قومی کرکٹ ٹیم کی مسلسل ناکامیاں۔۔سلمان نسیم شاد

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں بدترین شکست کے بعد قومی ٹیم آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں ساتویں نمبر پر چلی گئی۔ اس دورے میں قومی ٹیم کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست کے بعد ٹیسٹ سیریز میں بھی قومی ٹیم کھیل کے تینوں شعبوں میں بری طرح ناکام رہی۔ بدقسمتی سے دورے کے آغاز میں ہی قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اَن فٹ ہوکر نا صرف ٹی ٹوئنٹی بلکہ ٹیسٹ سیریز سے بھی باہر ہوگئے۔ جس کے بعد ہنگامی طور پر قیادت کا بوجھ شاداب خان اور محمد رضوان کو اٹھانا پڑا۔

بدقسمتی سے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور وقار یونس کی تعیناتی کے بعد سے قومی ٹیم کی کارکردگی تینوں فارمیٹ میں مسلسل ہچکولے کھاتی نظر آرہی ہے۔ سری لنکا کے خلاف محض ایک ٹی ٹوئنٹی سیریز کی ناکامی کے بعد سارا ملبہ سرفراز احمد پر ڈال کر اس کو تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے برخاست کردیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ و ہی سرفراز احمد تھے جن کی قیادت میں پاکستان انڈر 19 ٹیم عالمی چیمپئن بنی۔ ان ہی کی قیادت میں قومی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر ٹرافی جیتی۔

سرفراز پاکستان کا نمبر ایک ٹی ٹوئنٹی کپتان تھا، جس نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئےکار لاتے ہوئے پاکستان کو عالمی رینکنگ میں نمبر ایک پوزیشن پر پہنچایا۔ جس نے 14 ٹی ٹوئنٹی سیریز میں سے مسلسل 11 سیریز میں پاکستان کو فاتح بنایا۔ جس میں آسٹریلیا کو وائٹ واش بھی کیا۔ سرفراز نہ صرف پاکستان بلکہ پی ایس ایل کا بھی کامیاب ترین کپتان تھا۔ مگر کرکٹ کے ناخداؤں کی کم عقلی کہیں یا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رچائی گئی گہری سازش، کہ محض ایک سیریز میں ناکامی کے بعد اس کو قیادت سے فارغ کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے عالمی رینکنگ کی نمبر ایک ٹیم اب نمبر 4 پر آ چکی ہے۔

دوسری طرف نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بدترین وائٹ واش کے بعد قومی ٹیم عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر 7 پر آچکی ہے۔ سوال یہ آتا ہے کہ اس بدترین کارکردگی کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر ڈالی جائے؟

کیا اس کارکردگی کی ذمہ داری صرف مصباح اور وقار پر ڈال کر باقی کرداروں کو بری الذمہ قرار دے دیا جائے؟

اگر اس شکست اور بدترین کارکردگی کے ذمہ دار مصباح الحق اور وقار یونس ہیں تو ان کے ساتھ چیئرمین احسان مانی، اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان بھی ذمہ داران میں شامل ہیں۔ قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر مصباح الحق اور وقار یونس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ زور شور سے کیا جارہا ہے مگر کیا مصباح اور وقار کو تبدیل کرنے سے قومی ٹیم ایک دم سے کامیابیوں کے سفر پر چل پڑے گی۔
جی نہیں صرف کوچیز کی تبدیلی سے ایسا ممکن نہیں۔

قومی ٹیم کی مسلسل ناقص کارکردگی پر ہمیں ان عوامل کا جائزہ لینا پڑے گا جس کی وجہ سے ہماری کرکٹ مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ کسی بھی ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ کو نیا ٹیلنٹ سامنے لانے اور نکھارنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اور آپ کی ڈومیسٹیک کرکٹ سے ہی آپ کو مستقبل کے  سٹار اور پھر سُپر  سٹار ملتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا ڈومیسٹک سسٹم انتہائی ناکارہ اور بوسیدہ ہے۔ جہاں آج بھی ستر کی دہائی کی بے جان اور مردہ پچیز تیار کی جاتی ہیں۔ ان بے جان اور مردہ پچوں سے کبھی بھی نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آسکتا۔ ہمارا ڈومیسٹک سسٹم ابھی تک بابائے آدم کے زمانے کی طرز پر چلتا آرہا ہے۔ ان بے جان اور مردہ پچوں پر بیٹسمین رنز کے ڈھیر لگاکر قومی ٹیم تک رسائی تو بڑی آسانی سے حاصل کرلیتے ہیں۔ اور دبئی شارجہ کی طرز کی مردہ پچوں پر اسکور کرکے اپنے کالر بھی کھڑے کرلیتے ہیں، مگر بیرون ملک خصوصاً آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ اور انگلینڈ کی تیز باونسینگ وکٹوں پر وہ ڈرے سہمے نظر آتے ہیں اور ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ جس کا عملی مظاہرہ آپ حالیہ دورہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں دیکھ ہیں چکے ہیں۔

دوسری طرف موجودہ حکومت نے جہاں اپنی ناقص کارکردگی دیگر اداروں کو نقصان پہنچایا وہیں وزیر اعظم عمران خان صاحب نے تمام تر مخالفت کے باوجود اداروں کی کرکٹ ختم کرکے نوجوان کھلاڑیوں کو بے روزگار کردیا۔

اگر آپ کرکٹ کی ترقی اور نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے اپنے ڈومسٹک سسٹم کو مضبوط بنانا پڑے گا۔ پاکستان میں کرکٹ کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے جسے تلاش کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر کرکٹ اکیڈمیوں کا قیام ، کرکٹ کلبوں کی سرپرستی اور تعلیمی اداروں میں کرکٹ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان اقدامات پر عمل کیے بغیر اگر آپ محض کپتان اور کوچیز تبدیل کرکے فتوحات حاصل کرکے دنیا کی ٹاپ ٹیموں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو معذرت کے ساتھ اس کو ہم صرف دیوانے کے خواب سے ہی تشبیہ دیں گے۔

Facebook Comments

سلمان نسیم شاد
فری لانس جرنلٹس، رائٹر , بلاگر ، کالمسٹ۔ بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی انقلابی شخصیت ہیں اور ایک علمی و ادبی و صحافتی گھرانے سے وابستگی رکھتے ہیں. پاکستان میں میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے ان کے اجداد کی لازوال قربانیاں اور کاوشیں ہیں۔ چی گویرا، لینن، اور کارل مارکس سے متاثر ہیں، دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور ان کی پالیسی کے شدید ناقد ہیں۔ جبکہ ملک میں سول سپریمیسی اور شخصی آزادی کا حصول ان کا خواب ہے۔ Twitter Account SalmanNasimShad@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply