اب عمر کی نقدی ختم ہوئی۔۔قراة العین حیدر/افسانہ

اس کی طبعیت کچھ بوجھل تھی۔اور گھر کا ماحول میں جھجھک ہونے کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس بوجھل پن کی وجہ ماں کو کیسے بتائے۔۔۔۔    وہ ایک مقامی لیڈی ڈاکٹر  کے پاس  گئی  ۔معمولی چیک اپ کے بعد نسخہ بناتے ہوئے ڈاکٹر نے اس کی عمر پوچھی اس نے بتایا تینتالیس سال۔ “دیکھو یہ ہارمونل ڈسٹربنس ہے کچھ خواتین میں یہ پہلے ہوجاتا ہے اور کچھ کو تھوڑا ٹائم لگتا ہے۔ یہ کیفیت نارمل خواتین میں ایک روٹین میٹر ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں ،تھوڑا آرام کریں،  ملٹی وٹامن لیں اور ذہن کو ہر طرح کے بوجھ سے دور رکھیں۔” ڈاکٹر کی بات وہ بہت آرام سے سن رہی تھی۔ بے دلی سے وہاں سے نکلی اور گھر آگئی۔ دل بوجھل ہونے کے ساتھ بھر آیا تھا۔ اپنے کمرے میں آکر وہ تکیہ میں منہ چھپا کر آنسو بہانے لگی۔ امید کی آخری کرن بھی ختم ہوگئی تھی۔ اس کے اس دکھ کو کبھی کسی نے محسوس نہ کیا کہ وہ کتنی تنہا ہے۔ جوانی کدھر آئی اور کب ڈھل گئی کسی نے کبھی نہیں سوچا۔۔۔۔۔ پہلے تو محض چند بال ہی سفید ہوئے تھے جنہیں ابھی باقاعدگی سے رنگنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ دیکھنے میں وہ ابھی بھی جوان تھی لیکن اب ڈاکٹر کے مطابق وہ ایک بوڑھی عورت ہوگئی ہے۔ ایسی عورت جو مرد کے کسی کام کی نہیں۔

نگھی دھوپ میں چھت پر بیٹھا حبیب اخبار کے مطالعہ میں گم تھا کہ اچانک اس کی نظر نیچے برآمدے میں قدِ آدم آئینہ کے سامنے کھڑی فائزہ پر پڑی۔ وہ کیا کررہی تھی؟  ذرا غور کرنے سے پتا چلا کہ بال رنگ رہی ہے۔ یہ فائزہ اتنی بڑی کب ہوگئی کہ بال رنگنے لگی۔ اسے ایک لمحے کیلئے کچھ عجیب لگا وہ اتنی بوڑھی تو نہ تھی کہ بال رنگنے کی نوبت آتی۔ خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اس کی عمر کا حساب لگانے لگا۔ پورے تینتالیس سال ۔۔۔۔۔ وہ رک سا گیا ۔۔۔ یہ وقت اتنی جلدی کیسے گزر جاتا ہے ابھی کل کی تو بات تھی جب یہ گول مٹول پیاری سی بچی تھی پاپ کارن کھانے کی شوقین۔ وہ ماضی کی پرانی یادوں میں کھو گیا اور فائزہ ایک ننھی منی سی گول مٹول بچی کے رُوپ میں اس کے سامنے آگئ۔ “ابو جی میں نے پاپ کارن کھانے ہیں ” ۔ ” جی میں ابھی اپنی بیٹی کو لے کر دیتا ہوں۔” پاپ کارن والے کو روک کر بچی ابھی سے خوش ہورہی تھی۔

حبیب اے جی آفس میں جونئیر کلرک تھا۔ سیلف میڈ بندہ کچھ شریف اور سفید پوش سا دو بیٹے اور ایک بیٹی کل کائنات تھے۔ اس کی بیوی اس کی ماں کی پسند تھی۔۔۔۔ ماں کی پسند کبھی اس کی پسند نہ بن سکی اور اس نے خاموشی سے یہ کڑوا گھونٹ بھر لیا۔ یہ شادی ایک کڑوا گھونٹ کیوں تھی اس کی بھی ایک بڑی وجہ تھی۔ اس کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ محض بارہ سال کا تھا اور اس سے چھوٹے  تین بہن بھائی  تھے۔ ماں نے لوگوں کے کپڑے  سی کر انہیں پالا تھا۔ سکول کے بعد وہ عارضی نوکریاں کرتا بی اے پاس کر ہی گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے اسے کلرک بھرتی کروادیا اور گھر کی مستقل دال روٹی چل نکلی۔ چھوٹی بہن کی ماموں کے گھر شادی ہوگئی اور بھائی بھی پڑھ لکھ کے کمانے لائق ہوگئے ۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی محلے کی ایک خوبرو لڑکی کو دیکھا تھا اب وہ ماں کو منانے کے در پہ تھا کہ وہ وہاں اس کے رشتے کی بات شروع کرے۔ لیکن ماں اونچے خواب دیکھ رہی تھی اسے محلے کی عام سی لڑکی میں اپنے بیٹے کیلئے کوئی خاص بات نظر نہیں آرہی تھی۔ لیکن حبیب ماں کے سامنے ڈٹ گیا، ماں کو  اور سلمہ بیاہ کر اس کے گھر میں آگئی۔

نچلے طبقے کا ایک غلیظ محلہ جہاں معمولی مزدور طبقے کے لوگ رہائش پذیر تھے۔۔۔۔ جس میں خالدہ کا بیٹا ہی تھا جو بابو تھا اور باقی دونوں بھی بابو بننے کی تیاری کررہے تھے۔ باقی کوئی مالی تھا،  کوئی درزی کی دکان کا کاریگر تھا،  کوئی چھوٹے موٹے ہوٹل میں ملازم ۔۔۔۔ کوئی چپڑاسی اور زیادہ خوشحال ہو تو مکینک۔ ایسے محلے میں ایک جونئیر کلرک کی ماں ہونا باعثِ تفاخر تھا۔ لیکن حبیب گِرا بھی تو کس پہ سلمہ پہ جس کا باپ ایک مکینک تھا۔ وہ تو بڑے گھر کی بہت پڑھی لکھی لڑکی لانے کے خواب دیکھ رہی تھی جو گھر بھر کے جہیز بھی لائے۔ سلمہ گھر کیلئے ایک اچھا اضافہ تھا لیکن ایک ماں تھی جسے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ معمولی تعلیم یافتہ،  ادب آداب والی،  خوش شکل اور خوش مزاج لیکن پتا نہیں کیوں اماں کو وہ   اچھی  نہیں لگتی تھی۔ شاید ہمارے یہاں کی مائیں اپنے پیدا کئے ہوئے بیٹے کی اس خواہش کا احترام کرنا گناہ سمجھتی ہیں ۔ کتنی ہی عورتیں تمام عمر چکی کے پاٹوں میں پِستی ہیں اور ان کا گناہ صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ساس کی نہیں میاں کی پسند ہیں۔
شروع کے دو مہینوں میں ہی گھر کے حالات خراب ہونے لگے۔ سلمہ کے ہر کام میں عیب نظر آنے لگے۔ پہلے پیچھے سے برائیاں کی جاتی تھیں۔۔۔ اب منہ پر اسے غریب گھر کی،  پھوہڑ،  بدسلیقہ،  بدصورت اور جانے کیا کیا کہا جاتا رہا۔۔۔۔ سلمہ اس سارے معاملے کو سمجھتی تھی لیکن بولنے کی ضرورت کیا تھی۔ ہمارے یہاں بیٹی کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ منہ بند رکھنے میں ہی عافیت ہے کیونکہ گھر جو بسانا ہے۔ لیکن پھر اس دن اماں حد سے ہی گزر گئیں جب دروازے کی اوٹ میں کھڑی سلمہ سبزی والے سے سبزی کے بارے میں بھاؤ تاؤ کررہی تھی۔ اماں کو تو موقع چاہیے  تھا انہوں نے جلی کٹی سنانا شروع کی اور خاطر خواہ رسپانس نہ پا کر اسے آوارہ بدچلن کے الزامات لگانے شروع کردئیے۔ اب تو سلمہ بھی غصے سے لال پیلی ہوگئی۔۔۔۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ سبزی والے سے سبزی کے متعلق بھاؤ تاؤ کو نئے رنگ میں پیش کیا جائے۔ اس نے بھی آج اماں کو ترکی بہ ترکی جواب دئیے۔ شام تک دونوں لڑجھگڑ کر چپ ہوگئیں لیکن حبیب کے گھر آتے ہی معاملہ پھر سلگنے لگا۔
ماں ۔۔۔۔۔ ماں تھی اس لئے صرف اس کی سنی گئی ۔۔۔۔ اور سلمہ کو تین الفاظ کہہ کر گھر سے نکال دیا گیا۔ عورت مظلوم ہونے کے ساتھ کتنی سفاک بھی ہے۔ محلے کے لوگوں نے ثالثی کردار کرنے کی بےحد کوشش کی لیکن وہاں تھا ہی کیا کہ معاملہ سلجھتا۔ چند مہینوں بعد حبیب کے خاندان نے نسبتاً خوشحال علاقے میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ماں نے شکرانہ ادا کیا کہ ایسے غلیظ محلے سے نجات ملے گی۔ حالانکہ اسی محلے میں اس کے بچوں نے ترقی کی تھی لیکن انسان بہت مطلبی ہے ۔ بدلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ نئے علاقے میں آتے ہی ماں نے حبیب کیلئے رشتے کی دوڑ دھوپ شروع کردی اس نے ایک اچھے گھرانے میں رشتہ بھی طے کردیا۔ لڑکی بےحد حسین تو نہ تھی لیکن اچھا جہیز ملنے کی امید خوب تھی۔

گھر سے نکالتے ہوئے تو اسے سلمہ کا خیال نہیں آیا لیکن پانچ چھ سال بعد اپنے پرانے محلے دار چاچا اللہ دتے کے انتقال پر وہ ماں کے ساتھ پرانے محلے میں آیا تو یہ سوچ کر نہیں آیا تھا کہ ایک جھلک سلمہ کی بھی دِکھے گی۔ تنگ گلی والے گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی پہلی نظر سلمہ پر پڑی۔ اس کی زرد رنگت اور اجڑاپن سب کے سامنے تھا۔ معمولی کپڑے اور کھچڑی بالوں نے اسے وقت سے بہت پہلے بڑھیا بنا دیا تھا۔ اسے دیکھ کے حبیب کو دھچکہ سا لگا کہ کیا یہ وہی لڑکی ہے جس کے گلی سے گزرنے پر مرد چھپ چھپ کے اسے دیکھا کرتے تھے۔ ان گزرے ہوئے پانچ سالوں نے حبیب کا تو کچھ نہ بگاڑا لیکن یوں لگتا تھا کہ سلمہ کی زندگی کی شاید پانچ دہائیاں گزر گئی ہیں۔ ایک عجیب سے دکھ کا احساس پہلی بار اسے ہوا۔ لوگوں کے ہجوم سے باہر نکل کر وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا سگریٹ سلگا رہا تھا تو اس نے اپنے بچپن کے ہم جماعت نواز کو دیکھا جس کا گھر سلمہ کے گھر سے متصل تھا۔ اس سے اِدھر اُدھر کی باتوں میں سلمہ کے بارے میں پوچھا تو نواز نے بتایا کہ اس کے ماں باپ نہیں رہے۔۔۔ گھر بھائیوں کے قبضے میں ہے اور وہ سلائی کرکے اپنی گزر بسر کرتی ہے۔ اس نے شادی نہیں کی کہتی ہے ایک دفعہ کرکے دیکھ لیا اب کون بار بار بھُگتے؟  سلمہ کی زرد رنگت خاموشی، اذیت، کرب اور نم آنکھیں اس کے دل و دماغ  پر اثر ڈالنے لگی۔ حبیب کا دل بہت برا ہوا وہ اس سارے مسئلے میں خود کو موردِ الزام سمجھنے لگا۔

زندگی رکنے والی چیز تو ہے نہیں دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھلنے لگے۔ بچے جوان۔۔۔۔ اور جوان بوڑھے ہونے لگے۔ ماں کا ساتھ چھُوٹ گیا اور بھائی بہن اپنے اپنے گھروں میں مصروف ہوگئے۔ اس کے بعد وہ کبھی پرانے محلے کی طرف نہیں گیا۔ سلمہ کی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ کس حال میں ہے؟  اس کا وہ حال اور حُلیہ اس کے دل میں پھانس بن کر رہ گیا۔ اس کی بیٹی فائزہ اچھی شکل کی ذہین لڑکی تھی۔۔بیٹی کے کالج میں جاتے ہی اس نے رشتے نظر میں رکھنے شروع کردئیے۔ دو بھائیوں سے بڑی تھی۔۔۔۔ خوش شکل،  خوش لباس اور سلیقہ مند حبیب کو امید تھی کہ اللہ نے چاہا تو اچھا رشتہ جلد مل جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔۔۔۔ اس نے بہن بھائیوں،  رشتہ داروں،  عزیز و اقارب میں کافی کوشش کی لیکن بات بن نہ سکی۔ مجبوراً رشتے کروانے والوں سے رابطہ کرنا شروع کیا۔ بیٹی بی ایڈ کررہی تھی کہ حبیب کو فالج کا دورہ پڑا تو وہ بستر کا ہوکر رہ گیا۔ وقت سے پہلے کی ریٹائرمنٹ نے اس کی کمر توڑ دی۔ اور جمع پونجی سے بڑے بیٹے کو منیاری کی دکان ڈال دی۔

بیٹی نے بھی گھر کے حالات دیکھتے ہوئے مقامی سکول میں ملازمت کرلی۔ اور گھر کی گاڑی چل پڑی۔ بیٹے کے رشتہ دیکھنے والے نہ جانے کیوں گھر کیلئے بہو نہیں بلکہ برانڈڈ پیس ڈھونڈتے ہیں آج کل کے دور میں تعلیم و تربیت،  خاندانیت،  اخلاق،  اقدار کی کوئی اہمیت نہیں لوگوں کو کم از کم سولہ سال کی بی اے پاس لڑکی درکار ہے جو حسن میں فلمی ہیروئن کا مقابلہ کرتی ہو اور گھر بھر کر جہیز بھی لائے۔ ایسا کہاں ممکن ہے؟
دھیرے دھیرے بیٹی کی عمر ڈھلنے لگی ۔۔۔  ہمارے ہاں تو ملازمت کرنے والی لڑکیوں کو یوں بھی شادی کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ رشتے والے آتے۔۔۔دیکھتے۔۔۔ کھاتے پیتے اور خاموشی سے چلے جاتے۔ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جو لڑکی چائے کی ٹرے سجا کے لارہی ہے اس کے کچھ جذبات ہیں ۔۔۔۔ اس کے کچھ ارمان ہیں۔ وقت کے بے رحم دھارے میں یہ جذبات اور ارمان بےحسی کے پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر کُچلے جاتے ہیں ۔ اور پھر اس بے رحم دھارے میں اگر کوئی امید کی کرن دِکھتی بھی ہے تو ناامیدی کے بادل اتنے عمیق ہوتے ہیں کہ وہ امید کی کرن جذبات تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔

   فائزہ تیس کے پیٹے میں آگئی۔۔۔۔وہ یہ سوچنے لگی کہ اگر اس کا گھر نہیں بستا تو وہ بھائیوں کا گھر تو بسنے دے۔  بھائی بھی اچھا کمارہے تھے اس نے والدین کو قائل کر ہی لیا اور دونوں بھائیوں کی شادیاں کردیں۔ گھر میں رونق سی لگ گئی بوڑھے والدین نے کچھ کچھ اطمینان کا سانس لیا۔ اب انہیں بس بیٹی کی فکر تھی کہ اس کا بھی اپنا گھر ہوجائے لیکن قسمت نہیں کھلنی تھی نہ کھلی۔ فائزہ بھائیوں کے بچوں پر جان دیتی تھی۔۔۔  اس کے اپنے بچے نہیں تھے تو کیا ہوا۔۔۔۔ اس کے بھائیوں کے بچے تھے۔ اپنے سکول کی وہ ہر دلعزیز استاد تھی۔ طالب علم بھی اس کے گرویدہ تھے۔  ایک دن وہ اپنے بھتیجے کو پانی پلا رہی تھی کہ بچے کو غوطہ لگ گیا اس کی بھابی نے چیل کی طرح جھپٹ کر بچہ چھین لیا اور اس کو صلاواتیں سنانے لگیں کہ ہاں ہاں میرے بچے کو کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔ وہ ڈر ہی گئی اور آئندہ کیلئے بچے اٹھانے سے گریز کرنے لگی۔ ۔۔۔۔ پہلے وہ سوچا کرتی تھی کہ شادی ہوجائے گی تو اپنا گھر ایسے سیٹ کروں گی۔۔۔ ایسے کھانے پکاؤں گی۔ لیکن عمر کے بڑھنے سے اس کے اندر عورت جذبات کے بجائے مامتا انگڑائیاں لے کر بیدار ہوگئی ۔ اس کی دِلی خواہش تھی کہ اس کے اپنے بچے ہوں وہ بھی بلاجھجک انہیں گود میں اٹھائے۔ شتابی سے منہ چومے۔۔۔ سینے سے لگائے۔ لیکن امید کی کرن ابھی باقی تھی وہ اکثر سوچا کرتی کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے میری شادی ہوجائے خدا مجھے بھی مکمل کردے۔۔۔۔ میں بھی اپنے بچے کو گود میں کھِلاؤں لیکن معجزے آج کل کے دور میں کہاں ہوتے ہیں؟؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

       آج کئی دنوں کی مضمحل طبعیت کے بعد وہ سکول واپسی پر ڈاکٹر کے پاس گئی  تو اس نے اس کی صحت کے پیشِ نظر جو بتایا اسے سوچ کر ہی اس کا دل بھر آیا۔ کیا تھا کہ خدا اسے پیدا ہی نہ کرتا؟ اس کا جسم کسی مرد کے لمس تک سے ناآشنا تھا ۔۔۔ اس نے کبھی خود پر بُری نظر تک نہیں پڑنے دی تھی اور ایسی عورت ہمیشہ کیلئے ادھوری ہو تو اس کی سوچ کہاں تک جائے گی۔۔۔۔عورت کی تو تکمیل ہی اولاد سے ہے اور وہ تو اس آس پر تھی کہ شاید کبھی قدرت کو اس پر ترس آجائے اور اس کی دِلی مراد پوری ہوجائے۔ لیکن شاید خدا بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ سادہ لوح ماں نے اسے زار و قطار روتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا ہوا ہے وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی “میری امیدیں ختم ہوگئیں ماں۔۔۔۔۔ میں جیسی اس دنیا میں آئی تھی میں ویسی ہی رہوں گی۔۔۔۔ میرے لئے ہاتھ اٹھانے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ میں ادھوری تھی ادھوری رہوں گی۔۔تم کتنی خوش قسمت ہو ماں ۔۔ خدا نے تمہارے پاؤں کے نیچے جنت رکھی ہے۔۔۔۔تمہارے مرنے کے بعد تمہاری اولاد تمہارے لیے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے گی ۔ اولاد کی اولا بھی ہاتھ اٹھائے گی۔ میرا کیا ہے نہ آس نہ اولاد۔۔۔۔ لاوارث۔ اس کے رونے کی آواز باپ کے کانوں میں بھی پڑی تو اس نے نظر اٹھا کر اپنی لاڈلی کی طرف دیکھا جہاں ویسا ہی کرب،  اذیت،  نمناک نظریں اور اجڑاپن تھا جو برسوں پہلے سلمہ کے چہرے پہ تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply