کتھا چار جنموں کی۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط42

ایڈیٹر نوٹ:یہ اب تک کے  غیر مطبوعہ خطوط ہیں جو ڈاکٹر صاحب کی مکالمہ سے محبت کی وجہ سے پہلی بار مکالمہ کے پلیٹ فارم سے پبلش کئے جارہے ہیں ۔ہم ڈاکٹر صاحب کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔

وزیر آغا(مرحوم) کے کچھ خطوط۔(۱)

(نوٹ) وزیر آغا (مرحوم) کے ساتھ میری خط وکتابت تین سے چار دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ”اوراق“ کی اشاعت شروع ہونے کے بعد میں نے باقاعدگی سے اس میں لکھنا شروع کیا۔ ابتدائی دو تین شماروں سے ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ مرحوم و مغفور کو میرے خطوط کا انتظار رہتا ہے۔ ایک مکتوب میں انہوں نے یہ بھی تحریر کیا …”آپ کے خطوط ذہنی سطح پر مجھ سے مکالمہ کرتے ہیں۔ انڈیا کے احباب میں سے صرف آپ کے اور بلراج کومل کے خطوط سے ہی کچھ سوچنے،سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے…“۔ اب میں نے اپنے پرانے کاغذات سے اٹھارہ خطوط نکال کر الگ کر لیے ہیں کہ ان میں نہ صرف حالیہ ادب کے بارے میں مرحوم کے ارشادات کے قیمتی موتی بکھرے ہوئے ہیں.، بلکہ ان کے ایک All-faith man ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں۔۔۔میں کوشش کروں گا کہ ان میں سے بھی احتیاط کے ساتھ چُن چُن کر کچھ گوہر ِ نایاب نکال سکوں۔ البتہ متن میں مشمولہ غیر متعلق مواد کو حذف کرتا رہوں گا۔ (کچھ خطوط پر تاریخ کا اندراج نہیں ہے، یا مجھ سے پڑھا نہیں جا سکا، میں انہیں اسی طرح پیش کر رہا ہوں)۔ستیہ پال آنند


کتھا چار جنموں کی ۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط41

۱۲ِ جون۱۹۹۰ٗ
ستیہ پال آنند جی:
آپ کے لیے ایک نظم لکھی ہے، جسے میں اپنی مجوزہ کتاب  “دستک اس دروازے پر“ میں بطورپیش لفظ شامل کرنا چاہتا ہوں۔آپ سے فون پر یہ بات تو طے ہو ہی چکی ہے، کہ یہ کتاب ایک مکالمے کی شکل میں ہو گی، جس میں دو کردار ہی ہوں گے۔ Me اور Not me یا انہیں   ”میں“ اور ”تُو‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب آپ کے ہی ایما پر لکھی جا رہی ہے اور اس کا ڈھیلا ڈھالا تانا بانا جو آپ نے تجویز کیا ہے اس لیے اس میں وہی طریق کار استعمال کیا جائے گا جو کرشن جی بھگوان اور ارجن کے مابین ”مہابھارت“ کے ایک باب کی طرح بھگوت گیتا“ میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ مکالماتی انداز دقیقی فکری مسائل کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کا بہترین طریق کار ہے۔آپ اپنے مجوزہ پروجیکٹ یعنی مہاتما بدھ کے ساتھ ڈایئلاگ کی شکل میں پیش کر رہے ہیں،اس کی کچھ نظمیں آپ کی کتاب ”دست برگ“ میں شامل ہو چکی ہیں، جن میں اس کے دو چیلے، یعنی آپ کے ہمنام آنند اور کشیپ مہاتما بدھ سے سوالات پوچھتے ہیں اور وہ اِن کا جواب دیتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے طریق ِ کار اور میرے … یا میرے اور بھگوت گیتا کے طریق ِ کار میں یہ فرق رہے گا، کہ میں اسے بعین و عیاں ”گفتگو“ کی صورت میں پیش کروں گا، جس میں دونوں فریقین برابر کی چوٹوں سے ایک دوسرے کے وار سہیں گے، جبکہ آپ کا طریق کار، یعنی بدھ کے چیلوں کا اس سے سوالات پوچھنے کا ڈھنگ یک طرفہ ہے اور یہی ڈھنگ بھگوت گیتا میں بھی ہے، جہاں صرف ارجن ہی سوال پوچھتا ہے۔ ان دو نوں کو الگ الگ دیکھنے کے لیے آپ اگر انگریزی الفاظ ”انٹرویو“ اور ”ڈائیلاگ“ استعمال کریں تو موزوں رہے گا۔ بھگوت گیتا اور آپ کے تحریر کردہ مہاتما بدھ کے ساتھ اس کے چیلوں کی بات چیت مکالمہ کا فارمیٹ نہیں ہے، انٹرویو کا ہے۔۔ جبکہ میں اپنے ذہن میں تلواریں سونت کر کھڑے ہوئے اپنی ہی شخصیت کے دو پُتلوں کو ترکی بہ ترکی سوال و جواب میں اس طرح ملوث کرنا چاہتا ہوں کہ قاری بھی ان میں کبھی ایک کے ساتھ اور کبھی دوسرے کے ساتھ خود کو نتھی کر لے۔تو لیجیے، پہلے یہ نظم دیکھیے۔

یہ دستک سی کیا ہے
ہر اک لمحہ ۔۔۔۔ دستک
یہ دن رات اور ماہ و سال اور صدیاں
سبھی دستکیں
میرے سینے کی دھڑکن بھی دستک
ہو ا۔۔۔۔۔ رات بھر دستکیں دے کے
سوئے ہوؤں کو جگائے
یہ پھیلی ہوئی…. اپنے اندر بھی، باہر بھی
چاروں طرف بے محابا بکھرتی ہوئی
چاندنی…. جس کو مٹھی میں اپنی چھپائے
آسماں کا سیہ بھاری در کھٹکھٹاتی
خموشی کے ریزوں کو چن چن کے جھولی میں بھرتی
ازل اور ابد میں تنے اک بھیانک اندھیرے کی چادر میں محبوس
قرنوں کی آنکھیں جھپکتی ہوئی
بے ثمر، بے نتیجہ سی دستک کی آواز میں
غرق ہوتی ہوئی ۔۔۔۔

ڈاکٹر وزیرآغا

یہ نظم جو میں نے نہ صرف آپ کے لیے لکھی ہے بلکہ اب اس کو اپنی کتاب کے ”پیش لفظ“ کے طور پر بھی استعمال کرنے کی ٹھان لی ہے، اس کا براہ راست رشتہ میری ایک اور نظم سے ملتا ہے جو کئی برس پہلے خلق ہوئی تھی۔ یہ نظم ”سمندر اگر میرے اندر گرے“ کے زیر عنوان ”اوراق“ میں شامل اشاعت ہوئی تھی اور اس میں بھی ”ہونے، نہ ہونے“ کی گردان میں ایک سے دوسرے تک اور پھر واپس پہلے تک ایک ہی زندگی میں اربوں کھربوں چکروں کے سلسلے کو پاٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایک ستانزا تھا:
یہ ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت بھی کیا ہے
نگاہیں اٹھاؤں تو حد ِ نظر تک
ازل اور ابد کے ستونوں پہ باریک سا ایک خیمہ تنا ہے
(”نہ ہونے“ کا یہ روپ کتنا نیا ہے!)
اور خیمے کے اندر
کروڑوں ستاروں کا میلہ لگا ہے
(یہ ”ہونے“ کا بہروپ لا انتہا ہے!)

ستیہ پال آنند جی: آپ تو انگریزی، اردو اور ہندی کے علاوہ فارسی، عربی اور سنسکرت بھی جانتے ہیں۔ میں کوشش کے باوجود سنسکرت نہیں سیکھ پایا اس لیے ان گرنتھوں کو جو مجھے اصل بھاکھا میں پڑھنے چاہیئے تھے، نہیں پڑھ سکا لیکن ان کے بارے میں نا بلد ِ محض نہیں ہوں۔ اس لیے بغیر کسی پس و پیش کے مجھ سے دھرم گرنتھوں کے بارے میں بات چیت کریں۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ سوتے سوتے کئی بار جاگ اٹھتا ہوں۔اپنے محدود ذہن سے ہی آفاقی ذہن پر دستک دینے کی کوشش کرتا ہوں لیکن دوسری طرف اس کے جواب میں کبھی تو مکمل سناّٹا اور کبھی ایک واضح دستک بھی سنائی دی ہے۔ اسے پوری طرح سننے میں کیا آپ میری مدد فرمائیں گے؟

رات بھر اک صدا
تیز تلوار کی دھار ایسی صدا
قطرہ قطرہ مرے خون میں
پگھلے سیسے کی مانند گرتی رہی
میری رگ رگ میں گھُل کر بکھرتی رہی
اور بپھرے ہوئے تند ذرّوں کی صورت
مرے جسم میں دوڑتی، جھم جھماتی پھری۔
صبح ہونے کو ہے
کوئی دم میں
یہ زخموں بھری گرم چادر
اُجالے کے صابن میں دھل کر نکھر آئے گی

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ”کوئی دم“ کب آئے گا؟ اس کا میں کیا جواب دے سکتا ہوں؟
مخلص
وزیر آغا
(خطوط کی اشاعت کا یہ سلسلہ جاری ہے)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply