خط ..بنام ننھے فرشتے

یہ خط جب تم کو ملے تو جان لینا کہ میں اب عازم سفر ہوئی. تم سوچ رہے ہو گے کہ یہ کیسا سفر ہے جس کے لیے میں نے نہ ٹکٹ خریدا اور نہ کوئی سامان ساتھ لیا، تو میری جان یہ سفر بس اس دیس کا ہے جہاں مجھے اب ہمیشہ رہنا ہے.لیکن تم پریشان نہ ہو۔ میں تم سے ملنے آتی رہوں گی۔ جب جب تمھیں میری ضرورت محسوس ہوئی،تم مجھے اپنے بہت قریب پاؤ گے.

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب تم پہلی مرتبہ ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ لاہور کینٹ کا بڑے بڑے دالانوں اور اونچی اونچی چھتوں والے کمروں، پھولوں سے بھرا باغ اور وہ امرود کا درخت جس کے گدرے گلابی گلابی امرود، امی کا کچن گارڈن، اور ہمارا لال لال ٹماٹر چرا کر،نمک لگا کر مزے لے لے کر کھانا،گرمیوں کی دوپہروں میں باغ کے سب سے گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر گھنٹوں کہانیوں کی کتابیں پڑھنا اور ایک دوسرے کی املا کا مذاق اڑانا. تم بہت ہی سیدھے اور شریف سے لڑکے تھے۔ اور ایک میں تھی اپنے سب بہن بھائیوں میں آفت کی پر کالہ مشہور۔ ایک منٹ بھی نچلا نہ بیٹھتی تھی۔ سب کہتے تھے کہ مجھ میں کسی نے بجلی بھر دی ہے۔ میرا نام ایسے بگاڑا جاتا۔ کوئی چار سو چالیس وولٹ کہتا تو کوئی جلے پیر کی بلی۔ پر مجھے کب کسی کی پروا تھی.

دن رات ایک نہ ختم ہونے والا ایڈونچر تھے میرے لیے۔ پتہ نہیں یہ اتنی بےچینی، بے کلی کیوں تھی میری سرشت میں؟ کوئی ایسی تلاش تھی جو مجھے سکون سے بیٹھنے نہ دیتی تھی. تم اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت کے سمندر لیے میرے سنگ دوڑے چلے جاتے، جب کبھی میری کسی شرارت کی وجہ سے دادا حضور کے سامنے پیشی ہوتی توتم ہمیشہ میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیتے حالانکہ اندر ہی اندر تمھارا وجود دادا جی کے رعب سے کانپ رہا ہوتا۔ ایسے میں مجھے تم پر بہت پیار آتا۔

کیریوں کی پہلی فصل خوب مزے لے لے کر کھائی جاتی . دادا حضور کی چھڑی کبھی جو ہاتھ آجاتی تو باقاعدہ سب کی کلاس لیتی اور ان کے لہجے کی خوب نقل اتاری جاتی۔ بھیا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے اور آپی منہ میں دوپٹہ ٹھونس کر ہنسی سے بے حال ہوتیں۔ ایسے میں تمھارے چہرے پر ہنسی اورتحیر کے ملے جلے تاثرات ہوتے اور اگر دادا حضور کہیں سے وارد ہو جاتے تو سب ایک دم ہی خاموش ہوجاتے اور میں اپنی دھن میں ان کی نقل اتارتی رہتی یہاں تک کہ وہ مجھے کان سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے جاتے. ان کی عدالت میں میں کبھی نہیں ڈری کیونکہ وہ ہمیشہ میری شرارتوں پر اندر ہی اندر مسکراتے تھے اور میری خاصی خاطر مدارت ہوتی سب کو دکھانے کے واسطے۔ گاؤ تکیے کو ان کے بید سے دھنک کر رکھ دیا جاتا. دروازے کے باہر کھڑے سب بچوں کی سٹی گم ہوتی اور میں کوئی ایک گھنٹہ بعد فخر سے برآمد ہوتی. سب پر ایک فاتحانہ نظر ڈالتی. اب کسی کو کیا پتہ کہ اس سارے ڈرامے میں دادا حضور میرا ساتھ دیتے تھے اور میں مزے سے بیٹھ کر ایک کونے میں چاکلیٹ سے لطف اندوز ہوتی.

چھٹیوں کے دن بھی ایسے ہی پر لگا کر کہیں اڑ جاتے۔ تمھاری واپسی کا وقت آ جاتا اور میں اس دن امرود کی سب سے اونچی شاخ پر چڑھ کر بیٹھ جاتی۔ سارے گھر میں میری ڈھنڈیا پڑ جاتی لیکن رات کے بڑھتے سائے ہی مجھے وہاں سے واپس آنے پر مجبور کرتے۔ الوداع کہنا میرے لیے بہت ہی اذیت ناک ہوتا تھا۔ بس مجھے خوشگوار لمحات کو سینت سینت کر رکھنا ہی پسند تھا۔ تم بار بار مڑ کر دروازے کی طرف نظریں دوڑاتے،کہ شاید میں کسی دروازے کے پیچھے سے نکل آؤں.

بچپن کے دن جیسے پر لگا بہت جلدی ہی اڑ گئے اور تم پڑھنے کے لیے ملک سے باہر چلے گئے۔ میری سیمابی طبیعت میں بھی کافی ٹھہراؤ آ گیا تھا. دن مہینے سال گزرتے گئے اور ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے.

پھر اچانک جب میں ایم اے کے آخری سال میں تھی تو تمھارے واپس آنے کی خبر آئی. گھر میں ایک جشن کا سا سما ں تھا۔ خوب تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میری یادداشت کے پردے پر ایک دھندلا سا عکس اب بھی موجود تھا. تم سے مل کر وہ عکس پھر سے روشن ہوگیا. پھر سے وہی رونق وہی محفلیں، لگتا ہی نہیں تھا کہ اتنے سال ہمارے درمیان کوئی رابطہ نہیں رہا. تم نے وہیں شادی کرلی تھی۔ نبھ نہ سکی تو واپس لوٹ آئے.کبھی کبھی خرد کی آنکھ بھی محبت کو پہچان نہیں پاتی.

بزرگوں نے میرے پیروں میں شادی کی بیڑیاں ڈال کر مجھے دیس نکالا دے ڈالا۔ میں بھی ایک سزا یافتہ مجرم کی طرح ا سی زنجیر میں بندھی کشاں کشاں کھنچی چلی آئی۔ یہاں آکر علم ہوا کہ مٹی سے رشتہ توڑنا کتنا جان لیوا عمل ہے۔ میری ذات کئی خانوں میں بٹ گئی اور میں ایک ریزہ ریزہ ہوتی کانچ کی گڑیا کی طرح خود کو بکھرتا دیکھتی رہی. یہاں کی سرد فضا نے جذبوں کو بھی سرد کر دیا تھا۔ ماہ و سال بس سورج کی گردش اور رات دن کے پھیرے بن گئے۔ پھر تم آسمانوں سے اتر کر میری گود میں آ گئے.

آج میں یہ خط لکھ رہی ہوں تو صرف اس لیے کہ میرے ننھے فرشتے،تمھیں چھوڑ کر جانا میرا فیصلہ نہیں ہے. تم میرے لمس، میری محبت کو پہچان گئے تھے، تمھارے ننھے ننھے ہاتھوں کا لمس مجھے ایک بار پھر سے زندہ کر گیا تھا.

یہ ٹھنڈے جذبے میرے دل کے الاؤ کو سرد تو نہ کر سکے لیکن میرے جسم کو دیمک ضرور لگا گئے. آج بہت ہی روشن دن ہے ،سورج کی تمازت اپنے چہرے پر محسوس کر کے اپنوں کی یاد آگئی. وہ گھر، وہ لوگ جو اب صرف ایک دھندلی سی یاد بن کر رہ گئے ہیں۔

کمبخت یہ مرض بھی ناں! ہڈیوں کے گودے تک کو نچوڑ لیتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کیموتھراپی امید کی نئی کرن ہے اور میں کہتی ہوں کہ کہ ایسی امید کا کیا کروں گی جب میرے جسم کا سارا عرق نچوڑ لیا جائے گا، چہرے پر پیلاہٹ، جسم پر نیلاہٹ، اور سر بالوں سے خالی، آنکھوں کی جگہ دو بجھتے ہوے دیے. اتنی خوبصورت تو میں کبھی بھی نہیں تھی!!

جب تمھیں یہ خط ملے گا تو میں اپنے آخری سفر پر جا چکی ہوں گی.تم اداس نہ ہونا۔ میں ملنے آتی رہوں گی۔ میرا ہر پل، ہر لمحہ تمھارے ننھے سے وجود کا ہالہ کیے رہے گا.

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیشہ سے تمھاری ماں!

Facebook Comments

فرحین جمال
قلمی نام : فرحین جمال تاریخ پیدایش : 31 دسبر . لاہور ،پاکستان . تعلیم : بیچلر ز ان سائنس ، بیچلرز ان ایجوکیشن ، ماسٹرز ان انگلش ادب پیشہ : درس و تدریس . خود ہی خیر آباد کہہ دیا پہلا مطبوعہ افسانہ : ' کھیل ' ثالث 2013، "رجو ' 2015 شمع دہلی، 'رجو '2015 دبستان ادب ، "آنگن "2014 ثالث ، "وقت سے مسابقت " سنگت 2016، "سرد موسموں کے گلاب " ثالث فکشن نمبر2016، ""سرخ بالوں والی لڑکی ' سنگت 2016 ، "دیوی " 2016 ، افسانے جو مشہور ہوے " میں کتاب "نقش پائے یوسفی" میں ایک تحریر شامل ،ابھی زیر طبع ہے افسانوی مجموعہ ، سال اشاعت ابھی تک کوئی بھی نہیں ..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply