• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا وائرس یا خدائی ابابیلیں ۔۔سیّد عارف مصطفٰی

کرونا وائرس یا خدائی ابابیلیں ۔۔سیّد عارف مصطفٰی

ایک خبر کے مطابق سعودی شاہی خاندان کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد کورونا کی لپیٹ میں ہیں اور اسکے نتیجے میں وہاں خوف اور سراسیمگی کا راج ہے ۔ امریکی غلام شاہ سلمان اور  ان کا رنگیلا سپوت یعنی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دارالحکومت ریاض سے نکل بھاگے ہیں اور جدہ کے قریب ایک جزیرے میں گوشہ نشین ہوچکے ہیں ۔ لگتا ہے کہ اس مقدس سرزمین کے تحفظ کے لیے انسانوں کے بجائے اب خود دست قدرت حرکت میں آرہا ہے ۔۔ کیونکہ سعودی حکمرانوں میں امریکی و مغربی طاقتوں پہ انحصار کی جس پالیسی کا آغاز شاہ فہد بن عبدالعزیز کے زمانے میں ہوا تھا اور جسے بعد میں شاہ عبداللہ نئی بلندیوں  پر لے گئے تھے اسے اب شاہ سلمان اور ان کا ولی عہد بیٹا شاہ محمد بن سلمان انتہاء تک لے جانے پہ تل گئے ہیں ۔۔۔ سامنے کی سچائی یہ ہے کہ اس وقت وہاں اصلی بادشاہی شہزادہ محمد کی ہے جس نے اپنے بوڑھے و نیم مفلوج باپ کو مکمل بے دست و پا کرکے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چونکہ سعودی ولی عہد مغرب کا پروردہ اور انکا آلہ کار ہے چنانچہ اسکا کھلا رجحان مملکت میں امریکی تسلط مستحکم کرنے پہ ہے جس کو یقینی بنانے کے لیے  وہ رعایا کو لہو و لعب کا عادی بنانے کا آرزو مند ہے اور اس سلسلے میں وہ مغربی کلچر کے نفاذ اور فحاشی و عیاشی کے فروغ کے لیے بھرپور کاوشیں کررہا ہے ۔۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسکی ان بےلگامیوں کو روکنے والا پوری مملکت میں کوئی بھی نہیں۔۔ شروع شروع میں جن چند علما نے کچھ بے اطمینانی کا اظہار کیا تھا وہ یا تو پابندِ  سلاسل ہیں یا زندگی کی قید ہی سے آزاد کردیئے گئے ہیں ۔ مظلومین و معتوبین کی اس طویل فہرست میں سب سے بڑا نام سابق امام کعبہ کا ہے جو بہت  بڑے عالم و فاضل شخص تھے انہیں ایک ناپسندیدہ دعا کرانے پہ منبر سے گھسیٹ کے اتار کے نامعلوم جگہ پہنچادیا گیا تھا اوران پہ تشدد کی بھی خبریں موصول ہوئی تھیں اور اب کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ۔اور نہایت شرمناک بات یہ ہے کہ وہ کروڑوں فرزندان توحید جنہوں نے انکے پیچھے کئی برس حرم میں نمازیں ادا کی تھیں ان میں سے کسی کے حلق سے ادنیٰ سی صدائے احتجاج تک بھی بلند نہ ہوسکی ۔۔

نہایت گھناؤنی حقیقت یہ بھی ہے کہ چونکہ اس وقت سعودی حکومت پوری طرح امریکی چنگل میں جکڑی ہوئی ہے اسی لیے وہ خطے میں اس کے لے پالک اسرائیل کی حامی و مددگار بن گئی ہے ۔ کسے یاد نہیں کہ شاہ عبداللہ کے دور میں خطے سے حماس کو تہس نہس کرانے کے لیے اسرائیل سے ساز باز کی گئی تھی اور سعودی حکومت نے اس کو بھاری فنڈز فراہم کیے تھے جس کے بعد وہاں ہزاروں انسانوں کو خوفناک بمباری کے ذریعے شہید کردیا گیا تھا غزہ میں ہوئی جارحانہ جنگی کارروائیوں کے پیچھے شاہ عبداللہ کا شیطانی دماغ تھا جو کہ الجزائر اور تیونس میں اٹھنے والی بہار عرب نامی جمہوری لہر سے سخت خائف تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر حماس نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی تو وہ خطے سے شاہی استبدادی حکومتوں کا صفایا کراسکتی ہے ۔۔۔ غزہ کے مظلوم فلسطینی ان حقائق سے پوری طرح واقف ہیں اور یہ واقعہ سعودی حکومت کی اسرائیل نوازی پہ مبنی گھناؤنی پالیسیوں سے انکی اسی دِلی نفرت کا عکاس تھا کہ جب گزشتہ برس کئی فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیل کے دورے پہ آئے ایک سعودی وزیر کے غزہ کے دورے کے موقع پہ اسکے خلاف نہ صرف نعرے لگائے تھے بلکہ ایک نوجوان نے تو برسرعام اسکے منہ پہ تھوکا بھی تھا جسکی ویڈیو خوب وائرل ہوئی تھی ۔۔۔ لیکن وہ لوگ جو شاہ فیصل شہید بلکہ کسی حد تک شاہ خالد کے بعد سے سعودی پالیسیوں کو سخت تشویش کی نگاہوں سے دیکھتے آرہے ہیں وہ ان حکمرانوں کے اندرونی خوف سے  اس وجہ سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں کہ جس نے 1979 میں بغاوت کی ایک بڑی عوامی کوشش سے جنم لیا ہے۔

واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ 1979 میں خانہء کعبہ میں پناہ لینے پہ قبضے پہ مجبور ہوجانے والے مدینہ کی شریعت یونیورسٹی کے ان 500 طالبعلموں کا بہیمانہ طور پہ فوجی آپریشن کے بل پہ صفایا کرادیا گیا تھا جو کہ محمد العتیبی کی قیادت میں صحیح اسلامی نظام قائم کرنے اور سعودی مملکت سے بادشاہی نظام کے خاتمے کے لیے زیرزمین جدوجہد کررہے تھے ، اس واقعے کے بعد سے سعودی شاہی خاندان مملکت میں جمہوریت کی کسی بھی آواز کو بلند ہونے سے پہلے ہی ختم کرڈالنے کے لیے نہایت چوکس و مستعد رہنے لگا ہے  ، اور وہ اس ضمن میں کئی پہلوؤں  سے سرگرم عمل ہے جہاں ایک طرف تو اس نے اپنی کاسہ لیس بادشاہی نظام والی مملکتوں سے مل کر او آئی سی پہ اپنی چودہراہٹ قائم کرلی ہے اور اسے امریکی عزائم کا محافظ بنادیا ہے تو دوسری طرف وہ خطے میں توسیع پسندی اور جارحیت کی پالیسی پہ بھی پوری مستعدی سے عمل پیرا ہے اور یمن اور شام میں اسکی کارروائیاں اس کا کھلا ثبوت ہیں اور اسی استبدادی سوچ کے تحت وہ حفظ ماتقدم کے طور پہ حماس اور اخوان المسلمین کو نیست و نابود کرڈالنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

اب اس وقت برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے اہم ترین مقامات کی حامل اس مملکت کے حاکم امریکہ  کی خوشنودی اور اپنی بادشاہی کے تحفظ کی خاطر کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے اس مملکت میں ہر آواز دبا چکے ہیں اور اس خوشامد میں وہ دنیا کے کسی بھی حکمراں ٹولے سے بہت زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں ۔۔حتیٰ کہ اپنے علماء کے طبقے کو بھی اپنا غلام بناچکے ہیں اور اب سعودی علماء کا یہ حال ہے کہ انہوں نے حکمرانوں سے مک مکا کرکے اپنے عمامے انکے پیروں میں ڈال دیئے ہیں اور نہایت تابعداری سے وہ حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن کر انکے نفس ناطقہ بن چکے ہیں ۔۔۔اور یوں ان مرغان دست آموز کا نہ تو فہم دین قابل بھروسہ ہے اور نہ ہی انکے فتوے لائق اعتبار۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

عالم یہ ہے کہ دیگراسلامی ممالک کے حاکموں کی اکثریت انکے دسترخوان کے ٹکڑے چننے کے لیے بیتاب ہےاور اس کی خاطر وہ انکےتیل کے کنوؤں کی طرف منہ کیےان بدمستوں کے سامنے ہاتھ جوڑے دوزانو بیٹھی ہے تو پھر ایسے میں کیا ہوسکتا تھا ۔۔۔ یہی کہ کرونا جیسے حقیر جرثومے نے اشرف المخلوقات کو انکی بے اختیاری کا درس اچھی طرح پڑھا دیا ہے اور سعودیہ و دیگرعرب ممالک کے حکمرانوں کی تو کیا اوقات ہے اس کرونا کے آسیب نے تو یورپ اور چین و امریکہ میں بسنے والی اشرف ترین کلاس تک کو ادھیڑ کے رکھ دیا ہے اور انکی فراواں دولت اور اسلحے کے انبار اور زبردست ہسپتال بھی انہیں اس جرثومے کی ہلاکت خیزیوں سے بچا نہیں پارہے ہیں ۔ زمینی خداؤں کی اس بے بسی پہ مجھے سورہء فیل یاد آرہی ہے کہ یورپ کیسے ابرہہ جیسے مغرور و بدمست بادشاہ اور اسکے خوفناک لشکر کو ننھی ننھی ابابیلوں کے جھنڈ نے  کنکریاں مار مار کے کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کرڈالا تھا ۔ اب آج پھر سے ابرہہ کا لشکر برسر میدان ہے اور اس کے عین اوپر کرونا کی شکل میں نئی ابابیلیں آسمان پہ آن موجود ہوئی ہیں۔۔۔ یقیناً تاریخ خود کو دہرانے جارہی ہے۔۔۔۔ للہ باقی من کل فان اللہ باقی من کل فان۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply