک پیشہ ورانہ بھکاری کا سا احساس ہوتا ہے۔ اس بچے نے دو تین لوگوں میں سے کسی سے روٹی کا نہیں کہا مجھے بھی پوچھنے پر بتایا میں نے موٹر سائیکل پھر سے اسکے پیچھے لگایا اور اسے روکا، جیب میں سے پیسے نکال کر اسے دیے اور کہا سامنے ہوٹل سے جا کر پہلے روٹی کھا لو بچے۔ میرے جوتوں سے مٹی کے ذرے اڑ کر اسکی آنکھوں میں ٹمٹمانے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں اسکی عادت خراب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن بس خیال آیا کہ اس عمر کے ہی بچے گھر چھوڑ کر آیا ہوں ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ آداب عادات اخلاقیات انہیں سکھا لوں گا اسے زندگی نے جو سکھانا ہے سکھا ہی لے گی۔ اپنے بچوں کو سکول خالی پیٹ نہیں بھیجتا اسکو زندگی کی درسگاہ میں بھوکا کیسے جانے دوں۔ جا پڑھ جا کے بچے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply