کون سا “مرد” خطرناک ہے؟۔۔ابصار فاطمہ

ہم نے ہمیشہ یہی سنا کہ مرد ذات بے وفا ہے مرد ذات کا کوئی اعتبار نہیں، مردوں سے بچ کے رہنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری جانب کچھ اسی قسم کے جملے مردوں کو عورتوں کے لیے بتائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک مسئلہ جو خواتین کی شخصیت کو بطور ایک فعال انسان بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ یہ کہ ہمیں مرد سے اتنا ڈرا دیا جاتا ہے کہ ہم ہر مرد سے ڈرنے لگتے ہیں۔ اس کی بہت عام مثال یہ ہے کہ اکثر خواتین اساتذہ نویں دسویں جماعت کے لڑکوں کو پڑھاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں ان کے لیے وہ پہلے مرد ہیں بعد میں طالب علم۔ وہ ڈرتی ہیں کہ یہ بڑے ہوتے لڑکے انہیں جنسی ہراساں کر سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کا اور باقی خواتین کا جو ہر ہر مرد سے ڈر رہی ہیں ان کاخوف کس حد تک حقیقی ہے کیا واقعی ہر مرد سے ڈرنا چاہیے؟
اس پہ بات ایک مثال کی مدد سے کرتے ہیں۔
آپ میں سے کئی نے ول اسمتھ جو کہ ہالی ووڈ کے ایک مشہور اداکار ہیں ان کی مووی مین ان بلیک شاید دیکھی ہو۔ جس میں وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ہیں اور دنیا والوں سے ایلینز کو چھپاتے ہیں اور خطرناک ایلینز سے بچاتے بھی ہیں۔ اسی مووی کے شروع میں ایک سین ہے جس میں ول اسمتھ کا کردار ایجنٹ جے J اس ادارے میں نوکری کے ٹیسٹ کے لیے جاتا ہے اسے تحریر ی ٹیسٹ کے بعد ایک کمرے میں لے جایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خطرہ پہچان کے ردعمل دکھاؤ۔ وہاں ایک سڑک کا سین ہے جو کارڈ بورڈ سے بنایا گیا ہے۔ جہاں مخلتف جگہوں پہ مختلف ایلینز کسی نہ کسی کام میں مشغول نظر آرہے ہیں۔ اور سڑک پہ ایک چھ سات سال کی بچی جاتی دکھائی دیتی ہے جس کے ہاتھ میں کوانٹم فزکس کی کتاب ہے۔ ایجنٹ جے جیسے ہی بچی والے کارڈ بورڈ کو دیکھتا ہے اس پہ فائر کردیتا ہے۔
انچارج پوچھتا ہے تم نے سارے ہولناک صورت ایلینزچھوڑ کے چھوٹی سی بچی پہ فائر کیوں کیا؟
یہاں ایجنٹ جے نے جو وضاحت دی اس پہ آپ بھی غور کریں۔
اس نے ایکسپلین کیا کہ فلاں ایلین پول پہ لٹکا ہے اور جیسے لٹکا ہے وہ فوراً کسی پہ حملہ آور نہیں ہوسکتا۔ دوسرے ایلین کے ہاتھ میں رومال ہے اور اس کی ناک بہہ رہی ہے وہ بھی خطرناک نہیں کیوں کہ وہ بیمار ہے۔ لیکن ایک چھ سات سال کی بچی کوانٹم فزکس کی کتاب پڑھ رہی ہے یہ بات سب سے منفرد ہے۔ ایسے میں میرے مطابق سب سے خطرناک یہ بچی ہے۔

یہ ایک مزاحیہ مووی ہے اور یہ سین بھی کسی حد تک مزاحیہ انداز میں ہی فلمایا گیا ہے۔ لیکن جو نکتہ اس مثال سے میں پیش کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ حالات کا مشاہدہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کر سکنا کہ کس وقت کون ہمارے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ ہمیں اس کی تربیت نہیں دی جاتی۔ سب مردوں کو بلکہ باہر کی دنیا کو ایک ہی انداز میں خطرناک قرار دے دیا جاتا ہے۔ کم عمر بچوں اور خواتین یا وہ مرد حضرات جن کا میل جول زیادہ لوگوں سے نہ ہو وہ ہر شخص سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں کو بہت بری طرح متاثر کرتا ہے۔

بد قسمتی سے اس کا فائدہ بھی مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگ اٹھاتے ہیں۔ وہ ان خوف زدہ افراد کو یا تو اور ڈراتے ہیں یا انہیں یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ دنیا واقعی بہت خطرناک ہے اور ہم ہی تمہارے واحد خیر خواہ ہیں۔

مثال کے طور پہ جب کسی گھر میں ماں یا باپ کا انتقال ہوجاتا ہے تو کئی تعزیت کے لیے آنے والے آپ کو یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ تو اکیلے ہوگئے اب آپ کیسے زندہ رہیں گے۔ جب کہ آپ کے اردگرد صرف اس ایک رشتے کے علاوہ باقی سب نہ صرف ہوتے ہیں بلکہ اکثر آپ کا ان سے جذباتی تعلق بھی اچھا ہوتا ہے۔ بار بار ایک ہی بات آپ کے دماغ میں بٹھا کے پھر وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس مصیبت کے وقت میں صرف وہی آپ کے سچے ہمدرد ہیں۔ اس سے ہرگز فرق نہیں پڑتا کہ جانے والا جوان تھا یا بوڑھا یا اس کی اولاد بالغ ہے یا کم عمر ہے۔ اکثر یہ پینترا کام کرجاتا ہے اور انتقال کے بعد اکثر گھروں میں جذباتی تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ بھی تیزی سے ہوتی ہے۔

یہاں آپ دیکھیے کہ جب آپ کو یہ احساس ہو کہ باہر خطرناک افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے تو آپ میں تحفظ کے لیے کوشش کرنے کی ہمت پیدا ہونے کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ اتنے سارے لوگوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور آپ کسی بھی قسم کےحفاظتی اقدامات نہیں کرتے یا پھر بالکل الٹا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ خود کو بہت محدود کر لیتے ہیں۔ یہی رویہ آپ کو اکثر خواتین میں نظر آئے گا۔ وہ گھر سے نکلنے، کوئی نیا کام کرنے، اجنبی سے بات کرنے سے ہر ممکن اجتناب کرتی ہیں۔ ان کے پاس نامعلوم نمبر سے کال بھی آجائے تو ڈر جاتی ہیں۔ اکثر لڑکیاں رشتہ طے ہونے کے بعد یاشادی کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس بند یا رسٹرکٹڈ کر لیتی ہیں۔ موبائل نمبر بدل لیتی ہیں۔ کیوں کہ وہ زندگی میں آنے والے اس نئے مرد سمیت اپنے اردگرد کے ہر مرد اور ہر نامعلوم فیکٹر سے خوف زدہ ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی یہ احتیاطی تدابیر ان کے لیے مزید مسائل کا باعث بنتے ہیں اور ان کے حوالے سے مزید شکوک وشبہات جنم لینے لگتے ہیں۔

بچوں اور بچیوں کو یہ سکھانا بہت ضروری ہے کہ ہر شخص اور ماحول میں موجود ہر چیز خطرناک نہیں اور کیسے وہ یہ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کون اور کیا ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ کس قسم کے روئیے قابلِ اعتبار ہیں اور کس قسم کے روئیے مشکوک ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مددگار یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے تحفظ کے اصول بنائیےجس میں جسمانی، جذباتی اور جنسی تحفظ سب آجاتے ہیں۔ اور ہر وہ شخص جو آپ کے ان اصولوں پہ آپ سے یہ بحث کرے کہ آپ صرف اس کے لیے ان اصولوں میں نرمی کریں اس شخص کو مشکوک کی لسٹ میں رکھیے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ اصول بدل نہیں سکتے لیکن انہیں بدلنے کا حق بھی صرف آپ کو ہے آپ خود جس پہ اتنا اعتماد کریں کہ اس کے لیے ان اصولوں میں نرمی کرنا چاہیں تو کریں۔ جو شخص آپ کے ان اصولوں کی خوش دل سے پابندی کرے اس کو قابلِ اعتماد لوگوں میں شامل کیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہم جذباتی، جسمانی و معاشی حوالے سے معاشرے میں جتنے کمزور ہوں گے ہمارے لیے خطرات اتنے زیادہ ہوں گے۔ باقی تمام اقسام کی کمزوری کو جذباتی استحکام سے مناسب حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ جذباتی طور پہ خود کو کمزور سمجھتے/سمجھتی ہیں تو آپ کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک مشورہ جو میں ہمیشہ دیتی ہوں وہ یہ کہ جب بھی پریشان ہوں ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے سے نہ گھبرائیں۔ وہ آپ کو جذباتی طور پہ صحت مند رکھنے کے حوالے سے معیاری تربیت رکھتے ہیں۔ ہر نفسیاتی خاص طور سے جذباتی مسئلہ حل ہوسکتا ہے بشرط یہ کہ بروقت اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو صرف آپ خود کر سکتے ہیں۔ کوئی دوسرا کبھی آپ کے لیے آپ کے جذباتی مسائل حل نہیں کرسکتا۔ ماہرینِ نفسیات آپ کے اس سفر میں سمت متعین کرنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ آپ مزید جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے پہلے جذباتی استحکام حاصل کرسکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply