نام لینے کا موسم: ڈاکٹر اختر علی سید

یہ بات تو ڈاکٹر ناصر عباس نیر جیسے دانشور سے پوچھنے کی ہے کہ اردو میں Colonialism کا ترجمہ “نوآبادیاتی نظام” کیوں مستعمل ہو گیا جبکہ ایک لفظی ترجمہ “استعمار” بھی وہی مفہوم زیادہ بلاغت سے بیان کرتا ہے۔ عالم فاضل جناب حسین مرتضیٰ صاحب نے Colonizer کا ترجمہ “استعمار گر” اور Colonized کا اردو متبادل “مستعمر” تجویز فرمایا ہے۔ میں گذشتہ کئی سال سے Colonizer کو استعمار کہتا چلا آ رہا ہوں اب حسین مرتضیٰ صاحب سے استفادے کے بعد “استعمار گر” کی بجائے “استعمار گرد” کہنا بھلا لگتا ہے۔ “مستعمر” کی معنی خیزی اپنی جگہ مسلم مگر محکوم زیادہ آسان اور بلیغ لگتا ہے۔
استعمار، استعمار گرد، اور محکوم کی یہ گفتگو گزشتہ کئی گزارشات میں پیش کر چکا ہوں۔ میرے چند احباب نے اس کا سبب پوچھا تو عرض کیا کہ استعمار کی کارگزاریوں اور ان کے اثرات پر گزشتہ 60 سالوں سے زائد میں مفکرین اور ماہرین کا جو کام منظر عام پر آیا ہے وہ ہماری صورت حال کو سمجھنے میں اس طالب علم کی رائے کے مطابق بہت مدد دیتا ہے۔ پاکستان میں استعمار کے مطالعے کو ادب میں فروغ دینے کا سہرا بجا طور پر ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب کے سر بندھتا ہے جبکہ میری نظر میں اردو فکشن میں اس مطالعے کو جناب مرزا اطہر بیگ نے نہایت کامیابی سے برتا ہے۔
آپ یقینا یہ پوچھ سکتے ہیں کہ استعمار، استعمار گرد، اور محکوم جیسی اصطلاحات کو آج بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ آج ایسا کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان میں استعمار کے مطالعے کی بے سروسامانی بیان کرنا تھی۔ باقی تفصیلات تو جانے دیں ہمارے پاس اس مطالعے کے لیے بنیادی اصطلاحات کا ایک لفظی ترجمہ بھی میسر نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ استعمار کے مطالعے کی روایت ہندوستان میں بہت پرانی ہے انیس سو چوبیس میں کلکتہ کے ایک ماہر نفسیات گریندرو شیکھر بوس نے تحلیل نفسی کے بانی سگمنڈ فرائیڈ کو خط لکھا اور استعماریت کے ہندوستان کے عوام پر مرتب ہونے والے نفسیاتی اثرات بیان کرنے میں فرائیڈ کے نظریات کی کمزوری کو اس پر واضح کیا۔ فرائیڈ نے نہ صرف بوس کی تنقید کو قبول کیا بلکہ انہیں ویانا اپنے پاس آنے اور ملاقات کی دعوت دی۔ انہیں تحلیل نفسی کی عالمی تنظیم کی ممبرشپ بھی پیش کی۔۔ بوس ویانا نہ جاسکے تاہم وہ ہندوستان میں ہی تحلیل نفسی پر کام کرتے رہے۔ یہ روایت ہندوستان میں آج بھی موجود ہے اور Subaltern movement جیسی کئی تحریکیں گو اپنے مقاصد کے حصول میں تو ناکام رہیں مگر اپنا علمی اثاثہ پیچھے چھوڑ گئیں۔ پاکستان میں یہ مطالعہ سوائے ادب کے کسی اور علمی میدان میں فروغ نہ پا سکا۔ نفسیات کے شعبے میں اس پر کام ہونا چاہئے تھا مگر نہ ہوسکا۔۔۔۔ ظاہر ہے کچھ وجوہات رہی ہوں گی۔۔۔ اگر کسی مطالعے کی بنیادی اصطلاحات کا ترجمہ ہی کسی زبان میں موجود نہ ہو تو یہ مطالعہ اس زبان اور اس زبان کو بولنے والے کلچر میں کیسے فروغ پا سکتا ہے۔
ان اصطلاحات کو بیان کرنے کا دوسرا مقصد “نام لینے کے اس موسم” میں یہ تھا کہ استعمار کا مطالعہ آج جس مقام تک آن پہنچا ہے وہاں سب سے اہم بات جو شناخت کی جا چکی ہے وہ یہ ہے کہ اب استعمار ناقابل شناخت ہو چکا ہے۔ 70 سال پہلے کی طرح سے اب استعماری راج صرف غیر ملکی حکومتیں اور افواج ہی نافذ نہیں کرتیں بلکہ اب استعمار کے پیچھے بین الاقوامی اقتصادی ادارے، کثیر القومی کمپنیاں، اپنے ہی ملک کی افواج اور دیگر ادارے اور جنگجو گروپ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ دوسری اہم بات جو ماہرین اب تک کامیابی کے ساتھ دکھا چکے ہیں وہ یہ ہے کہ اب استعماریت چونکہ حکومتوں اور حکومتی افواج کی مرہون منت نہیں رہی اس لیے اب اس کو شناخت کرنا بھی آسان نہیں رہا اس لیے اب استعماریت کاموں سے پہچانی جائے گی۔۔۔ چہروں سے نہیں۔ اس طالب علم نے اپنی تحریروں میں استعماریت کے چار کام شناخت کئے ہیں۔
استعماریت محکوم سرزمین اور اس کے باشندوں کے اقتصادی ذرائع پر اپنا تصرف مسلط کرکے ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔
استعمار گرد محکوم کے لیے دوست اور دشمن کا تعین کرتے ہیں وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ محکومین نے کب کس سے جنگ کرنی ہے اور کب کس سے صلح۔
محکومین کو کسی بھی صورت میں اجتماعی طور پر متحد اور فکری طور پر متفق ہونے سے روکا جاتا ہے۔ پرانے اختلافات کو وقتاً فوقتاً اچھالا جاتا ہے۔ نئے اختلافات انتہائی منظم منصوبہ بندی سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ “شور کی ثقافت” کے عنوان پر میں اس موضوع کی کچھ نئی صورتوں پر چند گزارشات عرض کر چکا ہوں۔
محکومین کو استعمار گرد یہ باور کراتا ہے کہ اس کے بغیر ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ محکوم نہ اپنا خیال رکھ سکتے ہیں۔ نہ حکومت چلا سکتے ہیں۔ اپنے اقتصادی مسائل حل کر سکتے ہیں اور نہ اپنے باہمی اور گروہی جھگڑے نمٹا سکتے ہیں۔ آپس کے جھگڑے نمٹانے کے بھی محکوم استعمار گرد کے محتاج بنادیے جاتے ہیں۔ استعمار گرد خود کو زیادہ تعلیم یافتہ، منظم اور باصلاحیت ثابت کرنے کی کوشش میں محکومین کو تعلیم سے محروم اور غیر ضروری موضوعات پر ان کی توجہ مرکوز رکھنے کے لیے انتہائی منظم کوشش کرتا رہتا ہے۔
یہ چار باتیں روا روی میں بیان نہیں کی گئیں۔ ماہرین نے ان چاروں امور پر استعمار گرد کی کارگزاریوں کی ایک طویل فہرست مرتب کی ہے یہ مختصر سی تحریر ظاہر ہے ان تفصیلات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لیکن آپ ایک لحظے کے لیے یہاں رک کر تاریخ کو اپنے ذہن میں لائیں لاتعداد مثالیں آپ کے ذہن میں تازہ ہوجائیں گی۔
استعماریت، استعمار گرد، اور محکوم کی اس فہرست میں افراد کے ایک گروہ کا تذکرہ نسبتاً کم ہوا ہے اور وہ ہے Collaborators “شراکت کاروں” کا گروہ۔ مجھے شراکت کار کے کم تذکرہ ہونے پر تعجب اس لیے ہے کیونکہ شراکت کار کے بغیر استعمار گرد محکومین پر اپنا تسلط برقرار رکھ ہی نہیں سکتے۔ ہندوستان میں استعماری راج اور اس کے تسلط کو تسلسل سے برقرار رکھنے میں ان شراکت کاروں نے جو کردار ادا کیا تھا وہ آج تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ شراکت کار اگر تاریخ کی اس گھڑی میں استعمار گرد کے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو ہمارے برصغیر کی تاریخ شاید نہیں یقینا مختلف ہوتی۔ اگر شراکت کار سے آپ کے ذہن میں وہ جاگیردار آرہے ہیں جنہوں نے استعماریت کے مخالفین کی سرکوبی میں مدد فراہم کی تھی تو آپ ان دانشوروں اور مذہبی علما کو نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے مختلف حوالوں سے استعماری بیانیہ کی ترویج میں مختلف سطح پر استعمار گرد کو مدد فراہم کی۔ ان شراکت کاروں کے طریقہ کار کو تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے چند اوصاف اور ان کے استعمار گرد کے ساتھ تعلقات کے چند پہلو ملاحظہ فرمائیے۔
شراکت کاروں کی اکثریت بولنے والوں (یعنی مذہبی خطبا، شعلہ بیان مقرر ین، آج کل کی دنیا میں ٹاک شوز کے شرکاء اور سیاستدانوں پر مشتمل ہوتی ہے). یہ شراکت کار استعماری بیانیہ کو حق سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ استعمار گرد کو محکومین کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ یا پھر محکومین کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر غیر ضروری ہی نہیں بلکہ مردہ موضوعات کی جانب مرکوز رکھنے میں استعمار کی مدد کرتے ہیں۔
یہ شراکت کار معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارنے میں استعمار گرد کی اعانت کرتے ہیں۔ مردہ اختلافات کو ہوا دے کر انھیں زندگی اور موت کا مسئلہ بناتے ہیں۔۔ ان موضوعات پر معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں۔ معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں۔ استعمار گرد ان مردہ موضوعات پر انہی شراکت کاروں کو منصف بناکر عارضی امن قائم کرتے ہیں۔ اس عارضی امن سے سے معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کی ان شراکت کاروں کی صلاحیت بھی باقی رہتی ہے اور معاشرے میں شراکت کاروں کی حیثیت بھی مستقل قائم رہتی ہے۔ استعمار زدہ معاشرے کی فکر انہی شراکت کاروں کے طفیل مردہ موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ یہ شراکت کار استعمار گرد کے طفیل راتوں رات قبولیت عامہ کی سند حاصل کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس شہرت کو بعض شراکت کار اپنا ذاتی کارنامہ سمجھتے ہیں اور زعم کا شکار ہوکر استعمار گرد سے اختلاف کر بیٹھتے ہیں۔ ایسا ہونے کے نتیجے میں اس شراکت کار کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے۔
استعمار گرد کے ساتھ کسی بھی معاشرے میں موجود بعض شراکت کار جب ایسی قبولیت حاصل کرلیں کہ جو ایک سطح کے پہ آکر استعمار کے رحم و کرم سے آزاد ہوجائے تو ایسے میں استعمار گرد اور شراکت کار ایک مختلف اور مشکل تعلق میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ایک عام شراکت کار جس کی قبولیت استعمال گرد کی فیضان نظر کی محتاج ہوتی ہے کسی بھی وقت منظرعام سے غائب کیا جاسکتا ہے۔۔ لیکن ایک مقبول شراکت کار کو منظر سے ہٹانا استعمار کے لئے بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ اس دشواری سے نمٹنے کے لیے استعمار گرد ان شراکت کاروں کی درجہ بندی کرتا ہے۔۔۔ یہ درجہ بندی شراکت کاری اور فرمانبرداری کی صلاحیت کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہے کہ کون کس وقت استعمار گرد سے کس کام میں کتنا تعاون کر سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر شراکت کار کی حیثیت اور اس کو دی گئی مراعات اور مرتبہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ کیا ایک وقت میں بظاہر معتوب اور ناپسندیدہ نظر آنے والے شراکت کار کلی طور پر استعمار گرد کے رجسٹر سے خارج ہوجاتے ہیں؟؟ نہیں۔۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر شراکت کار کو ایک خاص اہمیت کے ساتھ باقی رکھا جاتا ہے۔ تاکہ موجودہ اہمیت کا حامل شراکت کار اپنی حیثیت کے زعم میں شراکت کاری سے انکار نہ کرے۔
استعمار گرد شراکت کاروں کی کمزوریوں اور عیوب پر خاص نظر رکھتا ہے۔ منظور نظر شراکت کاروں کو پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ غلطیاں کریں۔ وہ نہ کریں تو انہیں غلطیاں کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔ وقتی طور پر ان غلطیوں سے اغماض برتا جاتا ہے۔ اختلاف یا بغاوت کی صورت میں شراکت کاروں کی انہی غلطیوں کو ان کے گلے کا ہار بنا دیا جاتا ہے۔ تاریخ میں شاذونادر ہی ایسی مثالیں ملیں گی کہ جہاں شراکت کاروں کو ان کی غلطیوں کی جائز قانونی سزا ملی ہو۔ یہ غلطیاں زیادہ تر مالی بدعنوانی اور جنسی نوعیت کی ہوتی ہیں۔
اگر استعمار گرد اور شراکت کار کے تعلق کا انجام بالعموم شراکت کاروں کی ذلت آمیز شکست پر ہی منتج ہونا ہوتا ہے تو پھر شراکت کار ماضی کے اپنے اور دیگر شراکت کاروں کے تجربات سے سبق کیوں نہیں سیکھتے اور استعمار گرد کے آلہِ کار بننے سے خود کو باز کیوں نہیں رکھ پاتے؟؟؟ اس سوال کے دو بہت واضح اور سیدھے جواب ہیں۔
نمبر ایک طاقت کا حصول کسے ناپسند ہوتا ہے استعمار گرد کی طاقت کو یہ شراکت کار اپنی ہی طاقت گردانتے ہیں اور اس طرح کے اشتراک عمل کے نتیجے میں خود کو طاقتور محسوس کرنے کے بعد وہ محکومین کے ساتھ فاصلہ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ طاقتور کے ساتھ وابستگی نفسیاتی طاقت اور محکومین کے ساتھ وابستگی نفسیاتی ضعف کا سبب ہوتی ہے۔
نمبر دو شراکت کاروں کے دو گروہوں کو ذہن میں لائیں۔ ایک وہ جو ایک مخصوص وقت میں استعمار کے دسترخوان پر موجود ہوتا ہے۔ اور دیگر وہ گروہ جو استعمار گرد کے دروازے پر قطار بند اپنی باری کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ یہ منتظر شراکت کار استعمار گرد کی بجائے دسترخوان پر لقمہ توڑنے والے کو اپنا دشمن قرار دے کر سارا زور اسے دسترخوان سے بے دخل کرنے پر لگادیتے ہیں۔۔۔ نتیجہ استعمار گرد کی مسلسل کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔
شراکت کاروں کے ان اوصاف کو ذہن میں رکھیے اور پاکستان کی موجودہ صورتحال پر غور فرمائیے۔
پاکستان فوج استعمار گرد کی اوپر بیان کردہ چاروں اوصاف سے متصف ہے۔۔ پاکستان کی اقتصادیات، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، اور سماجی گروہوں کی تشکیل اور ان کے اختلافات کو فوج نے کمال کامیابی سے چلایا ہے۔ کم ازکم گزشتہ 50 سالوں کی تاریخ سے سینکڑوں مثالیں اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں۔۔ لیکن شراکت کاروں کے کردار کا تعین ہونا شاید ابھی باقی ہے۔ مختصرا چار گروہوں کی نشاندہی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔ ان گروہوں کے بیان سے قبل استثنیٰ کو پیش نظر رکھنے درخواست ذہن میں رکھیے گا۔۔۔۔۔ پاکستان کے سیاستدان، مذہبی علماء، صحافی اور دانشور۔۔۔۔ اگر پاکستان میں فوج کے ساتھ ان چار گروہوں نے مختلف اوقات میں مختلف سطح کی شراکت کاری نہ کی ہوتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ اور معاشی صورتحال شاید نہیں یقیناً مختلف ہوتی۔ اس طالبعلم سے دوست پوچھتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں عام آدمی کیا کرے۔۔۔ میں مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ پاور سینٹرز پر نظر رکھیے۔ اس کے شراکت کاروں کو پہچانیں۔ ان دونوں سے فاصلہ رکھنے کا فیصلہ اور اس فیصلے کا برملا اور عملاً اعلان کیجیے اور ان دونوں کو اپنی ہمدردی اور حمایت سے عاق فرمائیے۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply