انجامِ کائنات اور ممکنات …محمد شاہ زیب صدیقی

ابھی سو سال پہلے ہی کی تو بات ہے کہ ہم کائنات کو ساکن تصور کرتے تھے، اسی خاطر سائنسدان اس کے ہمیشہ رہنے کے قائل بھی تھے مگر دینِ اسلام اس معاملے میں سائنس کی نفی کرتا دِکھائی دیتا تھا لیکن کسی نے ٹھیک کہا کہ وقت بہت بڑا استاد ہوتا ہے، وقت نے پوری دنیا کو بتایا کہ اسلام سائنس کے مقابلے میں دُرست ثابت ہوا۔ آئن سٹائن ایک عظیم سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی آدمی بھی تھا، چونکہ نظریہ اضافت کی رُو سے بھی کائنات ساکن نہیں ہوسکتی تھی جس وجہ سے آئن سٹائن کافی بےچین رہتا تھا۔ آئن سٹائن نے اپنی اس بے چینی کا اظہار نظریہ اضافت میں Cosmological constantکو شامل کرکے کیا۔ مگر نظریہ اضافت کے چند ہی سال بعدایڈون ہبل نے اپنی عظیم فلکیاتی دُوربین کے ذریعے ثابت کیا کہ ہماری کائنا ت ہمہ وقت پھیل رہی ہے ۔اس دریافت نے جیسے ہماری دُنیا ہی بدل دی اور فلکیاتی تحقیقات کو نیا رُخ مل گیا۔اسی دریافت کے باعث ہمیں کائنات کی “پیدائش” کے متعلق بھی “کچھ کچھ”سمجھ آنا شروع ہوگیا ۔آج تقریباً تمام سائنسدانوں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ ہماری کائنات کا آغاز انفجارِعظیم (بگ بینگ) سے ہوا۔ بیگ بینگ کے متعلق آج ہم کافی کچھ جان چکے ہیں، لیبارٹری اور سپر کمپیوٹر میں اس کی simulation بھی کرچکے ہیں جس سے یہ نظریہ حقیقت کے قریب تر بھی ثابت ہواہے(بگ بینگ سے متعلقہ تفصیلی مضمون کا لنک)

https://www.mukaalma.com/13924

۔یہ قانونِ فطرت ہے کہ جہاں “پیدائش” کا ذکر ہو وہاں “اختتام” کا بھی ذکر جُڑ جاتا ہے۔ کائنات میں موجود عظیم ستارے بھی آخر کار اپنی “طبعی عمر” گزار کر ایک دن موت کے منہ میں چلےجاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر یہ خیال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ اگر ہر شےکا اختتام موجود ہے تو یقیناً ہماری کائنات کا بھی کوئی نہ کوئی اختتام ہوگا۔اس سوال کے باعث پیدا ہونے والی تشنگی کو ختم کرنے کے لئے سائنسدانوں نے مختلف تحقیقات کیں اور کچھ نئے نظریات سائنسی میدان کی زینت بنے۔ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا سورج جس کہکشاں کا حصہ ہے اسے ہم “ملکی وے” کہتے ہیں، ملکی وے جیسی تقریباً 52 کہکشائیں مل کر ایک گروپ بناتی ہیں جسے ہم لوکل گروپ کہتے ہیں، ہماری کائنات میں ایسے اربوں لوکل گروپ موجود ہیں۔سو جب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے اور تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دُور جارہی ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ تمام لوکل گروپس ایک دوسرے سے دُور ہورہے ہیں۔ اس کی مثال ایسے لیجئے کہ ہمارے لوکل گروپ میں موجود 52 کہکشائیں کشش ثقل کے باعث ایک دوسرے کے قریب آتی جارہی ہیں اور تقریباً 2 کھرب سال بعد یہ تمام کہکشائیں ضَم ہوکرایک بہت عظیم کہکشاں بنا لیں گی (ہمارے لوکل گروپ میں موجود تمام کہکشاؤں کے تصادم کے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک )۔

https://www.mukaalma.com/25847

لیکن اسی دوران ہمارے لوکل گروپ کے باہر موجود دیگر کہکشائیں ہم سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ جب بیگ بینگ کا واقعہ ہوا تو یہ تمام کائنات ایک نقطے میں یکجا تھی سو کائنات کا درجہ حرارت لامتناہی حد تک زیادہ تھا لیکن جیسے جیسے کائنات پھیل رہی ہے اس کا درجہ حرارت کم ہوتا جارہا ہے آج اس کا درجہ حرارت منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، لیکن اگر یہ یونہی پھیلتی رہی تو ایک وقت آئے گا کہ اس کا درجہ حرارت منفی 273 ڈگری سینٹی گریڈ (Absolute Zero) ہوجائے گا اور کائنات میں ستارے بھُج جائیں گے اور مزید ستارے بننے کا عمل ختم ہوجائے گا اور یہ کائنات ٹھنڈی ہوکر جانداروں کے رہنے کے لائق نہیں رہے گی سو نئے ستارے نہ بننے کے باعث بلیک ہولز کا اس کائنات پر راج قائم ہوجائے گا، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، اس دور کو ہم Dark Era کے نام سے بھی جانتے ہیں، اس دوران بھی کائنات پھیلتی رہے گی آہستہ آہستہ بلیک ہولز بھی ہاکنگ ریڈیشن کے باعث ختم ہوجائیں گےیوں کائنات میں توانائی ہی رہ جائے گی لیکن توانائی کی کثافت اس حد تک کم ہوگی کہ اس سے کوئی نئی چیز وجود میں نہیں آسکے گی، ہماری کائنات تاریکی کا شکار ہوجائے گی عجب خوفناک احساسِ تنہائی ہوگا،اس نظریے کو فلکیات میں Big Freeze کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابھی 20 سال پہلے ہمیں معلوم ہوا کہ کائنات کے expand ہونے کی رفتار میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا ہےاس کی بڑی وجہ ڈارک انرجی ہے ،ڈارک انرجی ہماری کائنات کو پھیلانے کا کام کرتی ہے جبکہ ڈارک میٹر نامی پرسرارمادہ ستاروں کو کہکشاؤں میں اکٹھارکھے ہوئے ہے(ڈارک انرجی  اور ڈارک میٹر کے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے)

https://www.mukaalma.com/26893

https://www.mukaalma.com/27381

۔ جدید سائنسی تحقیقات کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تقریباً5 ارب سال پہلے ڈارک میٹر ،ڈارک انرجی پر حاوی تھا مگر پھر ڈارک انرجی نے اس پر سبقت حاصل کرلی۔اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم سب ایٹمز سے ملکر بنے ہیں اور ایٹمز میں ویک اور سٹرانگ نیوکلئیر فورس موجود ہوتیں ہیں جو الیکٹران اور کوارکس جیسے کوانٹمی ذرات کو جوڑکر ایٹم بناتی ہیں۔سو سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ ڈارک انرجی نے جیسے 5 ارب سال پہلے ڈارک میٹر پر غلبہ حاصل کیا تو ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں ڈارک انرجی مادے پربھی غلبہ حاصل کرلے اگر ایسا ہوگیا تو الیکٹران اور نیوکلیون (پروٹان، نیوٹران) کے درمیان موجود خلاء بھی ڈارک انرجی سے پُر ہوجائے گی اور اگر ایسا ہواتو جس ڈارک انرجی کے تحت کہکشائیں ایک دوسرے سے دُور جارہی ہیں، اسی تاریک توانائی کے تحت کائنات میں موجود تمام مادے اور جانداروں کے ایٹمز پھٹ جائیں گے اور کائنات میں کوئی بھی مادہ باقی نہیں رہے گا اس نظریے کو سائنسدان Big Rip کا نام دیتے ہیں۔جہاں یہ دو نظریات دِل دہلا دیتے ہیں وہیں ایک اور نظریہ کچھ عرصہ قبل مقبول ہوا مگر جدید تحقیقات کے بعد اس کا امکان بہت ہی کم ظاہر کیاگیا۔ اس نظریے کے ماننے والے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کائنات کا پھیلاؤ ایک ممکنہ لمٹ تک پہنچ کر ختم ہوجائے گا اس کے بعد کشش ثقل ،ڈارک انرجی پر حاوی ہوجائے گی اور کائنات جس نقطے سے شروع ہوئی تھی اسی جانب دوبارہ لوٹ جائے گی مگر 20 سال پہلے جب سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ دن بدن کائنات کے پھیلنے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے تو اس نظریے کو نظرانداز کردیا گیا۔اس نظریے کو فلکیات میں Big Crunch کے نام سے جانا جاتا ہے۔بگ کرنچ کے نظریے کو اگر سچ مان لیا جائے تو پھراسی کی extension کرکے ہمیں ایک اور ممکنہ نظریہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کےتحت جب کبھی Big Crunchوقوع پذیر ہوا تو پوری کائنات ایک نقطے کی جانب لوٹنا شروع ہوجائے جب اس نقطےمیں پہنچ کر بند ہوگی تو دوبارہ سے لامتناہی انرجی کے باعث وہ نقطہ پھٹےگااور بیگ بینگ وقوع پذیر ہوگا۔اس نظریے کے تحت بیگ بینگ اور بیگ کرنچ دراصل ایک چکر (cycle) ہے جو کائنات میں جاری رہتا ہے ہر اربوں سال بعد کائنات بنتی ہے اور ختم ہوتی رہتی ہے۔ اس نظریے کو ہم Big Bounce کے نام سے جانتے ہیں۔ان تمام نظریات کے علاوہ کچھ دہائیاں پہلے ایک اور نظریہ سائنسدانوں کے درمیان موجود تھا لیکن اسے اہمیت نہ دی گئی، مگر ہگز فیلڈز کی دریافت کے بعد اس کو بھی دیگر نظریات کی طرح اہمیت حاصل ہوگئی(ہگز فیلڈزکے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.mukaalma.com/29842
یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں ہر شے instability سے stability کی جانب گامزن رہتی ہے۔ اسی طرح فیلڈز ہمیشہ اپنی stability کے لئے High energy سے low energy کی جانب سفر کرتی ہیں۔ صرف سمجھنے کے لئے آپ مثال لے سکتے ہیں کہ جیسے اگر کمرے میں درجہ حرارت زیادہ ہوجائے تو کمرے کا دروازہ کھولنے پر درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوجاتا ہے، یعنی درجہ حرارت کی فیلڈز نے High energy سے low energy کی جانب سفر کیا۔ بالکل ایسے ہی ہگز فیلڈ تمام کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، کائنات میں تمام مادے کے بننے کی وجہ یہی ہگز فیلڈز ہیں اور سائنسدانوں کو شک ہے کہ یہ stable نہیں ہیں، سو ہگز فیلڈز نے Stable Higgs Fields بننے کی خاطر کائنات کےکسی حصے میںlow energy levelکی جانب سفر کرنا شروع کردیا تو کائنات کا نقشہ ہی بدل جائے گا اور کائنات ایک نئی شکل میں آجائے گی، لیکن اس تبدیلی کے دوران شدید ہلچل پیدا ہوگی جس کے باعث راستے میں آنے والی ہر شے تہس نہس ہو کر توانائی میں تبدیل ہوجائے گی۔ سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ ایسا کبھی بھی ہوسکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمل کائنات کے کسی گوشے میں شروع ہوچکا ہو، ہوسکتا ہے کہ آسمان پر ہمیں کروڑوں نوری سال دور موجود ستارے جو دِکھائی دیتے ہیں وہ اب اس کائنات میں موجود نہ ہو اور کائنات کے خاتمے کا شکارہوچکے ہوں، لیکن ہمیں معلوم نہ ہو کیونکہ ہم ان کا ماضی دیکھ رہے ہیں ان کی وہ حالت دیکھ رہے ہیں جو کروڑوں سال پہلے تھی اور اگر کائنات کے کسی کونے میں یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ہمیں لاکھ کوششوں کے باوجود معلوم نہیں ہوپائے گا کیونکہ کائنات میں کوئی بھی انفارمیشن روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کرسکتی، سو اس متعلق ہمیں تبھی معلوم ہوپائے گا جب “پانی سر پہ سے گزر جائے گا”۔اس نظریے کو ہمDeath Bubbleیا Vacuum Decayکے نام سے جانتے ہیں۔کچھ گروہوں کا یہ بھی قیاس ہے کہ ہماری کائنات ایک ربڑ بینڈ کی طرح ہے اور ایک خاص حد تک پہنچ کر پھٹ جائے گی اس نظریے کو Big Snap کے نام سے جانا جاتا ہے۔جدید تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ کوانٹم سطح پر ایک مظہر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے جس کو ہم Quantum Tunneling کہتے ہیں۔اس کے مطابق کوانٹمی ذرات سامنے رکھی رکاوٹ پر مسلسل ٹکراتے رہیں تو انہیں پار کرلیتے ہیں، جیسا کہ ہم اپنی سمجھا کہ ہماری کائنات میں ہگز فیلڈز موجود ہیں جن سے ہگز بوزون وجود میں آتے رہتے ہیں اور ہگز فیلڈہی کائنات کو شکل دیئے ہوئے ہیں۔سواگر اس جہان میں ہماری کائنات کے علاوہ بھی دیگر کائناتیں وجود رکھتی ہوئیں تو یہ خدشہ ہے کہ کسی دوسری کائنات کے ہگز بوزون Quantum tunneling کے تحت ہماری کائنات میں داخل ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو instability کیوجہ سے کائنات کا خاتمہ ہوسکتا ہے ، لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایسا واقعہ ہونے کا چانس کھربوں کھربوں سالوں بعد ہی ممکن ہے۔اس نظریے کو Big Slurp کے نام سے جانا جاتا ہے۔بہرحال نظریات جو بھی ہوں ایک بات تو طے ہے کہ کائنات کا اختتام ہونا ہے۔ہماری خوبصورت کائنات کو بھی ایک دن “موت کا ذائقہ”چکھنا ہے۔ بہرحال اس تناظر میں کہا جاتاہے کہ 40فیصد چانس ہے کہ کائنات کا اختتام Big Freeze کے ذریعے ہو، 5 فیصد چانس ہے کہ کائنات کا اختتام Rig Ripکے ذریعے ہو اور 5 فیصد چانس ہے کہ کائنات کا اختتام دیگر بتائے ہوئے طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے ہو لیکن 50 فیصد چانس ہے کہ کائنات کا اختتام ایسے طریقے سے ہوگا جس کی ہمیں خبر تک نہیں ہوگی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انجامِ کائنات اور ممکنات …محمد شاہ زیب صدیقی

Leave a Reply