پیپل فار ہیومینٹی کی ڈائریکٹر آف والنٹیئر افیئر (کے پی کے) صائمہ محبوب سےگفتگو

آج انٹر نیٹ کی دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔کسی بھی خطہ میں بسنے والے انسان کی تکلیف مثلاً، سیلاب، زلزلہ ، تشدد بھوک و افلاس کی خبر سرعت رفتاری سے دور دراز حصّوں تک پہنچ کر وہاں کے  لوگوں کو بھی باخبر اور آزردہ کرسکتی ہے۔ایسے وقت میں بہت سے دردمند اور انسان دوست لوگ ہم خیال افراد کے ساتھ مل کرانسانی دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پیپل فار ہیومینٹی PFH ایسے ہی ایک قافلے  کا نام ہے ۔جس کی روح رواں مشی گن کی سیّدہ سارہ ہیں۔یہ ایک نان پرافٹ فلاحی ادارہ ہے جو ملکی اور غیر ملکی سطح پہ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کے لیے صاف پانی ، مکان، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیے ہمہ تن کوشاں ہے۔تاکہ انسانی زندگی کامعیار بہتر ہوسکے۔

پچھلے دِنوں مجھے پاکستان کے اس ادارے وومن انٹرپرینیور منصوبے نے بہت متاثر کیا ۔جو معاشی طور پہ کمزور عورتوں کو طاقت دینا چاہتا ہے۔ یقیناً عورت کی سماجی حیثیت کی وجہ سے پاکستان میں ایسے کئی منصوبوں کی ضرورت ہے۔PHF کےاس منصوبہ کی سربراہی خیبر پختونستان میں رہنے والی صائمہ محبوب کررہی ہیں۔ ذیل میں ہم نے انٹرنیٹ کی مدد سے صائمہ کا ایک مختصر انٹرویو کیا۔

سوال ـ- صائمہ آپ اہم منصوبہ پہ کام کر رہی ہیں جس کی مبارکباد ،مگر پہلے کچھ اپنی بابت بھی بتائیے،مثلاًتعلیم، ملازمت اور گھریلو ذمہ داریاں وغیرہ

لکھاری:گوہر تاج

جواب:میرا نام صائمہ محبوب ہے۔ پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہُوا ہے۔ میں تین بیٹیوں کی ماں ہوں ۔ سماجی تبدیلی پہ یقین رکھتے  ہُوۓ قلم و صحافت کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ میں نے چار سال تک “ٹوڈے پاکستان میڈیا گروپ” میں بیوروچیف پشاور کی حیثیت سے سے کام کیا ہے۔ گورنمنٹ کے ادارہ وفاقی محتسب برائے انسداد ہراس انیمیڈیا کوآرڈی نیٹر کے طور پر بھی اپنی خدمات سر انجام دی ہیں۔ اسکے علاوہ میں نےویمن چیمبر آف کامرس پشاور میں کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔

سوال  ۔پیپل فار ہیومینٹی سے کب اور کیونکر منسلک ہوئیں؟

جواب:  2022 کےسیلاب کے دوران سیلاب  زدگان کی مدد کے لئے کئی آرگنائزیشنز اور صاحبِ  استطاعت افراد کے ساتھ مل کر ان علاقوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں  کیں۔ میں نے  بھی ایک ادارے پیپل فار ہیومینٹی کے لیے کام شروع کردیا۔

سوال  -اس منصوبے سے کس طرح منسلک ہوئیں؟

جواب: اس جواب میں میری زندگی کی کہانی شامل ہے۔لہٰذا میں اسے بیان کرونگی۔۔

باوجود اسکے کہ  میرا پس منظر تعلیم یافتہ ہے،لیکن سماج میں مروج سوچ بدلنا آسان نہیں، خاص کر خیبر پختونستان کے معاشرے میں ایسی عورت کی کوئی  حیثیت نہیں ،جوبیٹا نہ پیدا کردے۔ جب یکے بعد دیگرے میری تین بیٹیاں ہوئیں تو گویا مجھ پہ بیٹا نہ پیدا کرنے کا جرم  عائد  ہوگیا۔ میرے شوہر نے میری بچیوں کو آسانی سے  قبول نہ  کیا۔حتیٰ  کہ تیسری بیٹی کی تو دس ماہ تک   صورت بھی  نہیں دیکھی۔ پھر میرے شوہر چاربہنوں کے اکلوتے بھائی  تھے ۔ انکے لیے وارث کا نہ ہونا ایک ایسی کمی تھی کہ جو میں پوری نہ کرسکی۔ لہٰذا دو سال پہلے میرے گھر پر قبضہ کر کے مجھے اپنے ہی گھر سےبے دخل کر دیا گیا۔ میری بچیوں اور میرے سر کے  اوپر  چھت نہ تھی ،ایسے وقت میں میڈم سیّدہ سارہ جو امریکہ کی ریاست مشی گن میں رہتے ہوئے  ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن پیپل فار ہیومینٹی چلاتی ہیں اور پاکستان اور امریکہ میں  ضرورتمندوں کی مدد کرتی ہیں،ان سے میرا رابطہ 2022 کے سیلاب کی تباہ کاری کے وقت ہُوا۔ جب میری اپنی زندگی کی کشتی طوفان میں ڈول رہی تھی۔میرا کوئی  سہارا نہ تھا، ایسے میں سیّدہ سارہ  میری زندگی کے سب سے مشکل وقت میں میرا سہارا بن کر آئیں ہیں۔پھر جب میں کچھ سنبھلی تو میرا جی چاہا کہ میں اس آرگنائزیشن کے لیے کام کروں کہ جس نے مجھےوقار سے جینے کا حوصلہ دیا۔ اس طرح میں بھی اس ادارے سے منسلک ہوگئی۔ اور آج میں بحیثیت ڈائریکٹر آف والنٹیئر افیئرز (کے پی کے) پیپل فار ہیومینٹی میں اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہوں۔

سوال -آپکے کام کے کیا مقاصد ہیں؟

جواب:ہمارا بنیادی مقصد خواتین کو معاشی لحاظ سے مستحکم اوران کو اپنے پیروں پر کھڑاکرنا ہے۔اس مقصد کے لیے پیپل فار ہیومینٹی خیبر پختونخوا  میں بہت کام کر رہی ہےان کےپراجیکٹ وومن انٹرپرینیور 2023 کا حصّہ ہونا میرے لیے قابلِ  عزت و فخر ہے۔

سوال  ۔بحیثیت ڈائریکٹر آف والنٹیئر افیئرز آپکی کیا ذمہ داریاں  ہیں؟

جواب : میڈم سیّدہ سارہ نے مجھ سے خواتین کے مسائل سے اور ان  کے حل سے متعلق کام کرنے کا کہا ۔ جب میں نے اس پر کام شروع کیا تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ساری دنیا کا فوکس سیلاب زدگان ہیں،لیکن اس کے علاوہ بھی  بہت سے  مستحق لوگ موجود ہیں۔میں صرف ایک علاقے  میں گئی ہوں ابھی۔ یہاں خواتین کو حفظانِ  صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ۔مجھے ایک ایسی لڑکی کا پتا چلا کہ جس کی بچہ دانی میں زخم ہو چکے تھے۔ شدید فنگس (پھپھوند ) کی وجہ سے۔ میں جب اس کے علاقہ میں گئی تومجھے پتا چلا کہ یہ تو وہاں ہر گھر کی کہانی ہے۔ ماہواری میں گندے کپڑے کا استعمال اس کی بڑی وجہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ  کپڑا اچھی طرح دھو کر کیوں نہیں استعمال کرتیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس نہانے اور منہ دھونے کے لیے صابن نہیں ہے۔ آپ ان گندے کپڑوں کو دھونے کی بات کر رہی ہیں۔ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ گندگی براہ راست ان کے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ “یہ بھرے پیٹ کی باتیں ہیں بھوکا پیٹ یہ سب نہیں سوچتا۔ ” ہم یہ زیادہ پانی سے دھو لیتے ہیں اور پھر استعمال کرتے ہیں۔ یہ چیز ان کی صحت کے لیےخطرناک ہے۔

سوال – پاکستان میں سیلاب کی صورتحال سے متعلق مسائل بیان کریں گی؟

جواب: سیلاب ،مسلسل بارشوں نے کافی تباہی مچا دی ہے اور لوگوں کے روزگار کوشدید متاثر کیا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت ایک ہی علاقے کے 42 گھروں کا ڈیٹا ہے جونہایت کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ اس صورتحال میں ان کی دادرسی اور ایک مستقل روزگار کی ضرورت ہے۔ہم نے ان کے لیے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کا پلان تیار کیا ہے۔ جس میں ہر پانچ گھرانوں کے لیے ایک مشترکہ کاروبار ہوگا۔ ان پانچ گھرانوں میں 3گھر ایسے ہیں جوبیروزگار ہیں لیکن جسمانی طور پر صحت مند ہیں  اوراس مشین پر کام کر کے  اپنےخاندان کی کفالت کر سکیں گے ۔جبکہ دو گھرانےایسے ہیں جن کا کوئی  فرد جسمانی   یا ذہنی طور پر معذور ہے،تاکہ ان کے معاشی مسائل حل ہوسکیں۔ ہم ان کا اس وقت تک ساتھ دیں گے تا وقتیکہ یہ گھرانے اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔اس کے علاوہ ڈھوک کلاریان میں پیپلز فار ہیومینٹی   سکول پسماندہ بچوں کومعیاری تعلیم فراہم کررہا ہے۔ اپنے بچوں کو تعلیم سے بااختیار بنانا  نا  صرف ان کی زندگی بلکہ ان کی اگلی نسلوں کی زندگیوں کو بھی بہتر بنائے گا۔ تعلیم کے ذریعہ ، ہم ان بچوں اور ان کے اہل خانہ کے لئے غربت کے دائرے کو توڑنے اور اپنی زندگی کو بہتربنانے کی کوشش کرتے ہیں۔چارسدّہ میں سیلاب کے دوران پردہ دار عورتوں کا ایک اہم مسئلہ بیت الخلا کے استعمال کی بنیادی ضرورت کے حصول میں دشواری تھی۔ میں نے اکشے کمار کی فلم “دی ٹوائلٹ“ سے آئیڈیا لیتے ہوئے خاص کر لوہار سے باتھ روم بنوائے تاکہ پردہ دار خواتین اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔

سوال- ہمارے سماج میں خاص کر خواتین کو کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی ترقی کی راہ میں  رکاوٹ  ہیں؟

جواب:خواتین کی ترقی  کی ڈور معاشرتی  اصلاح کے ساتھ بندھی ہوئی ہےاور اس بات کی اہمیت کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے ، کیوں کہ  خواتین کو پیشہ ورانہ زندگی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ہماری زندگی اور مستقبل کی راہ میں صنفی عدم مساوات ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ایسا معاشرہ جہاں خواتین کو بااختیار بنایا جاتا ہے وہ سب کے لئے ایک بہتر دنیا ہے۔اگر خواتین کو ان تمام عہدوں تک لامحدود رسائی حاصل ہوتی جس کی وہ مستحق ہیں، اگر مرد و زن کا تفرقہ مٹا دیا جائے اور حقیقی مساوات کا نظام رائج کیا جائے تو ہم ایک بہترین معاشرے کے قیام اور غربت اور افلاس پر قابو پانے کا  مقصد حاصل کرسکیں گے۔ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ خواتین پر تشدد بھی ہے۔ عورت کو بااختیار بنانےاور ترقی پسند معاشرے کے قیام میں خواتین پر تشدد ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 30 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں جنسی جسمانی یاذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور خاص کر پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ،عصمت دری ،تیزاب کے حملے، جبری اور چھوٹی عمر کی شادی اور جائے کار پر ہراسانی اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اداروں کی سختی سے قوانین پر عملدرآمد نہ کروانے کی وجہ سے  خواتین ان معاشرتی مسائل کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جا رہی ہیں، کیونکہ ان زہریلے عناصر کی موجودگی کی وجہ سے خواتین کو ترقی یافتہ اور بااختیار بنانا بہت مشکل ہے ۔خواتین کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہے جو کہ ہمارے پاکستان میں خاص کر خیبرپختونخوا میں ہے۔ جہاں بیٹا پیدا نہ کرنے کی پاداش میں انہیں موردِ  الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اوربہت سی خواتین کو اس وجہ سے  گھر  بدر نکال دیا جاتا ہے۔ کہ ان کی دو تین یا چار بیٹیاں کیوں پیدا ہوئیں۔ یا وہ بیٹا پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اس کےلیے آگاہی مہم کی شدید ضرورت ہے۔

سوال – سماج میں خواتین کو بااختیار کرنے کا موثر ذریعہ کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جواب:خواتین کو بااختیار بنانے کا سب سے مضبوط ذریعہ تعلیم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس طرف توجہ بہت کم ہے ،پاکستان میں خواندگی کی شرح تقریبا ً40 فیصد ہے،جو کہ بہت کم ہے۔ اس کی وضاحت ہیومن رائٹس واچ نے بھی کی ہے۔ معاشرے کو ہنرمند تعلیم یافتہ اور با اعتماد خواتین کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین پرورش کرسکیں  اس کے لیے خواتین کی تعلیم پر سب سے زیادہ بچوں کی ضرورت ہے۔ اور بچے ہی توہمارے ملک کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply