بے خوابی ، کب کیوں کیسے۔۔۔۔ حمزہ سلیم

Insomnia, When, Why, How
پتا نہیں مجھے نیند کیوں نہیں آتی؟
یہ تھوڑی سی نیند کے بعد میں پوری رات جاگتا کیوں رہتا ہوں
ہائے توبہ، پتا نہیں کب نیند آئے گی؟
ہم میں سے اکثر لوگ رات کو ایسی باتیں سوچتے رہتے ہیں
آج کل کا دور مشینی دور ھے، ہماری زندگی اتنی مصروف ہے کہ شاید ہی ہمیں پتا ہو کہ آج سورج نکلا تھا یا نہیں؟ جیسے جیسے انسانی مصروفیات بڑھتی جا رہی ہیں انسانی سوچیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور انہی انسانی سوچوں کے ملاپ سے ایک منفی عمل جنم لیتا ہے جس کو ہم ‘بے خوابی’ ، ‘نیند کا نہ آنا’ یا ‘نیند کا روٹھ جانا’ کہتے ہیں
ہمارے ملک پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے خوابی جیسے دماغی مرض کا شکار ہیں
آج کے انسان کی زندگی بہت آسان ہو گئی ہے لیکن سکون قلب اور دماغی سکون انسان سے کوسوں دور چلا گیا ہے، ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم کھڑے ہو کر کسی کھلتے ہوئے پھول کو دیکھ سکیں یا کسی خوبصورت نظارے سے خود کو خوش کر سکیں
انسانی سوچوں کی یلغار، منفی خیالات و جزبات، کام یا نوکری کی پریشانیاں، حسد، طمع، پیسے کی لالچ نے انسان سے اسکا سکون چھین لیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمیں بے خوابی جیسا تحفہ دیا ہے
پڑھائی کی ٹینشن، بیوی بچوں کے اخراجات، بیماری کا خرچہ، بے روزگاری، معاشرتی نا انصافی، بے حسی، بے انصافی، پیسہ کمانے کی حوس، شہرت کی حوس، کاروبار کی پریشانیاں، شادی کےمسائل، جسمانی بیماریاں، محبت کا ہونا یا محبت میں ناکامی وغیرہ جیسے عناصر نے بے خوابی کو بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پورا دن محنت مزدوری کر کے ایک مزدور شام کو تھکا ہارا گھر آتا ہے اور بڑی طمانیت اور راحت بھری نیند سوتا ہے مگر حالات اس کے برعکس معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس کو گھریلو پریشانیاں پوری رات بے خوابی میں کروٹیں بدلنے پر مجبور کردیتی ہیں
کچھ لوگ بے خوابی کو ختم کرنے اور پر سکون نیند کے لیے نشہ آور ادویات یا Anti-Depressants لیتے ہیں جس سے وقتی طور پر تو نیند آ جاتی ہے لیکن خود کار اور غیر مستند طریقہ علاج سے آہستہ آہستہ وہ لوگ ان ادویات کے عادی ہو جاتے ہیں اور بہت سے جسمانی اور دماغی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مستند طریقہ علاج میں کچھ عرصہ کے لیے بطور علاج نشہ آور ادویات دی جاتی ہیں لیکن وہ بھی ماہر نفسیات یا مستند ﮈاکٹر دیتے ہیں
شدید قسم کی مختلف متضاد سوچیں یا کسی خاص صدمے کی یاد بھی انسان کو نیند سے کئی میل دور لے جاتی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق کسی کی یاد یا کسی خاص صدمے کی وجہ سے لوگوں کو یا تو بلکل ہی نیند نہیں آتی یا پھر کچھ دیر نیند آنے کے بعد وہ لوگ جاگ جاتے ہیں اور پوری رات نیند آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں
کچھ لوگ شوقیہ بھی راتوں کو جاگتے ہے، یہ بات درست ہے رات کے وقت راحت، طمانیت و سکون کا احساس ہوتا ہے لیکن انسان پر اسکی نفسیاتی اور جسمانی ضروریات کا بھی حق ہے۔ انسان کی جسمانی ضروریات بھی انسانی نشوونما اور بقا کے لیے بہت ضروری ہیں کچھ لوگ راتوں کو جاگ کر نئے خیالات آنے یا مسائل کے حل کے لیے غور و فکر کرتے ہیں۔
کسی چیز کی حوس یا کسی شخص سے حسد بھی انسان کو گہری سوچوں میں لے جاتا ہے جس سے انسان کا دماغ منفی خیالات پکڑ کر اپنی صلاحیتوں کا ستیاناس کر دیتا ہے اور انسان کی مثبت خیالی دم توڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ بے خوابی کے نقصانات بہت زیادہ ہیں جس کے لیے بروقت علاج بہت ضروری ہے۔

آج کے اس جدید دور میں بہت سے ایسے سائنسی طریقے آچکے ہیں جو انسان کو بہترین اور راحت بھری نیند کے قابل بنا دیتے ہیں
اس لیے ضروری ہے کہ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کیا جائے اور اسکا بروقت علاج کروایا جائے. اس کے علاوہ کوشش کی جائے کہ ہمیشہ اپنی سوچ کو مثبت اور تعمیراتی کاموں میں خرچ کیا جائے اور پریشانیوں اور دکھ تکلیفوں کو صبر سے برداشت کیا جائے.

Advertisements
julia rana solicitors london

بہترین اور دیرپا نیند لانے کے لیے درج ﺫیل باتوں کو یقینی بنایا جائے
۔ اپنے سونےکے کمرے میں تیز لائٹیں نہ ہوں، درجہ حرارت نارمل ہو، بستر ملائم ہو، کوئی شور شرابہ نہ ہو اور سونے کے کمرے میں کمپیوٹر یا ٹی وی نہ ہو،، بیڈ روم کو صرف سونے کے لیے مختص کیا جائے۔
سونے سے قبل ہلکے پھلکے کام کیے جائیں جیسے ہلکا میوزک، مطالعہ وغیرہ۔
اگر آپ کو نیند نہیں آرہی تو اپنے آپ کو بستر سے نہ چپکائے رکھیں، باہر چلے جائیں تازہ ہوا لیں، کچھ ورزش کر لیں، ہربل چائے پیئیں، مطالعہ کر لیں۔ پھر جب آپ کو نیند آنے لگے تو واپس آ کر سو جائیں یوگا، مراقبہ اور لمبی سانس کی ٹکنیکس بھی انسان کو آرام دہ کر دیتی ہیں اور نیند آ جاتی ہے
مختلف جسمانی مشقوں، عبادات اور خوراک میں تبدیلی سے بے خوابی دور ہو سکتی ہے اس سلسلے میں کسی ماہر ﮈاکٹر یا ماہر نفسیات سے بھی رجوع کیا جائے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply