• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کی مسیحی مذہبی قیادت کے نام تحریک شناخت کے بانی رضا کار اعظم معراج کا کھلا خط

پاکستان کی مسیحی مذہبی قیادت کے نام تحریک شناخت کے بانی رضا کار اعظم معراج کا کھلا خط

پاکستان کی مسیحی مذہبی قیادت کے نام ایک مودبانہ گزارش بھرا کھلا خط
قابلِ احترام چرچ لیڈز
سلام!
بے شک نوے کی دہائی میں چرچ کی لیڈرشپ ، چرچ کے زیر انتظام چلنے والی سماجی تنظیمیں جنھوں نے کرسچن آرگنائزیشن فار سوشل ایکشن ان پاکستان (سی او ایس اے پی) کے پلیٹ فارم سے اقلیتوں کے قومی ووٹ کی بحالی کی جدو جہد کی، وہ اور ان کے ساتھ جن سماجی و سیاسی شخصیات نے اس میں حصہ لیا وہ سب پاکستانی اقلیتوں کے محسن ہیں۔ انھوں نے غیر مسلم شہریوں کو معاشرتی اچھوت اور سیاسی شودر بنانے والے ضیاءلحق کے تھوپے گئے جداگانہ انتحابی نظام سے پاکستانی اقلیتوں کی جان چھڑوائی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے، کہ جب بھی ریاستی یا سیاسی اشرفیہ نے فیصلے کا سوچا اقلیتی قیادتِ نہ 1975 نہ 1985 نہ 2002میں کبھی بھی اپنی ضروریات کے مطابق کوئی مکمل عرق ریزی سے تیار کردہ دور اندیشانہ متبادل انتحابی نظام نہ پیش کرسکی۔۔ لہذا 2002میں بھی 30اگست 1972 کے مسیحی شہداء کے لہو کے عوض 1975میں بھٹو کی عجلت میں کی گئی آئینی ترمیم کے زریعے دی گئی، مذہبی شناخت پر نامزدگی کے زریعے مخصوص نشستوں والے موجودہ انتخابی نظام کو پھر اسی طرح مشرف سے بحال کروا کر مطمئن ہوگئے۔ اب پانچ بار آزمائے جانے کہ بعد اس انتحاہی نظام کی یہ خامی کھل کر سامنے آئی ہے ۔ کہ اس نظام میں مزہبی شناخت والی نمائندگی کی نامزدگی کا اختیار سیاسی اشرفیہ کے پاس ہے۔اس نظام کی بدولت عام غیر مسلم شہری، مذہبی شناخت والے نمائندوں کو اپنا نہیں بلکہ چند سیاسی شخصیات کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ جس میں وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ یہ نمائندگان شناخت تو انکی پر نامزد ہوتے ہیں۔۔ لیکن بوقت ضرورت وفاداری پارٹی لیڈر شپ سے دکھاتے ہیں۔۔قومی سیاسی جماعتوں کے اندر اس نظام کی بدولت غیر مسلم سیاسی ورکروں میں جمہوری غلامی کے کلچر کو پروان چڑھایا ہے ۔۔ جبکہ اقلیتی سیاسی پارٹیوں کے وجود بھی اس انتحاہی نظام کی بدولت تنزلی کا شکار ہو کر تقریبا ختم ہوچکے ہیں۔۔ اسکی وجہ سے عام غیر مسلم شہری سیاسی ومعاشرتی طور بے چین اور غیر مطمئن ہے ۔۔ جبکہ اس وقت جدو جہد کرنے والے کچھ اداروں نے چپ سادھ رکھی کچھ اپنی کنفیوژن کی بدولت اقلیتوں کی سیاسی انارکی کا باعثِ بن رہےہیں ۔ لہذا آج پھر ایسے متحرک لوگوں کی ضرورت ہے۔جو اقلیتوں کی اس دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ سے مشروط کروانے کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ تحریک شناخت نے پچھلے دس سال سے اس نظام کو نافذ کرنے کے ذمدارین ؤ متاثرین کی آگاہی کے لئے پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات اور اقلیتوں کی سیاسی و مذہبی ضروریات کے مطابق متبادل انتحابی نظام مکمل لالحہ عمل کے ساتھ تیار کرکے اسکے لئے منظم فکری آگاہی مہم چلا رکھی ہے ۔۔لہذا چرچ لیڈر شپ سے گزارش ہے آج پھر ضرورت ہے، کہ وہ اپنے زیرِ انتظام چلنے والی سماجی تنظیموں اور اپنے زیر تربیت پنپنے والی نجی این جی اوز اور اپنے زیر اثر مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی متحرک کریں ۔ کہ وہ اپنے ڈونرز کے لئے پاکستان کے معروضی سیاسی ومعاشرتی حالاتِ کے مطابق پروجیکٹ لکھیں اور منظورِ کروائیں ۔ اور اس اہم معاشرتی و سیاسی مسلئے کے حل میں اپنا حصہ ڈالیں۔کیونکہ جمہوری ، شفاف اور انصاف پر مبنی انتحابی نظام پاکستان کی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی و سماجی مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔ یہ قائدانہ کردار ادا کرنے سے پاکستانی معاشرے میں مسیحی سماج کو درپیش ایسے بے تحاشا مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے ۔جنکا اس وقت اس خطے میں مسیحیت کو سامنا ہے۔۔ پاکستانی معاشرے میں مذہبی اقلیتوں اور خصوصاً مسیحی سماج کو درپیش اس مسئلے کے حل کے لئے جو ادارہ یا شخصیت پہل کرے گی وہ تاریخ میں اپنا نام لکھوائے گی ۔۔۔امید ہے آپ اس مشورے کو اسی سیاق و سباق میں پڑھے اور سنے گے جس میں یہ مشورہ دیا گیا ہے ۔
تحریک شناخت کے رضا کار آپکی فکری معاونت کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں ۔
واسلام
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
منسلک
1.کتابچہ تحریک شناخت کے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا جائزہ.یہ کیوں ضروری ہے؟ آور کیسے ممکن ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply