سیلابوں کے بدلتے انداز اور ہم۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

روایتی طور پر ہمارا علاقہ دریائے راوی کے آس پاس کے تیس چالیس کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ دریاوں کا رخ موڑنے اور ڈیموں کی قید میں ڈالنے سے پہلے جولائی اگست سیلاب کے مہینے شمارے ہوتے تھے۔ اس میں حکومت کی طرف سے اعلان وغیرہ کا نظام اور خبریں تو بہت بعد میں آئیں، پہلے ہمارے لوگ خود سے سیلابوں کے لیے تیار رہتے تھے۔ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ سیلاب کا مقابلہ اپنی مدد آپ کے تحت کرنا ہے۔ سامان کا زیادہ چکر نہیں ہوتا تھا، بس کھانے پکانے کی اشیاء ہی ہوتی تھی اور وہ بھی ضرورت تک محدود ہوتی تھیں۔ سیلاب کے تین ماہ مال مویشیوں کو دریا سے دور رشتہ داروں کے ہاں بھجوا دیا جاتا تھا۔ خاندان کے حساب سے آٹا پسوا کر رکھ لیا جاتا۔ خواتین میٹھی روٹیاں بنا کر رکھ لیتی تھیں، جنہیں ایک ماہ تک استعمال کیا جا سکتا تھا اور ساتھ میں ستو، تل اور کئی روایتی چیزیں خشک حالت میں رکھ لی جاتی تھیں۔ اس کا یہ نتیجہ نکلتا کہ بھوک کا پکا انتظام ہو جاتا، مال مویشی اور بچے محفوظ ہوتے۔ لوگ کاموں میں لگے رہتے، جیسے ہی سیلابی پانی آتا یہ بڑے بڑے ٹیلوں پر اجتماعی صورت میں ڈیرے ڈال لیتے۔ اگر خدا نخواستہ پانی ٹیلوں تک پہنچتا تو اگلے مرحلے میں انہوں نے بڑے مضبوط درخت حفاظت سے لگائے ہوتے، فوراً ضروری چیزیں اور خود ان درختوں پر منتقل کر لیا جاتا۔ ہماری خاندانی یادشتوں میں درختوں پر سیلاب میں پناہ لیے ہوئے اور جانوروں بالخصوص سانپوں کے ساتھ ہونے والے ٹکراو کا بہت بار سنا۔

آبادی کے بڑھ جانے اور ضروریات زندگی کو بڑھا لینے کی وجہ سے اب سیلاب سے مقابلے کے وہ ذرائع بہت پرانے ہوچکے ہیں اور ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو سیلابی صورتحال بنی ہوئی ہے، اس کی وجہ دریا کا سیلابی پانی نہیں ہے۔ دریائی علاقے کے لوگ سیلاب سے نسلوں سے نمٹ رہے ہیں، اس لیے وہ ناصرف سیلاب کا احتمال رکھ کر سارے امور کو انجام دیتے ہیں، بلکہ سیلاب آنے کی صورت میں کیا کرنا ہے، اس سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ انہیں دریا کی سطح سے پتہ چلتا ہے کہ اگر یہ پانی باہر نکالے گا تو کہاں تک مار کرے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ دریائی علاقے کے لوگوں کی اس موسم کی فصلیں بھی ایسی ہیں، جو سیلابی ریلا اگر ایک حد تک رہ کر وہاں سے گزرے تو وہ فصل دو گنا اچھی ہو جاتی ہے اور سیلاب کی اٹ سے اگلے پانچ سال تک فصلوں کو قدرتی کھاد مل جاتی ہے۔

اس وقت بارش کے سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے، اس لیے یہ نئے راستے بنا رہا ہے اور خطرہ یہ ہے کہ بہت سے سے علاقوں میں پانی جمع ہو جائے گا اور اسے نکالنا وبال جان بن جائے گا، کیونکہ کھڑے پانی میں پیدا ہونے والی بیماریاں تباہی کا باعث بنیں گی۔ ایک تو فصلیں تباہ ہو جائیں گی، دوسرا جانوروں کی اموات ہوں گی اور مچھر کی بہتات سے ملیریا اور دیگر بیماریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ وطن عزیز آج جس صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، اس پر فوری طور پر سیلاب کے ماہرین کی تحقیقی ٹیمیں لگ جانی چاہیں، اس سال تو جو کچھ ہوا سو ہوا، یہ اب ہر سال ایسا ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو بہت تباہی ہماری منتظر ہے۔ اس سے صرف اور صرف موثر منصوبہ بندی ہی بچا سکتی ہے۔

دیہاتی علاقے تو دیہاتی علاقے، آج شہری علاقے بھی تباہی کا شکار ہیں۔ خیرپور، حیدر آباد اور دیگر کئی بڑے شہروں میں باقاعدہ کشتیوں میں سامان گھروں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ تونسہ میں اچانک آنے والے ریلے نے بہت تباہی مچائی ہے اور لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا اور سب کچھ ساتھ بہا کر لے گیا۔ ہمارے دوست سید مولانا سید محمد علی ہمدانی اور مولانا سید سفیر سجاد شیرازی صاحب اس وقت تونسہ میں ہیں، بڑی ہی دردناک خبریں سنا رہے ہیں۔ ابھی ان کا میسج آیا: “سیلاب زدگان کی خدمت کے دوران ہمارا سامنا زمین پر بیٹھی ایک ایسی بوڑھی اماں سے ہوا، جن کی سات بیٹیاں ہی ہیں، جن میں سے ایک معذور بهى تهی۔ تنکا تنکا جوڑ کر بیٹیوں کا جہیز بنایا، پر سیلاب کی اک لہر گھر سمیت سب امیدیں بھی بہا لے گئی، باقی بچی تو بس بے بسی کی ایک دردناک داستان۔” اس جیسے کئی ہولناک مناظر، آہیں سسکیاں اور ٹوٹتے حوصلے درد آشنا مسیحاؤں کے منتظر ہیں اور اب فوری ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم بھی عجیب قوم ہیں، ویسے تو جہاں بھی سیلاب اور دیگر آفات آتی ہیں، وہاں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ سیلاب سے پہلے ایک سے چار ہزار میں دستیاب خیمہ ابھی بیس ہزار تک جا پہنچا ہے، دالوں سمیت خشک راشن کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ خدا کا خوف کرنا چاہیئے اور ان سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کرنی چاہیئے، نہ کہ اس موقع کو خدمت کی بجائے کاروباری اتار چڑھاو کی نذر کرنا چاہیئے۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ بہت سے علاقوں سے پیشہ ور بد اخلاق اور جسیم لوگوں نے علاقے میں ڈیرے ڈال لیے ہیں، اصل مستحقین تو اپنے گھروں کے ملبے پر حیران و پریشان ہیں۔ یہ گھس پیٹھیے سڑکوں کے کنارے سے ہی سینہ زوری کرکے مال لوٹ رہے ہیں۔ ان سے انسانیت مر چکی ہے، اسی لیے ایسا کر رہے ہیں۔ ان ظالموں کو ریاستی ادارے بھی لگام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تقسیم کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل مستحقین تک پہنچیں۔ بنیادی ریلیف کافی ہوچکا ہے اب ان کی مستقل بحال پر کام ہونا چاہیئے۔ ہم سب کی یہ انسانی ذمہ داری ہے کہ اپنے ان بہن بھائیوں کا درد محسوس کریں اور ان کی اپنی بساط کے مطابق مدد کریں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply