نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے۔۔۔ژاں سارتر

گزشتہ برس پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جب سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی پیشی تھی تو ن۔ لیگ اور شریف خاندان نے اس موقع کو مریم نواز کی کیرئیر لانچنگ کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ جے آئی ٹی کے سوالوں کے جوابات دینے کے بعد مریم جب میڈیا کے سامنے آئیں تو انہوں نے اپنی اتالیق کے یاد کروائے ہوئے دو نکات بطور خاص دہرائے، گو انداز نا پختہ تھا تاہم اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ ن لیگ آنے والے دنوں میں کس راستے کا انتخاب کرنے والی ہے۔ ان میں ایک تھا کہ “میں نےجے آئی ٹی سے سوال کیا ۔۔۔۔۔۔” یعنی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ آخر تک معصومیت کا ناٹک برقرار رکھنا ہے اور دوسرا اہم نکتہ اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر دھمکی نما پیغام تھا کہ “ڈرو اس وقت سے جب نواز شریف اپنے سینے میں چھپے راز کھول دے گا۔” ۔۔۔۔۔۔ اور آج اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی پہلی قسط ریلیز کر دی گئی ہے۔

آج معروف اخبار ” ڈان” کے نمائندے سیرل المیڈا نے “ڈان لیکس پارٹ ٹو” ریلیز کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف نے اقتدار سے اپنی رخصتی کی وجہ بالواسطہ طور پربتا دی ہے:
Asked what he believes is the reason for his ouster from public office, Mr Sharif did not reply directly but steered the conversation towards foreign policy and national security. “We have isolated ourselves. Despite giving sacrifices, our narrative is not being accepted. Afghanistan’s narrative is being accepted, but ours is not. We must look into it.”
He continued: “Militant organisations are active. Call them non-state actors, should we allow them to cross the border and kill 150 people in Mumbai? Explain it to me. Why can’t we complete the trial?” — a reference to the Mumbai attacks-related trials which have stalled in a Rawalpindi anti-terrorism court.
“It’s absolutely unacceptable. This is exactly what we are struggling for. President Putin has said it. President Xi has said it,” Mr Sharif said. “We could have already been at seven per cent growth (in GDP), but we are not.”

ویسے تو یہ بے ربط سی گفتگو بظاہر نواز شریف کی پرانی شکایات کا آموختہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں نہایت مہارت کے ساتھ وہ بات کہی گئی ہے جسے بھارتی میڈیا نے فوراً سے پیشتر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا اور اس سے وہی سرخی تراشی جو کہنے والے کا مقصد تھی۔ سیرل المیڈا کے مطابق نواز شریف نے اقتدار سے اپنی رخصتی کی وجہ بتاتے ہوئے بات کا رخ موڑا اور کہا :
“ہم (مملکت پاکستان) نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ قربانیاں دینے کے باوجود ہمارا موقف دنیا میں رد کیا جاتا ہے اور افغانستان کے موقف کو پذیرائی ملتی ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
ملک میں عسکری تنظیمیں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیجیے لیکن کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟ مجھے بتائیے کہ ہم ان کے خلاف ٹرائل مکمل کیوں نہیں کر سکتے۔ (اشارہ راولپنڈی میں ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کے خلاف مقدمے کی جانب ہے جو ابھی التوا میں ہے)
یہ معاملہ ہمارے لیے قطعی ناقابل قبول ہے۔ اسی کے خلاف تو ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن نے یہی کہا تھا، صدر شی جن پنگ نے یہی کہا تھا۔ ہماری جی ڈی پی شرح نمو 7 فیصد ہو سکتی تھی جو نہیں ہوسکی۔”
اس انٹرویو کی اشاعت کے فوراً بعد بھارتی میڈیا نے شہ سرخیاں جمائیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے ممبئی حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ۔۔۔۔۔ اور یہی اس انٹرویو کی اشاعت کا مقصد تھا۔ یہاں ہم میں سے کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا انٹرویو میں کی گئی ایک بات کو اپنی مرضی کے معنی پہنا رہا ہے، نواز شریف کے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا۔ اس کا آسان سا جواب ہے کہ اس معاملے میں میاں صاحب اور ان کی جماعت کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ باخبر دوستوں کو یاد ہوگا کہ 1999 میں امریکی اخبارات میں “روگ آرمی” کے اشتہارات کیسے اور کس نے شائع کرائے تھے؟ چلیے دور نہیں جاتے، ماضی قریب میں “ڈان لیکس” کا تنازعہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا جس کے متعلق ن لیگی حکومت کا موقف ملا نصرالدین کی صراحی والے موقف کے مانند “سہ جہتی” تھا۔ یعنی اول تو ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی، اگر ہوئی بھی ہے تو اخباری رپورٹر (سیرل المیڈا) کو مذکورہ خبر ہم نے نہیں دی اور اگر رپورٹر نے خبر کہیں سے حاصل کر ہی لی ہے تو اس کے لیے طارق فاطمی، پرویز رشید اور سیکرٹری اطلاعات کی قربانی حاضر ہے۔ خدا خدا کرکے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ مبینہ طور پر جنرل راحیل شریف سے معاملات طے کرکے اصل ذمہ داروں کو بچایا گیا اور تین افراد کی قربانی دے کر یہ معاملہ دبایا گیا تو مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ کو وہی دھمکی دے ڈالی جس کا ذکر ابتدائی سطور میں کیا گیا ہے۔ صحافت سے وابستہ دوست جانتے ہیں کہ شریف خاندان نے بیرون ملک کن لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں اور ان فرمز کے کام کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔ بہرطور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ انٹرویو مخصوص مقاصد کے لیے دیا گیا ہے اور اب اسے اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا یعنی بھارت سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا تیزکرانے سے ریاست کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جائے گی ۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ آئندہ چند دنوں میں ہمارے سامنے آجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آئیے میاں صاحب کے انٹرویو کے مندرجات کی جانب۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ سننے میں تو یہ بات درست لگتی ہے لیکن سابق وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ چار برس تک وزارت خارجہ کا قلمدان وہ اپنے پاس کیوں رکھے بیٹھے رہے؟ کیا ایک متحرک وزیر خارجہ کی تقرری سے انہیں اسٹیبلشمنٹ نے روک رکھا تھا؟
وہ فرماتے ہیں کہ ملک میں عسکری تنظیمیں ہیں۔ جی بالکل ہیں ۔۔۔۔ ایک بین الاقوامی عسکری تنظیم سے تو آپ نے بے نظیر حکومت گرانے کے لیے چندہ بھی لیا تھا۔ ایک اور دہشت گرد تنظیم سے آپ کے برادر خورد نے برادرانہ تعلقات کی دہائی دے کر پنجاب میں دھماکے نہ کرنے کی اپیل کی تھی جو وقتی طور پر منظور بھی کر لی گئی تھی۔ایک دہشت گرد تنظیم سے پنجاب میں آپ نے انتخابی تعاون بھی کیا تھا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کی اطلاع آپ کو میڈیا سے ملی تھی کیونکہ مبینہ طور پر آپ کے بعض پارلیمانی اتحادی اس آپریشن کے خلاف تھے۔ اب رہ گئی وہ تنظیم جس کے متعلق آپ نے ممبئی حملوں کے سلسلے میں اشارہ فرمایا ہے ۔۔۔۔ چلیے ہم کھل کر وہ کہہ دیتے ہیں جو آپ کہنا چاہتے ہیں لیکن ابھی نہیں کہا (شاید اگلی قسط میں کہیں گے) ۔۔۔۔ یعنی حافظ سعید اور لشکر طیبہ کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے نہیں ہو سکا اور اسی باعث راولپنڈی کی عدالت میں مقدمہ بھی التوا کا شکار ہے۔
یہاں آپ کے اٹھائے ہوئے سوالات پر ایک اور سوال کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔ اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کے باعث وزیر خارجہ مقرر نہیں کر سکتے، عسکری تنظیمیں ختم نہیں کر سکتے، ان پر مقدمات نہیں چلا سکتے اور نتیجتاً شرح نمو 7 فیصد نہیں ہو سکی تو سادہ سا سوال ہے کہ آپ سوا چار سال تک وزیر اعظم کیوں رہے؟ آپ کو اقتدار میں آنے کے پہلے برس ہی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے راستے کی رکاوٹ ہے تو آپ نے یہ انکشافات اس وقت کیوں نہیں کیے؟ آپ نے یہ سب کچھ آج کیوں کہا جب آپ کو اقتدار سے رخصت کر دیا گیا ہے؟ اگر اسٹیبلشمنٹ اس قدر طاقتور ہے تو آپ بھارتی وزیر اعظم سے ذاتی ملاقاتیں کیسے کر لیتے تھے؟ کیسے اپنے ذاتی دوست جندال کو ویزے کے بغیر مری میں گھر بلا لیتے تھے؟ اسٹیبلشمنٹ نے آپ کو لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی سے روکے رکھا لیکن ملکی تاریخ کے مہنگے ترین اور سب سے زیادہ قرضے لینے سے نہ روک سکی۔ اسٹیبلشمنٹ نے آپ کو مہنگی ترین ایل این جی لینے اور اس میں بڑی بےضابطگیوں سے نہ روکا۔ غالباً اسٹیبلشمنٹ نے ہی آپ کو ایون فیلڈ پراپرٹیز لینے پر مجبور کیا ہوگا تاکہ پاناما پیپرز میں آپ کا نام آ سکے۔ ویسے شاید آپ کو یاد ہو کہ ممبئی حملے 2008 میں ہوئے تھے جبکہ (آپ کے بقول) اس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر آپ میمو گیٹ کے سلسلے میں 2012 میں سپریم کورٹ گئے تھے۔ حالانکہ آپ کو تو اسی وقت اس کا پردہ فاش کر دینا چاہیے تھا جب آپ نے بھارتی میڈیا کو اجمل قصاب کے گاؤں فرید کوٹ کے متعلق اطلاع دی تھی۔ چلیے یہ بات بھی پرانی ہو گئی، یہی بتا دیجیے کہ ابھی چند ہفتے قبل کس رشتے دار کے ذریعے کس حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جرنیل کے ساتھ روابط ہو رہے تھے اور کیا یقین دہانیاں کرائی جا رہی تھیں؟ حضور ۔۔۔ اگر آپ ایسے ہی بے بس تھے تو اقتدار سے چمٹے کیوں رہے؟ استعفیٰ دے کر حکومت سے باہر کیوں نہیں آ گئے؟
میاں صاحب ۔۔۔۔ آپ نے اپنی طرف سے بہت بڑی چال چلی ہے لیکن شاید یہ معلوم نہیں (ویسے ضیاء الحق کے روحانی بیٹے کو معلوم ہونا چاہیے) کہ اس طرح کے جتنے چاہیں مزید انکشافات کر لیں، ہونا کچھ نہیں کیونکہ ہر “جرم” میں آپ خود شریک رہے ہیں۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply