اسے انگلش لٹریچر بہت پسند تھا ا س لئے اس نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کیلئے فیصل آباد یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا۔ اس کے کلاس فیلو کہتے ہیں وہ بہت سنجیدہ، ذہین اور الگ تھلگ رہنے والی لڑکی تھی۔ چپ چاپ آتی کلاسز لیتی اور واپس گھر لوٹ جاتی۔
مگر کچھ دن پہلے ایسا ہوا کہ وہ یونیورسٹی تو گئی مگر گھر واپس نہ لوٹی۔ اس کے باپ علی کو سخت پریشان ہوئی اور وہ اسے ڈھونڈنے کیلئے نکل پڑا۔ یونیورسٹی سے معلوم ہوا وہ آئی تھی ،اس نے کلاسز لیں اور اس کے بعد کا کچھ پتہ نہیں۔ باپ بیچارے نے بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملی ۔۔
بالآخر اس کا باپ تھانے پہنچا اور تھانیدار سے بیٹی کی گمشدگی کا پرچہ درج کرنے کی فریاد کی۔ تھانیدار نے کہا میرا ٹائم نہ خراب کرو گئی ہوگی اپنے کسی یار کے پاس ،خود ہی واپس آجائے گی۔ کیوں بیٹیوں کو اتنا پڑھاتے ہو کیوں انہیں باہر تنہا بھیجتے ہو۔ کیوں عظیم انسان بننے کی کوشش کرتے ہو۔ جاؤ دفعہ ہو جاؤ ادھر سے۔
باپ نے بڑے افسر سے فریاد کی اور تھانیدار کے گھٹیا رویے کی شکایت کی مگر بڑے افسر نے کہا دیکھتے ہیں دیکھتے ہیں آپ پریشان نہ ہوں۔۔
باپ بیچارا ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا مگر بیٹی نہ ملی۔ آخر اسے کچھ لوگ ملے جنہوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے یونیورسٹی کے باہر چند لوگوں کو ایک لڑکی کو زبردستی اپنی کار میں ڈالتے دیکھا تھا۔ باپ پھر پولیس کے پاس گیا اور کہا کہ اس کی بیٹی کے موبائل فون سے اس کی لوکیشن ٹریس کریں ۔ سڑک پہ لگے کیمروں سے کچھ رہنمائی لیں مگر پولیس نے پھر کہا دیکھتے ہیں دیکھتے ہیں۔
کل باپ کو اطلاع ملی کہ ایک نہر سے ایک ریپ زدہ لاش ملی ہے جسے ریپ کرنے سے پہلے شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ وہ ہسپتال آۓ اور اپنی بیٹی کی لاش اور ایم اے انگلش کی ڈگری لے جائے۔
آخری خبریں آنے تک ایک بار پھر وزیر ِ اعلیٰ نے یقین دہانی کرائی کہ قوم کی ہر بیٹی ان کی اپنی بیٹی ہے ۔
بدتہذیبی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران معطل ہو جائیں گے اور مجرم جلد گرفتار ہوجائیں گے اور انہیں کڑی سزا ملے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں