اب شہادتیں تو پیش کیجیے نا عامر لیاقت۔۔سید عارف مصطفٰی

فضاء میں وہ ہر طرف اک آگ سی لگی کسے یاد نہیں ۔۔ کہ جب اس سال کے اوائل میں گستاخ بلاگرز کا مسئلہ تازہ تازہ اٹھایا گیا تھا ۔ ان دنوں عامر لیاقت بول چینل پہ پروگرام ایسے نہیں چلے گا کیا کرتے تھے اور اس میں بطور اینکر انہوں نے اس حوالے سے ایسے پرجوش خطابات کیے  تھے کہ ہر طرف ان سوشل میڈیا بلاگرز کے لیے  ایسی زبردست نفرت پیدا کردی تھی کہ ان کے لیے  جان کے لالے پڑ گئے تھے اور یوں موصوف تحفظ ناموس رسالت کے کاز کے سب سے بڑے محرک اور مجاہد بن کر  ابھرے تھے ۔انہی دنوں اسی جذبات انگیز فضا ء میں کراچی میں اس حوالے سے   سب سے بڑا اجتماع کراچی پریس کلب  میں  ہوا تھا کہ جو لبیک یا رسول اللہ نامی تنظیم کے زیر انتظام ایک احتجاجی مظاہرے کے لیے وہاں ‌اکٹھا کیا گیا تھا اور اس موقع پہ میں خود بھی وہاں موجود تھا اور بلاشبہ وہاں کی جانے والی تقاریر نے اس قدر شدید جذباتی ماحول پیدا کردیا تھا کہ جب وہاں یہ خبر ملی کہ وہاں‌سے کچھ دور آرٹس کونسل کے ساتھ والی چورنگی پہ ان بلاگرز کی حمایت میں سول سوسائٹی کے کچھ لوگ مظاہرہ کررہے ہیں تو وہاں موجود سارا اجتماع ان سے دو دو ہاتھ کرنے فوراً اس جانب چل پڑا تھا اور چل کیا رہا تھا باقاعدہ بگٹٹ انداز میں بھاگ رہا تھا ۔

انہیں وہاں طوفانی انداز میں اپنی جانب آتا دیکھ کر   بلاگرز کے حامیوں نے راہ فرار اختیار کرلی تھی گو کہ انہیں وہاں پولیس کی مکمل سرپرستی و تحفظ بھی میسر تھا – پھر یہ معاملہ عدالت پہنچ گیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نےدوران سماعت بجا طور پہ اس معاملے کو ایک مسلمان کے لیے  زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا اور نہایت جذباتی انداز میں اس عزم کا اظہار کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو، وہ ہرصورت میں اس کے ذمہ داروں‌ کو کیفر کردار تک پہنچا کے رہیں گے اور اس معاملے کو تفتیش اور چھان بین کے لیے ایف آئی اے کے سپرد کردیا-

اس سلسلے میں ناموس رسالت کے لیے ان کی بے پایاں عقیدت و خلوص اور شدید والہانہ جذبات کے اظہار سے ہر خاص و عام بیحد متاثر ہوا اور انہیں ایک سچا عاشق رسالت قرار دیا گیا اور اس حوالے سے بول پہ اپنے پروگرام میں عامر لیاقت نے بھی ان کی خوب تعریف و توصیف کی – پھر وہی ہوا   جیسا کہ اس سے  پہلے کئی معاملات میں ہوتا رہا ہے ، حکومت نے پہلے پہل تو عوامی دباؤ کم کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے  شروع میں چند پھرتیاں دکھائیں لیکن پھر ذرا وقت گزرنے اور حالات کے نارمل ہوتے ہی اس کیس کو عام سے مقدمے کی رفتار پہ لے کر  آیا گیا اور اس کے ان تیوروں‌ کو بھانپ کے مجاز تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے بھی کچھوے کی چال پہ اتر آئی بلکہ یہ تک محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ ان بلاگرز کا تحفظ کررہی ہے اور اب یہ صورت ہے کہ اس نے 22 دسمبر کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے ہاتھ یہ کہہ  کر کھڑے کردیے  ہیں کہ اسے اس مد میں مذکورہ بلاگرز کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے اور یوں یہ سارا معاملہ ہی سرد خانے کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہےکیونکہ مبینہ طور پہ ایف آئی اے نے خود ہی ان افراد کو قید سے نکال کے انہیں بیرون ملک فرار کرادیا ہے تو وہ اس مد میں تحقیقات بھی کیوں اور کیسے کرنا چاہےگی –

لیکن یہاں اس مقدمے کے حوالے سے ایک دوسرے پہلو کا ذکر کیا جانا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے اور اس کی نشاندہی خود انہی جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ضمنی ریمارکس میں کی ہے اور برملا کہا ہے کہ  توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوا ہے جبکہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ یہ الزام سچا تھا یا جھوٹا ۔ ان کے یہ ریمارکس درحقیقت ان کی اس منصفانہ سوچ کے بھی عکاس ہیں کہ چونکہ بغیر واضح ثبوتوں کے کسی کو مجرم قرار دے کر سزا نہیں دی جاسکتی چنانچہ اس معاملے میں تو اگر یہ الزام سچے ثابت نہ ہوئے تو پھر بلاشبہ اس کے عائد کرنے والے جھوٹ بول کے کردار کشی کرنے اور سازش مجرمانہ کے دہرے جرائم کے مرتکب قرار پائیں گے۔

یہاں مجھے یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ ایف آئی اے نے جو کردار ادا کیا اس پہ کسی عاقل و بالغ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے  کہ اس کی ہر جنبش تو حکومت کے اشارہء ابرو سے جڑی رہتی ہے اور لبرل ہونے کا تاثر دینے کی وجہ سے بظاہر یہ حکومت اس معاملے میں لیپا پوتی سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس اہم معاملے کو یونہی محکماتی نا اہلی کی وجہ سے سرد خانے کی نذر کردیا جائے ؟

نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔ بلکہ اس معاملے میں تو اب ان افراد اور تنظیموں کو عدالت میں آگے بڑھ کے تمام متعلقہ ثبوت فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ جو عشق رسالت کے حوالے سے آئے دن احتجاجی جلسوں  اور مظاہروں کا اہتمام کرتے پھرتے تھے ۔ یہاں میرا عامر لیاقت سے یہ مطالبہ کرنا بھی غیر منصفانہ نہیں کہ وہ اس حوالے سے اب ثبوت دینے کے لیے آگے کیوں نہیں بڑھتے جبکہ بول پہ تو وہ چیخ   چیخ   کر  یہ دعوے کرتے تھے کہ ان کے  پاس اس کے سب ثبوت موجود ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

۔ آخر کہاں گئے ان کے وہ دعوے اور وہ ثبوت ؟ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو بلاشبہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ایک نہایت موقع پرست شخص ہیں کہ جسے صرف جذبات کا چورن بیچنے اور عامتہ الناس کو اشتعال دلانے ہی سے غرض ہے اور پھر ان کے ساتھ بھی وہی ہونا عین انصاف ہوگا کہ جس کی بابت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس دیے  ہیں اور جس کی نشاندہی اوپر کی جاچکی ہے ۔ کیونکہ اس معاشرے میں اس روایت کو اب بہر طور ختم ہوجانا چاہیے  کہ کوئی کسی بھی وقت اٹھ کے کسی پہ کوئی بھی الزام لگادے اور ا س کی زندگی حرام کرکے خود آرام سے چین کی بنسی بجاتا پھرے ، ایسی ہر بنسی کو اب ضبط کیا جانا لازم ہے کہ زندہ معاشروں میں اسے بجانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply