ادب کا اومنی گروپ۔۔آغر ندیم سحر

اس وقت جب میں اپنا ہفتہ وار کالم لکھنے میں مصروف ہوں‘حلقہ اربابِ ذوق لاہور کے سالانہ الیکشن جاری ہیں اور پولنگ پاک ٹی ہاؤس میں ہو رہی ہے جو رات نو بجے تک چلے گی۔ پچھلے چند سالوں کی طرح مقابلے کا نتیجہ پہلے سے معلوم ہے اور اس کی وجہ ہر وہ شخص جانتا ہے جو حلقے سے پچھلے کئی سالوں سے کسی نہ کسی حوالے سے وابستہ ہے۔ میں ذاتی طور پر حلقے کے الیکشن میں اس وجہ سے بھی شریک ہوتا ہوں کہ اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ جیسے پاکستان کے دیگر شعبوں میں کہیں نہ کہیں ”اومنی گروپ“موجود ہوتا ہے‘حلقے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔اب وہ زمانہ کہاں جب حلقہ اربابِ ذوق نئے لکھنے والوں کی تربیت کرتا تھا بلکہ اب تو ذاتی تعلقات اور تعصبات کی بنیاد پر تخلیقات پیش کی جاتی ہیں اور اس پر تنقید بھی ذاتی تعلقات دیکھ کر کی جاتی ہے۔جہاں تک ممبر بنانے کا تعلق ہے تو یہ مرحلہ بھی کچھ ڈھکا چھپا نہیں رہا‘ممبر بنانے کے لیے خود چیزیں لکھ کر دینی پڑیں تو وہ بھی دی جاتی ہیں اور مقصد صرف اپنے ووٹر کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ایک سیکرٹری جب اپنا وقت پورا کر لیتا ہے تو وہ لازمی ایسے لوگوں کو ممبر بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اگلی دفعہ اسی کے حمایت یافتہ نمائندے کو ووٹ دیں تاکہ اگلے کئی سال سابق سیکرٹری کی اجاری داری چلتی رہے اور آپ گزشتہ کئی سالوں کے الیکشن دیکھ لیں‘ایک گروہ یا قبیلہ جب حلقے کی باگ دوڑ سنبھالتا ہے یا جو ایک دفعہ اگر مسلط کر دیا جائے تو اگلے کئی سال وہی رہتا ہے اور سیکرٹری سلیکٹڈ کہلایا جاتا ہے اور اگلے کئی سال حلقہ اسی کے زیرِ سایہ چلتا ہے کیونکہ جو بھی گروپ حلقہ پر نازل ہوتا ہے‘وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح اگلے کئی سالوں کی پلاننگ کر کے آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج صورت حال یہ ہے کہ لاہور میں حلقے کے ممبران کی تعداد تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ ہے اور الیکشن میں کاغذات جمع کروانے والے صرف دو احباب بطور سیکرٹری اور ایک جوائنٹ سیکرٹری آئے۔کیا پورے لاہور میں کوئی اور ادیب یا کوئی نیا لکھنے والا حلقے کا سیکرٹری نہیں بن سکتا؟۔اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ کئی ادیب محض اس وجہ سے حلقے کا الیکشن نہیں لڑتے کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ہماری شکست یقینی ہے کیونکہ گزشتہ مجلس ِ عاملہ نے اپنی لابی اس قدر مضبوط کر رکھی ہے کہ نئے بندے کا منتخب ہونا صرف ایک خواب لگتا ہے۔میرے سمیت ادب کا ہر سنجیدہ آدمی اس بات سے واقف ہے کہ اگر الیکشن لڑنا ہے تو فلاں فلاں فلاں سے تعلقات اچھے کر لو‘آپ کو راتوں رات ممبر بھی بنایا جائے گا‘الیکشن بھی لڑوایا جائے گا اور مزید آپ کو سپورٹ کرنے والے بھی درجنوں قدآور دانشور بھی میدان میں اتر آئیں گے۔میرے سمیت کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے کئی سال اس حلقے کو دیے‘اپنی تخلیقات پیش کیں مگر ان کو جب ممبر بنانے کا وقت آیا‘تو منہ بولے بھائی اور منہ بولے باپ سامنے آئے اورپوری پلاننگ کے ساتھ حلقے سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔(پلاننگ کس نے کی‘بعد میں سب کچھ واضح ہو گیا) حلقہ کسی کے ”باپ کی میراث“ نہیں تھا مگر افسوس چند لوگوں نے اسے اپنی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے اور اسے اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔کچھ نام نہاد دانشور تو تو حلقے میں آتے ہی منہ بولے رشتے بنانے کے لیے ہیں‘نہ جانے گھر میں وہ رشتے موجود نہیں یا کہ یہ لوگ ان کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں‘یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
حلقہ اربابِ ذوق سے میرا تعلق تقریباً تب سے ہے جب میں لاہور آیا تھا اور قائم نقوی بطور سیکرٹری کام کر رہے تھے۔اس وقت سے حلقے سے تعلق موجود ہے اور آج تک قائم ہے۔حلقے میں جاتے رہے اور ایک طویل عرصہ بحثوں میں بھی شریک ہوئے‘اپنی تخلیقات بھی پیش کیں‘تنقیدی مضامین بھی پڑھے اور سالانہ مشاعروں میں بھی شریک ہوئے مگر گزشتہ دورِ حکومت(عہدِ غلام حسین ساجد و حسین مجروح) میں حلقے سے خود بائیکاٹ کیا اور اب تک موجود ہے۔کئی دفعہ حلقے مٰں ا میں جانا ہوا اور اس کی وجہ اگر کوئی دوست بیرونِ شہر سے آتا تو ملاقات کو پہنچ جاتے۔مجھے یاد ہے کہ گزشتہ دور میں مجھے محترم حسین مجروح نے کہا بھی کہ آپ کے ساتھ جو ہوا‘اس پر شرمندہ ہیں اور ہم کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔اللہ کا شکر کہ میں نے خود یہ کہہ کر انکار کیا کہ جب تک ”ادب کا اومنی گروپ“حلقے کی جان نہیں چھوڑتا‘وہاں جانا فضول ہے۔اس دفعہ حلقے کے الیکشن میں حماد نیازی اور توقیر شریفی آمنے سامنے ہیں‘ہم سب جانتے ہیں کہ حماد نیازی بطور سیکرٹری منتخب ہوں گے اور اس کی وجہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں لیکن میں نو منتخب سیکرٹری سے یہ ضرور توقع کروں گا کہ وہ حلقے کو مخصوص لابی سے نجات دلائے گا‘نئے لوگوں کو اور نئے لکھنے والوں کو حلقے سے جوڑے اور سینئرز سے دست بستہ گزارش کرے کہ آپ نوجوانوں کی سرپرستی کریں اور ٹھیکیداری والا رویہ ختم کریں۔نئے لوگ سامنے آئیں گے تو یقینا اگلے سال الیکشن کے لیے نئے لوگ بھی سامنے آئیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو آپ یہ یقین کر لیں کہ اگلے پچاس سال بھی حلقے کو یہی لوگ لیڈ کریں گے جو پچھلے کتنے سال سے کر رہے ہیں۔محترم توقیر شریفی ایک شریف انسان ہیں‘انہیں حلقے کا الیکشن لڑنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ توقیر شریفی واقعتا ہر طرح کی ادبی سیاست سے دور رہیں۔تھوڑا کام کیا مگر بہترین کیا‘کسی کی چاپلوسی کی اور نہ کسی کو ٹانگیں کھینچ کر آگے آنے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ آج ادب کا ”اومنی گروپ“توقیر شریفی کے خلاف ہے بلکہ یہ گروپ ہر اس شخص کے خلاف ہوگاجو حلقے میں نئے لوگ لانے کی بات کرے گا۔ آج اگر لاہور میں حلقہ اربابِ ذوق دو حصوں میں تقسیم ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ دوسرا قبیلہ بھی یہی چاہتا ہے کہ خدا را حلقہ اربابِ زوق کی تاریخ تابناک ہے‘اسے زندہ و جاوید رہنے دیا جائے۔اوچھے ہتھکنڈوں اور اورچھی حرکتوں سے ادب کی اس درس گاہ کو گندا نہ کیا جائے۔مجھے یقین ہے کہ میرے اس کالم کے بعد میرے خلاف کئی ہتھکنڈے استعمال ہوں گے مگر میں اپنا مدعا بیان کر چکا کہ مجھے حماد نیازی یا توقیر شریفی کے سیکرٹری بننے سے اس لیے بھی خوشی ہوگی کہ یہ لوگ نئے ہیں مگر میرا مسئلہ اب بھی ادب کا ”اومنی گروپ“یعنی ادب کی وہ خلائی مخلوق ہے جو گھر بیٹھ کے سیکرٹری منتخب کرتی ہے۔نئے سیکرٹری اور مجلس ِ عاملہ نئے لوگوں کو حلقے سے جوڑے اور سینئرز گھروں میں بیٹھ کر لکھنے پر توجہ دیں یا نئے لکھنے والوں کی سرپرستی کریں تاکہ ان کے بعد کوئی ان کا”عزت کے ساتھ“ نام لیوا موجود ہو ورنہ جیسا چل رہا ہے‘ایسے چلنے دیا جائے اور حلقہ اربابِ ذوق کو ہر سال نئے لوگوں کو ٹھیکے پر دے دیا جائے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply