محترم عرفان شہزاد کیلیے جوابی مکالمہ— مفتی امجد عباس

کسی تاریخی قضیے کی نوعیت جاننے کے لیے اُس کے سبھی پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہیے۔ واقعہ کربلا کو سمجھنے اور درست تجزیہ کرنے کے لیے اِس کی تمام جہات کا دقیق جائزہ لینا ہوگا، سرِ دست مجھے علوی اور اُموی حکمرانوں کے اندازِ جہاں بانی کا تقابل نہیں کرنا، فی الحال امام حسین کے اقدام کی نوعیت کو بیان کرنا مقصود ہے۔ ہمارے بعض دانش ور احباب واقعہ کربلا پر یوں تبصرہ کرتے ہیں جیسے یزید کی (1) ولی عہدی درست ہو۔ (2) وہ مسلمانوں کا جائز، درست اور رائج طریقے سے حاکم بنا ہو۔ (3) اُس کی حکومت عدل و انصاف پر قائم ہو۔ (4) کچھ طالبِ حکومت عناصر، بس تلوار لے کر اُس پر حملہ آور ہوگئے ہوں۔ اگر اِن چاروں باتوں کو مانا لیا جائے تو واقعاً اقدامِ امام حسین کی کوئی مناسب توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی، زیادہ سے زیادہ اِسے “اجتہادی خطا” گردانا جا سکتا ہے، جو عقیدت کا عکاس ہے۔

واقعہ کربلا کے تجزیے سے پہلے طے کیجیے کہ یزید کی حیثیت کیا تھی؟ میرے پہلے 3 نکات کا تعلق اُسکی حیثیت سے ہے۔ یزید کی حیثیت طے کرنے کے بعد اقدامِ امام حسین کی نوعیت کو درست سمجھا جا سکتا ہے، یہ میرا چوتھا نکتہ ہے۔ اب آئیے اِن نکات کا اجمالی جائزہ لیں۔

1)- جہاں تک ولی عہدی کی بات ہے، تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جناب معاویہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کریں۔ یزید کی ولی عہدی کا جب مدینہ آکر معاویہ صاحب نے اعلان کیا تو جناب ابوبکر کے بیٹے جناب عبدالرحمان نے اُنکو  ٹوکا اور کہا میرے باپ نے یہ روش نہ اپنائی تھی، یہ تو قیصر و کسریٰ کی روش ہے، خلافت کو خاندانی جاگیر میں نہ بدلو۔ معاویہ صاحب یہ سُن کر سیخ پا ہوئے، فوجیوں نے جناب عبد الرحمان کو پکڑنا چاہا تب اُنھوں نے اپنی بہن ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پناہ لینے میں عافیت جانی۔ مکہ، مدینہ اور کوفہ وغیرہ علاقے معاویہ صاحب نے امام حسن سے صلح کے نتیجے میں حاصل کیے تھے، شرائطِ صلح میں طے تھا کہ امیرِ شام اپنے بعد کسی کو نامزد نہ کرے گا، مسلمان اپنی مرضی سے حاکم چُنیں گے۔

2)- یزید بالکل بھی جائز حاکم نہ تھا، اُسے خلفاء اربعہ کے برعکس، قیصر و کسریٰ کی روش پر حکمران بنایا گیا، اہلِ مدینہ کی رائے نہ لی گئی۔ وہ بزورِ طاقت مُسلط ہونا چاہتا تھا۔ اُسے نہ تو مکمل تسلط حاصل ہوا تھا نہ ہی مدینہ و مکہ اور دیگر علاقوں کے صحابہ کرام و تابعین سے اُس کے متعلق رائے لی گئی۔ خلافت جیسے منصب کو بنی اُمیہ خاندانی جاگیر میں بدلنا چاہتے تھے۔

3)- یزید کی حکومت بالکل بھی عدل و انصاف پر قائم نہ تھی۔ اُس نے اپنے تمام دور میں ظلم و ستم کی انتہاء کردی، جس کے دورِ حکومت کا آغاز امام حسین کی شہادت سے اور اختتام مکہ و مدینہ کی تاراجی سے ہوا۔ یزید کے افعال اور اقدامات اُس کے کفر کی گواہی دیتے ہیں۔ اُس نے کعبہ اور مسجدِ نبوی کی حرمت پامال کی۔ صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ اہلِ مدینہ کو ڈرانے والا ملعون ہے، یہ شنیع کار یزید نے ہی انجام دیا۔ امام حسین کی شہادت کے بعد اہلِ مدینہ کا ایک وفد یزید سے ملنے گیا، اُس وفد کے شرکاء نے واپس مدینہ والوں کو بتایا کہ یزید کے افعال پر اب بھی اُس کی تائید کی گئی تو بعید نہیں آسمان سے عذاب نازل ہو۔ واقعہ حرہ سبھی مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزیدی افواج نے اُس کے حکم سے تین دن تک مدینہ میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، ہزاروں لوگ قتل ہوئے، سیکڑوں عورتوں کی عصمت لوٹی گئی، مسجدِ نبوی میں اذان و نماز کا سلسلہ منقطع اور وہاں گھوڑے باندھے گئے۔

4)- اب امام حسین کے اقدام کو سمجھیے، امام حسن نے ہر ممکنہ طور پر معاویہ صاحب سے جنگ سے اعراض کیا، اُن کی شہادت کے بعد، امام حسین نے بھی معاویہ صاحب کے ساتھ صلح کا معاہدہ باقی رکھا۔ اگرچہ معاویہ صاحب نے کسی شرط پر عمل نہ کیا تھا لیکن بظاہر معاہدہ کا انکار بھی نہیں کیا تھا، تب حسنین نے مکمل پاس رکھا۔ امام حسن کی شہادت کے بعد تقریباً آٹھ، نو سال امام حسین نے جناب معاویہ کے دور میں گزارے۔ آپ نے مسلح جدوجہد نہ کی۔ ہاں اِس دوران معاویہ صاحب کو خطوط لکھتے رہے، اُس کی غلطیوں پر ٹوکتے بھی رہے۔ اُس کی وفات کے بعد یزید ناجائز طور پر حاکم بننے لگا۔ امام حسین کو یہ بہت ناگوار لگا، وہ کسی صورت میں یزید کو حاکم نہیں تسلیم کر سکتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پروردہ حسین، کسی ناجائز ظالم کی کیسے بیعت کرتا، سو آپ نے بیعت سے انکار کیا۔ یزید ہر حال میں آپ سے بیعت لینا چاہتا تھا۔ ولید نامی اُموی گورنر نے مدینہ میں رات کے وقت امام سے بیعت لینا چاہی، آپ نے اُسے ٹال دیا۔ جب اصرار بڑھا تو مکہ تشریف لائے۔ حج کے ایام میں سبھی علاقوں سے مسلمان حج پر آئے، امام نے اُنھیں بتایا کہ معاویہ صاحب نے شرائطِ صلح کی خلاف ورزی کی ہے۔ اپنے بعد اپنے نااہل بیٹے کو حکومت “میراث” میں دے دی ہے۔ اہلِ کوفہ نے آپ سے اتفاق کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ ہم مل کر حکومت کے خلاف جدوجہد کریں۔ مدینہ سے مکہ تک امام حسین صرف بیعت سے انکار کر کے تشریف فرما ہوئے۔ اب جب کوفہ کے ہزاروں لوگوں نے آپ کی حمایت کی، خاص کر کوفہ میں موجود صحابی رسول جناب سلیمان بن صرد خزاعی نے کہا کہ آپ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہماری رہنمائی کیجیے، ہم ایک فاسق کی بیعت نہیں کر سکتے۔

امام حسین اہلِ کوفہ کے ساتھ مل کر جدوجہد چلانا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تمام مراحل کا مکمل لحاظ کیا۔ میدانِ جنگ میں بھی ہرگز پہل نہ کی، آخری وقت تک قتال سے اجتناب برتا۔

واقعہ کربلا کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین اور پوری امت کے خلاف یزید اور اُس کے ہمنواؤں نے دہشت گردی کی، یزید بدترین آمر بن کے اُبھرا، جو ہر حال میں بیعت کا طالب تھا۔ امام علی نے بیعت نہ کرنے والوں، بیعت توڑنے والوں اور اپنی تکفیر کرنے والوں، ہتھیار لیکر حملہ آور ہونے والوں سے بھی آخری حد تک لڑائی سے اجتناب کیا اور لڑائی کے بعد بھی حسنِ سلوک کیا۔ مقتولوں کا جنازہ پڑھایا، زخمیوں کا علاج کروایا، کسی سے بعد میں کوئی تعرض نہ کیا۔ امام علی کی مظلومیت دیکھیے کہ اُن کے مقابل میں آنے والوں کو “اجتہادی خطا” کی چِٹ تھما دی گئی۔ یہ کیسی خطا تھی جو لاکھوں انسانوں کی جانیں لے ڈوبی۔ امام علی جائز و عادل حکمران و خلیفہ تھے، لیکن یزید ایسا حاکم ہرگز نہ تھا، نہ ہی اُس کے خلاف ابتدائی خروج کیا گیا۔

یزید کے مرنے کے بعد اُس کا معاویہ نامی بیٹا جانشین بنایا گیا تو اُس نے واضح اعلان کیا کہ ظلم ہوا اور میرا دادا اور باپ اُس منصب پر قابو رہنا چاہتے تھے جس کے اہل نہ تھے۔ امام حسین کا اقدام نبوی تعلیمات کی روشنی میں درست اور برحق تھا، ظالم کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ آج تک یزید ظلم و بربریت جبکہ حسین حق و صداقت اور عدل و انصاف کا استعارہ ہیں۔

میرے اِن چار نکات کو ملاحظہ کرنے کے بعد سوچیے، اگر پہلے تین نکات درست ہوں کہ یزید ناجائز ولی عہد، غیر متغلب اور ظالم حاکم تھا اور زبردستی امام حسین سے بیعت طلبی پر اڑا ہوا تھا، ایسے میں حسین کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ آج کے دانش ور مسئلے کا اِس جہت سے بھی حل بتائیں کہ یزید بیعت سے کم کسی بات پر آمادہ نہ تھا، وہ بیعت نہ کرنے کو بغاوت سمجھتا تھا۔ حسین چپ کر کے اُسے مان لیتے یا حق کی خاطر جان دے دیتے؟ حسین نے حق کی خاطر جان دے دی، ظالم کی بیعت نہ کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق ضروری نہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”محترم عرفان شہزاد کیلیے جوابی مکالمہ— مفتی امجد عباس

  1. برادر حنیف صاحب اس کا جواب شعیہ اثناعشرہ کے خود اماموں نے دیا ہے.آپ ان روایات کو پڑھیں.
    دوسری بات یہ کہ آپ تاریخ کو پڑھیں.?? امام حسین کے پاس جنگ کے بغیر دوسرا راستہ یزید نہ اختیارکرنے نہیں دیا. بعیت یاپھرانکارپر سرقلم.
    تو امام حسین نے خودفرمایا مثلی لایبایع مثل یزید.
    اور باقی امام کےلیے اسی کی نوبت نہیں آیی کی وقت کے خلیفے نےکیاھوکہ بیعت کرو ہرگز نہیں.
    اسی لیے دیگر اماموں نے تعلمات اسلامی اور سیرت پنجتن کو معاشرے میں عام کرنے کےلیے خاموشی سے جام لیاگرچہ اسی پر بھی حکما وقت کی طرف سے سختیاں تھیں پر بیعت طلب نہیں ھوا.

  2. اسلام علیکم ورحمہ اللہ
    آپ نے اپنے پہلے نکتہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر فرمایا ہے یزید کی بیعت کےلئے اور اس پر عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے احتجاج کا تذکرہ کیا ہے۔ صحیح بخاری سورۃ الحقاف کی تفسیر میں واقعہ زکر ہوا ہے لیکن وہاں بیعت کا مطالبہ کرنے والا فرد معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں مروان بن حکم ہے۔ کیا آپ سے غلطی ہوئی ہے یا صحیح بخاری کے علاوہ بھی کوئی حوالہ آپ کے پاس ہے جس میں بیعت کا مطالبہ کرنے والا فرد معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
    وسلام ورحمہ اللہ۔

    1. بعیت طلب کرنے کے حوالے دے اھلسنت اکثر علما قائل ہیں کہ یزید نے امام حسین سے بیعت طلب کیاتھا۔
      اگر حوالے درکار ہیں تو وہ بھی آپ کو مل جائے گئے

Leave a Reply