بس ایک ہی روٹی ملی۔۔۔محمد فیاض حسرت

کل شب گیارہ بجے ایک دوست کے ہاں سے واپس گھر لوٹ رہا تھا ۔ راستے میں قریباً 10 سال کے بچے نے رکنے کا اشارہ کِیا اور کہا بھائی مجھے آگے تک لے جائیے ۔میں نے اس بچے کو ساتھ بٹھا یا اور چند باتیں پوچھیں ۔ اور جو اُس بچے نے ان کے جوابات دیے اگر میری جگہ کوئی اور مضبوط دل کا آدمی بھی ہوتا تو آنکھوں سے آنسو تو بہت معمولی بات ہے ” ہوئے دل و جگر عالم کے غم سے راکھ ” والا معاملہ ہوتا ۔ میں جانتا ہوں کہ میری زندگی میں کوئی تلخ وقت اس وقت سے بڑھ کرنہیں ہو سکتا ۔ وہ سفر میں گزرے اس بچے کے ساتھ 10 منٹ مجھے کسی اور دنیا میں لے گئے ۔ ایسی دنیا جس میں صرف غم ہیں ، آہیں ہیں ، سسکیاں ہیں ، بھوک و پیاس ہے ،ان سب کی انتہا ہے ، ایسی دنیا جس میں ذرا بھر خوشی کا کہیں کوئی امکان نہیں ، ایسی دنیا جس میں کوئی دوسرا آدمی جائے تو کچھ پل میں مر جائے ۔
سب سے پہلے اس بچے سے پوچھا
چھوٹو اتنی رات گئے تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟
میں پشاور موڑ سے روٹی لینے گیا تھا ۔
کہاں رہتے ہو تم ؟
کری روڈ
کری روڈ سے روٹی لینے پشاور موڑ گئے تھے وہ بھی اتنی رات ؟ چھوٹو یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟ مجھے ذرا بھی اس نوعیت کا خیال آتا تو میں کبھی کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کرتا ۔ پھر اس نے جو دبی دبی آواز میں کہا ۔ خدا جانتا ہے کہ بظاہر  دل پھٹا نہیں لیکن دل کے اندر سے ایسی آواز آئی کہ کان کے پردے ہل گئے ۔
اُس نے کہا۔۔۔بھائی وہاں مفت  روٹی ملتی ہے نا اس لیے میں وہاں گیا تھا ۔ میرے پاس تھوڑے پیسے بھی نہیں تھے کہ گاڑی پہ بیٹھ کر جاتا یوں ایسے ہی گیا تھا اور دیر ہو گئی ۔اس لیے وہاں بھی بس ایک روٹی ملی ۔ گھر ابو ہیں ، امی ہیں اور دو چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ وہ میرے انتظار میں ہوں گے کہ میں روٹی لے کر آ رہا ہوں گا ۔
اب سوچتا ہوں کتنا ظالم تھا میں کہ میں اس سے مزید کچھ پوچھتا گیا ۔
تمہارے ابو کیا کرتے ہیں ؟
ابھی کچھ بھی نہیں ، ان کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے وہ بھی گھر پر ہی ہیں ۔
تمہارے گھر والے تمہارا انتظار کر رہے ہونگے کہ تم روٹی لیکر آؤ گے تو کھائیں گے ، اب ایک روٹی تم سب کیسے کھاؤ گے ؟
سوچتا ہوں اب لکھتے ہوئے رو رہا ہوں تو اس وقت کیسے اتنا کچھ میں نے سنا ، واللہ نہیں جانتا ۔اس بات کو کوئی پتھر دل بھی سنتا تو برداشت نہ کر پاتا ۔
اُس بچے نے کہا۔۔۔۔
بھائی ابھی ایک ہی روٹی ہے ۔ یہ روٹی سب سے چھوٹی بہن کو دوں گا اور ہم سب ایسے ہی سو جائیں گے ۔ ہم نے دن کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا ۔
ارے تمہیں نیند کیسے آئے گی ؟ دن میں  بھی کچھ نہیں کھایا اور شام بھی کچھ نہیں کھایا ؟
ہمیں عادت پڑ گئی ہے ایسے سونے کی ، بس وہ چھوٹی بہن ہے نا وہ بہت روتی ہے اگر اسے کھانے کو کچھ نہ ملے ۔ بس وہ کھا لے گی ۔
کری روڈ پہنچا تو سامنے ایک ہوٹل کھلا ہوا نظر آیا ۔تو کہا چلو چھوٹو وہ ہوٹل کھلا ہے وہاں سے میں تمہیں کچھ لے دیتا ہوں کھانے کے لیے ۔
مجھے پوری امید تھی کہ اُسے کچھ کھانے کے لیے لیکر دوں گا تو کچھ دل کو تسلی ہوگی مگر یہ نہیں پتا تھا کہ جن گزرے دس منٹوں کو میں قیامت سمجھ رہا تھا وہ تو معمولی منٹ تھے ، قیامت تو اب ٹوٹنے والی تھی ۔
اس نے کہا
لانے کا شکریہ بھائی ، مجھے کچھ نہیں چاہیے میں ایسے ہی گھر چلا جاؤں گا ۔
ارے چھوٹو یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟ چلو میں ادھر سے کچھ لیکر دیتا ہوں ۔
میں نے دس بار اسے یہی کہا اور اس کا بھی بس ایک ہی جواب تھا ۔
نہیں ، میں ایسے ہی چلا جاؤں گا ۔
اے زمانے کے لوگو ! ایسی دنیا سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ، تمہارا کوئی واسطہ نہیں ! ان کو یونہی رہنے دو! ان کو یونہی مرنے دو ! تمہیں اس جہاں یا اس جہاں کوئی نہیں پوچھے گا !
اب سوچتا ہوں وہ بھی کوئی غم تھے کہ جنہیں میں بڑے غم تصور کرتا تھا اور کہتا تھا کہ
ہوئے دل و جگر عالم کے غم سے راکھ، پر غم کیا ؟
دلیلِ راکھ میں کوئی دھواں ہو بھی ، تو کیوں کر ہو

Advertisements
julia rana solicitors

( م ف حسرت )

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply