• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چوراں نوں فیر پھڑ لاں گے, لیکن ابھی صرف کورونا۔۔۔محمد اسلم خان کھچی

چوراں نوں فیر پھڑ لاں گے, لیکن ابھی صرف کورونا۔۔۔محمد اسلم خان کھچی

پوری دنیا نے کورونا کو اپنا مہمان بنا رکھا ہے۔ ہم بھلا پیچھے کیسے رہ سکتے تھے کیونکہ ہم تو ازل سے بڑے مہمان نواز ہیں۔
میں کورونا پہ بہت کچھ لکھ چکا ہوں، لیکن بہت سے دوستوں نے گلہ کرنا شروع کر دیا کہ آپ بہت ڈرا رہے ہیں تو میں نے ذرا” ہتھ ہولا ” رکھ لیا۔
17 مارچ کے کالم میں جب حکومت پاکستان نے 450 مریض ڈیکلیئر کیے تھے تب میں نے 12000 کیسز کا ذکر کیا تھا۔
اب بھی اگر دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کی وسعت پہ نظر ڈالی جائے تو اس وقت پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد تیس سے پینتیس لاکھ ہونی چاہیے۔
اور یقیناً ایسا ہی ہے۔

کورونا پاکستان میں جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہی آگیا تھا جس نے بڑی تیزی سے لوگوں کو لپیٹ میں لیا۔ ہزاروں لوگ خشک کھانسی کا شکار ہوئے ,گلے خراب ہوئے, بخار ہوا لیکن ہم اور ہمارے ڈاکٹرز اسے موسمی بیماری سمجھتے رہے اور معمولی دواؤں سے ٹھیک بھی ہو گئے۔
دراصل وہ موسمی بیماری نہیں تھی۔ وہ کورونا ہی تھا جس نے ہم دوستوں میں سے بہت سے لوگوں کو لپیٹ میں لیا اور ہم لا علمی میں ٹھیک ہو گئے۔ میرے گمان کے مُطابق اس وقت پاکستان کے لاکھوں لوگ اس وبا کا شکار ہو کے ٹھیک ہو چکے ہیں۔

کسی بھی وبا سے نمٹنے کیلئے دو طریقے ہیں کہ یا تو مکمل کرفیو جیسا لاک ڈاؤن کر دیا جائے ،یا پھر لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے لیکن میرے خیال میں پاکستان جیسے ملک میں دوسرا آپشن بہتر ہے۔ ہم مکمل لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی لاک ڈاؤن کو مانتے ہیں۔ آپ لاک ڈاؤن کے دوران میں شہروں کا وزٹ کیجیے۔ آپکو لاک ڈاؤن نظر ہی نہیں آئے گا۔ لاک ڈاؤن تو دور کی بات 95 % لوگ ماسک تک استعمال نہیں کر رہے۔ اور اگر آپ نیویارک پہ نظر ڈالیں تو سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود روزانہ ہزاروں مریض آ رہے ہیں۔ ہزاروں مر رہے ہیں۔ فرانس اٹلی پورا یورپ لاک ڈاؤن میں ہے لیکن مریض بڑھ رہے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ثمرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
دوسرا طریقہ Herd Immunity کا ہے۔

جب کہیں وبا عام ہو جائے تو لوگوں کو ایک ریوڑ کی طرح کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جس کو لگنی ہے لگ جائے اور اگر یہ لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اس سے لاکھوں لوگ متاثر ہو کر  ٹھیک ہو چکے ہوں تو کوئی بھی وبا خودبخود دم توڑنا شروع کر دیتی ہے۔اسکی ٹرانسمشن رُک جاتی ہے۔میرے ذاتی خیال میں پاکستان میں یہ امیونٹی پیدا ہو چکی ہے۔ لوگ بآسانی اس کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 26 فروری کو امریکہ اور پاکستان میں رپورٹ والا پہلا کیس اور متاثرین میں لاکھوں کا فرق ہو۔۔۔ اور اموات کی شرح بھی دیکھ لیجیے۔
لیکن اچانک کل سے کراچی کے کچھ ڈاکٹرز میڈیا پہ آ کے شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کرو۔۔۔۔لاک ڈاؤن کرو۔۔
اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں اس پہ سیاست ہو رہی ہے۔ ہم پورا مہینہ لاک ڈاؤن کر کے دیکھ چکے ہیں لیکن اسکا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اگر وفاقی گورنمنٹ یا صوبائی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ہم لاک ڈاؤن سے اس بیماری پہ قابو پالیں گے تو وہ۔” احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں”
ہم کچھ بھی کر لیں۔۔۔ کورونا نے پھیلنا ہے لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینا ہے اور ہزاروں لوگ مر بھی سکتے ہیں۔ میری آپکی باری بھی آ سکتی ہے اور دنیا میں مرنے والوں تعداد ابھی لاکھوں میں ہے لیکن یہ کروڑوں تک بھی جا سکتی ہے۔
1918 میں آئے Spanish Flu نے اس وقت کی آبادی کے حساب سے دس کروڑ لوگوں کی جان لی تھی۔ 102 سال گزرنے کے باوجود بھی یہ وبا ابھی تک Swnie Flu
کے نام سے موجود ہے اور ہر سال ہزاروں لوگوں کی جان لے جاتی ہے۔۔۔
اب کورونا کا نہیں پتہ کہ یہ کتنے عرصے تک پاکستان میں رہتا ہے۔۔ ایک سال, پانچ سال, دس سال یا ایک صدی۔۔۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کتنا لاک ڈاؤن کر سکتے ہیں ؟
کیا ہم تین ماہ لاک ڈاؤن کر سکتے ہیں ؟
کیا ہم ایک سال لاک ڈاؤن کر سکتے ہیں ؟
آپ سالوں کو چھوڑیئے۔۔۔ حکومت صرف 6 ماہ لاک ڈاؤن کر کے دیکھ لے نتیجتاً آپ کو بھنبھوڑی ہوئی لاشیں سڑکوں پہ ملیں گی۔ بھوکا پیٹ یہ نہیں دیکھے گا کہ یہ قریشی ہے, یہ گیلانی ہے یا کوئی منسٹر۔۔۔۔۔ کورونا آپ کو خونی انقلاب کا تحفہ دے کے جائے گا۔۔۔۔
انقلاب فرانس کی مثال کو سامنے رکھیے ۔۔۔جب غریب باہر نکلے تو انکے پاس معافی کے صرف دو اصول تھے
وہ ہاتھ چیک کرتے تھے کہ اگر ہاتھ نرم ہیں تو مطلب یہ وسائل کا مجرم ہے اور دوسرا بنیان چیک کی جاتی تھی کہ پھٹی ہوئی ہے یا نہیں۔ بس یہ دو اصول۔ اور مجرم کو گھر میں ہی دروازے میں گردن پھنسا کے پھانسی دے دی جاتی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو assume کر لیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ لوگ صبر شکر کر کے پیٹ پہ پتھر باندھ کے چھ ماہ گزار لیں گے۔
اس کے بعد کیا ہو گا۔۔۔؟
معیشت کہاں کھڑی ہو گی ؟
مزدور مزدوری کرنے کہاں جائے گا۔ ۔۔؟
دوکان دار کپڑے کس کو بیچے گا۔۔
کسی بھی چھوٹے کاروباری آدمی کے پاس اتنے پیسے بچ جائیں گے کہ وہ اپنی دوکان دوبارہ چلا سکے ؟
کیا آپکی مارکیٹوں میں اسی طرح چہل پہل ہو گی ؟
کیا چھوٹی انڈسٹری اتنا بڑا بوجھ سہہ پائے گی ؟
کیا ہم قحط جیسی صورتحال سے بچ جائیں گے ؟
کیا ہم 6 ماہ یا ایک سال کے لاک ڈاؤن کے بعد بیروزگاری کے اٹھنے والے سیلاب کے سامنے بند باندھ پائیں گے ؟
نہیں۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے ہم سو سال پیچھے چلے جائیں گے۔۔۔۔
پورا ملک معاشی اور اخلاقی طور پہ تباہ و بردار ہو جائے گا۔ طبقوں کے درمیان تقسیم اور نفرت پیدا ہو جائے گی جو کہ صدیوں تک ختم نہیں کی جا سکے گی۔
گورنمنٹ نے 1,40,00,000 لوگوں کو پندرہ دن کھانے کے پیسے دیئے۔ مطلب 7 کروڑ لوگ ایک مہینہ گزار لیں گے لیکن گورنمنٹ کا یہ فیصلہ سراسر غلط تھا کیونکہ یہ رقم حقیقی کورونا سے متاثرہ حق دار تک نہیں پہنچی۔ یہ رقم ان لوگوں تک پہنچی جن کو ابھی اسکی ضرورت نہیں تھی۔ دیہاتوں کی 25 فیصد آبادی تو پہلے ہی بغیر کمائے گزارہ کرتی ہے۔ بس سال کی گندم اکٹھی کر لی یا کپاس کے سیزن میں عورتیں کپاس چن لیتی ہیں۔ آپ کسی گاؤں کا وزٹ کریں وہاں کے 75 فیصد لوگ کام کرنے پہ راضی نہیں ہیں یا کھیتوں میں چھوٹا چھوٹا کام کر کے گزارا کر لیتے ہیں۔ لیکن عجلت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے رجسٹرڈ لوگوں کو امداد دے دی گئی جبکہ ابھی وہ دو تین ماہ گزار سکتے تھے۔۔۔اس رقم کی ضرورت ایک ویٹر کو تھی۔ جسکی نوکری ختم ہوئی اور وہ گھر بیٹھا ہے
ایک رکشہ ڈرائیور کو تھی
ایک ڈلیوری بوائے کو تھی جس کا گزارہ ٹپ پہ ہوتا تھا
آپ یقین کیجیے۔۔ ۔؟ ایسے ایسے لوگ مدد کیلئے فون کرتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے اور مدد کرتے ہوئے انکی آنکھوں میں نہیں دیکھا جاتا۔۔۔
سفید پوش کو ضرورت تھی جو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا اور اسکا نام احساس پروگرام میں رجسٹرڈ نہیں ہے
اس ماسٹر ڈگری ہولڈر کو اس وقت مدد کی ضرورت تھی جو ماں کا زیور بیچ کے کار قسطوں پہ لے کے کریم میں ٹیکسی چلاتا تھا۔۔۔ ۔
اصل حقدار یہ تھے لیکن پتہ نہیں کیسے کیسے جاہل دماغ ہم لوگوں پہ مسلط ہیں جو سوجھ بوجھ سے عاری ہیں۔
کچھ لوگ اس میں واقعی حقدار ہوں گے لیکن میرے حساب سے % 75 رقم ان لوگوں کے پاس گئی ہے جنہیں ابھی اسکی ضرورت نہیں تھی۔
اب لاک ڈاؤن کا مسئلہ ہماری حکومتوں کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ ساری حکومتیں لاک ڈاؤن ختم کرنا چاہتی ہیں لیکن ” بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ۔”
سندھ حکومت یہ چاہتی ہے کہ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرے اور وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم کا پروانہ سامنے کر دیتی ہے۔
لاک ڈاؤن ختم کرنا واقعی خطرناک ہے لیکن لاک ڈاؤن ختم کرنے کی اشد ضرورت بھی ہے کیونکہ اسکے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ دو چار ماہ کی بات ہوتی تو خیر تھی۔ کورونا کا سلسلہ سالوں تک چلے گا۔
اور ابھی تک کورونا کے حملے کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ وہ ” کورونا ” نہیں جو اٹلی ہا فرانس میں ہے۔ یہ کوئی تباہی نہیں مچائے گا کیونکہ ہمارا امیون سسٹم بہت مضبوط ہے۔ ہم تو مری ہوئی مرغیاں کھا جاتے ہیں۔ بڑے بڑے وائرس ہم سے پناہ مانگتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنے وائرس ہم نے اپنے جسموں میں پالے ہوئے ہیں لیکن ہم مرنے سے ڈرتے ہیں اس لئے چھپ رہے ہیں۔ ۔۔
یقین کیجیے۔۔۔۔ جب سے کورونا آیا ہے۔ پاکستان میں شرح اموات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال جہاں لوگوں کا رش لگا رہتا تھا۔ وہ ویران ہو گئے ہیں۔ ہزاروں مریض کورونا کے ڈر سے ٹھیک ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں۔۔ ۔کہاں گئے وہ مریض جو پرائیویٹ ہسپتال بھر دیتے تھے۔۔۔ میرے بھی کبھی گردے میں درد ہوتا تھا کبھی دل میں درد تو کبھی کوئی بیماری
لیکن جب سے کورونا آیا ہے میں ہسپتال سے تین میل دور گزرتا ہوں۔۔۔
کہاں گئیں میری بیماریاں۔۔۔ ۔
دراصل ہم میڈیکل سے زیادہ نفسیاتی امراض کا شکار ہیں
ملک بچانا ہے تو لاک ڈاؤن ختم کرنا ہو گا۔۔۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کو تمام اختلافات بھلا کر مل بیٹھ پاکستانی بن کے اس کا حل تلاش کرنا چاہیئے اور متفقہ فیصلے کے ساتھ S O P طے کر کے اس لاک ڈاؤن کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیئے۔ ۔وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ ” بچ گئے تو چوروں کو پھر پکڑ لیں “۔
اللہ آپ سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply