بیس سال بعد کیا ہوگا؟۔۔۔ کیمیکو ڈی فری ٹاس تامورا

لندنـــ صدیوں بعد نہیں بلکہ 20 سال بعد ہمارا مستقبل کیا ہو گا ؟ اگر ہم یول نوح ہراری پر یقین کریں جو اسرائیلی مؤرخ ہیں اور جنہوں نے ” سیپینز’ اور ” ہومو ڈیوز ” جیسی دو بے مثال کتب لکھی ہیں اور ان میں انہوں نے انسانوں کی مختصر تاریخ بیان کی ہے اور پیشن گوئی کی ہے کہ آگے کیا ہو گا : ٹیکنالوجی اور الگورتھم کا زمانہ جس میں ہم دیکھیں گے کہ کیسے انسان خدائی طاقتوں والے اعلی انسان میں تبدیل ہو جائے گا۔ نیو یارک ٹائمز کی منعقد کردہ ایک تقریب میں جناب ہراری نے ٹائمز کے ایک کالم نگار تھامس ایل فرائیڈ نے ایک پیشین گوئی کی ہے۔ انہوں نے خبر دار کیا کہ:” انسانوں نے ایک ایسی پیچیدہ دنیا بنا دی ہے کہ ہمیں عنقریب یہ احساس بھی نہیں ہو پائے گا کہم کیا ہو رہا ہے۔ ” اس انٹرویو کی سرخیاں درج ذیل ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور مشینی عمل ایک ” عالمی بے کار طبقے” کو جنم دے گا ۔ بلکل ایسے ہی جیسے صنعتی انقلاب نے مزدور طبقے کو جنم دیا تھا۔

آنے والی دہائیوں کی  سیاسی اورمعاشرتی تاریخ میں یہ نیا طبقہ امید اور خوف کے گرد گھومے گا۔ یہ منتشر ٹیکنالوجی جس نے بے پناہ ترقی میں مدد کی، اگر ہاتھ سے نکل گئی تو بہت تباہ کن ہو سکتی ہے۔ ” ہر ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نیوکلیئر وار بے حد خوفناک ہے۔ کوئی بھی یہ لڑائی کرنا نہیں چاہتا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کیسے بچا جائے۔ اس شر انگیز ٹیکنالوجی سے خطرات بہت زیادہ ہیں، کیوں کہ اس میں بہت طاقت ہے۔ بہت سی طاقتیں ہمیں ان ٹیکنالوگیز میں تیزی سے ترقی کرنے پر مجبور کر رہی ہیں اور پہلے سے ہی اس کا کمیونٹی پر، رشتوں اور سیاست پر کیا اثر ہو گا یہ نتیجہ اخذ کرنا بہت مشکل ہے ۔ ” نئی ٹیکنالوجی جمہوریت پر حاوی ہو جائے گی اور ہمارے ہونے کے احساس پر بھی۔ آئی ٹی اور بائیوٹیک کا مجموعہ اس مقام پر پہنچ جائے گا جہاں وہ ایسا سسٹم اور لاگرتھمز بنا ئے گا کہ ہم سے بہتر ہمیں سمجھ پائے گا۔ ”

ایک بار اگر آپ کے پاس بیرونی منفصل حصہ ہو جو آپ کو آپ سے بہتر جان پائے تو لبرل جمہوریت جسے ہم پچھلی صدی سے جانتے ہیں وہ ختم ہو جائے گی۔ لبرل جمہوریت انسانیت کے احساسات پر یقین رکھتی ہے ، اور یہ آپ کے احساسات ایسے سمجھتی ہے جیسے آپ خود یا آپ کی ماں۔ لیکن اگر کوئی ایسا حساب کتاب دریافت ہو گیا جو آپ کو آپ کی ماں سے بہتر جان پائے اور آپ کو خبر بھی نہ ہونے پائے کہ ہو کیا رہا ہے تو لبرل جمہوریت ایک تماشہ بن کر رہ جائے گی۔ کیا ہو گا اگر آپ کا دل غیر ملکی ایجنٹ ہو ، ایک ایسا ایجنٹ جو دوسرے کسی کو بھی اپنی خدمات مہیا کر رہا ہو ، جسے پتہ ہو کہ آپ کے احساسات کےکو ن سے بٹن د بانے ہیں اور آپ کو خوش کیسے کرنا ہے؟” یہ اس قسم کی دھمکی ہے جو ہمارے آج میں راسخ ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر رائے دہندگان کی رائے اور الیکشنز  میں۔ ٹیکنالوجی تباہی مچانے کا ایک نیا آلہ ہے اور یہ گروہوں کے نہیں بلکہ افراد کے مخالف ہے۔ بیسویں صدی میں، مختلف وجوہات کی بنا پر ،امتیازات گروہوں کے خلاف استعمال کیے جاتے تھے ۔

البتہ وہ لچکدار تھے کیوں کہ ان کی بنیاد درست نہیں تھی اور متاثرین اکھٹے ہو کر سیاسی ردعمل کر سکتے تھے۔ لیکن آنے والے سالوں اور دہائیوں میں ہم انفرادی امتیازات کا سامنا کرینگے اور یہ شاید اس بات پر منحصر ہو گا کہ آپ کتنا اجھا جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔ اگر لوگرتھم کسی کمپنی کی طرف سے لاگو ہو گی جیسے فیس بک دیکھین یا DNA ، سکول کے یا پیشہ ورانہ ریکارڈ ہوں، بہت اچھےطریقے سے اندازہ لگایا جا سے جانا جا سکتا ہے کہ آپ کون ہیں۔ آپ اس امتیاز کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر پائیں گے کیوں کہ یہ صرف آپ ہی ہیں۔ وہ آپ کو آپ کے حبشی یا خواجہ سرا ہونے پر امتیاز نہیں کر سکتے کیوں کہ آپ ایک پہچان رکھتے ہیں ۔ اور اس سے بھی بد تر یہ کہ یہ سچ ہو گا۔ یہ مزاحیہ لگتا ہے پر یہ بے حد ہولناک چیز ہے ۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمیں ہمارے آباؤ اجداد کے فیصلوں کا انعام حاصل کرنے میںصدیاں بلکہ ہزاروں سال لگ جائیں گے۔ مثال کے طور پر گندم میں اضافہ ایک زرعی انقلاب ہے اور کچھ نہیں۔ وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ لمبے عرصہ کے لیے صدیوں یا میلینیم جیسے الفاظ استعمال نہیں ہونگے ۔

تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہمیں نہیں پتا کہ 20 سال بعد انسانی معاشرہ کیسا ہو گا ۔ صرف جغرافیائی سیاست کے اساسوں کا نہیں بلکہ ملازمت کے بازار کیسے ہونگے، لوگوں کو کس قسم کہ مہارتیں سیکھنے کی ضرورت ہو گی، خاندان کیسے ہونگے، جنسی رشتوں کی کیا صورت ہو گی۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ہمیں نہیں پتہ کہ سکولوں میں کیا پڑھایا جائے گا۔ لیڈرز ماضی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس مستقبل کے بارے میں کسی اولین نظریے کی کمی ہوتی ہے۔ لیڈر اور سیاسی پارٹیاں ابھی تک بیسویں صدی میں ہی اٹکی ہوئی ہیں ، ان کو ذرہ برابر بھی اس بات کی بھنک نہیں کہ 20 سال بعد ملازمت کے بازار کیسے ہونگے کیوں کہ وہ دیکھ ہی نہی سکتے۔ 2050 میں انسان کہا ںہو گا اس بارے میں با معنی مقاصد بنانے کے بجائے ماضی کے بارے میں افسانے گھڑ رہے ہیں۔ اور ایک مقابلہ سا لگا ہوا ہے کہ کون سب سے
زیادہ پیچھے دیکھ سکتا ہے۔ ٹرمپ 1950 میں واپس جانا چاہتا ہے۔ پیوٹن در اصل زار سلطنت میں واپس جانا چاہتا ہے جو کہ سترہویں سال کے عرب کا زمانہ تھا۔ اسرائیلی جو ہر اک کو مات دیتے ہیں وہ 2500 سال پیچھے جانا چاہتے ہیں جو بائیبل نازل ہونے کا زمانہ ہے تاکہ وہ جیت جائیں ۔ ہمارے پاس تویل ترین مدت کو واپس جانے کے مقاصد ہیں۔ کوئی پہلے سے مقرر تاریخ نہیں ہے۔ ہم آخری ناگزیر کہانی کے اختتام میں جی رہے ہیں۔ 1990 میں دنیا کے لوگ یہ ماننے لگے تھے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ کہ بیسویں صدی کے عظیم نظریے کی جنگ لبرل جمہوریت اور فری مارکٹ سرمایہ داری نے جیت لی ہے۔ یہ ایک معصوم سی بات لگتی ہے کہ ہم شدید وہم اور گھبراہٹ کی دنیا میں جی رہے ہیں کیوں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ ہم اب یہاں سے کہاں جائیں گے۔ نئی ٹیکنالوجی کے منفی پہلو کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ سند یافتہ ، انجینئیر، لیبارٹری میں موجود لوگ قدرتی طور پر بہت بڑے مفاد کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جو ان ٹیکنالوجیز سے انہیں ہو سکتے ہیں لیکن اگر تاریخ دانوں ، فلسفیوں اور معاشرتی سائنسدانوں کو دیکھیں جو ہر طرف دیکھتے اور سوچتے ہیں جن کے مطابق سب الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ اس پیچیدہ دنیا کو بعض اخلاقیات کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ اچھا کرنے کے لیے صرف اچھا ہونا کافی نہیں، آپ کو اثرات اور وجوہات کی زنجیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر آج چوری کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے ۔ بائیبل نازل ہونے کے زمانے میں اگر آپ چوری کرتے تھے تو آپ کو پتہ تھا کہ یہ چوری ہے اور اس کے متاثرہ شخص پر کیا اثرات ہوں گے ۔

لیکن آج چوری سرمایا کاری بن گئی ہے بلکہ نا دانستہ طور پر ایک بہت منافع بخش لیکن غیر اخلاقی عمل جو ماحول کو برباد کر رہا ہے اور وکلاء کی ایک پوری آرمی اور ٹیڑھے میٹھے راستوں کے ذریعے قانونی مقدموں اور ضوابط سے حفاظت بھی مل جاتی ہے۔ کیا میں دریا چوری کرنے کا گناہ گار ہوں؟ حتی کہ میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی نہیں جا نتا کہ کارپوریشن پیسا بنا رہی ہے۔ مجھے کئی ماہ یا سال جگ جائیں گے یہ جاننے میں کہ میرا پیسا کس کام آرہا ہے۔ اور اس دوران میں کئی جرائم اور گناہوں کا حصہ دار بن جاؤں گا جس کا مجھے ذرہ بھر اندازہ نہیں۔ مسئلہ ان اثرات اور وجوہات کی چین کو سمجھنا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہومیوسیپینز اس قابل نہیں ہیں۔ ہم نے ایسی پیچیدہ دنیا بنا لی ہے کہ اس قابل بھی نہیں رہیں گے کہ جان سکیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اس کا کیا مطلب کیا مقصد ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دنیا پاکستان

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply