سوشلسٹ فیمنزم کا ملغوبہ ۔۔شاداب مرتضی

سوشلسٹ فیمنزم کا تنظیمی و سیاسی اصول بھی اس کے نظریاتی اصول کی مطابقت میں یہ ہے کہ سوشلسٹ مرد اپنی الگ تنظیم بنائیں اور سوشلسٹ عورتیں اپنی علیحدہ تنظیم بنائیں تاکہ سوشلسٹ مرد اور سوشلسٹ عورتیں صنفی بنیاد پر اپنی الگ الگ “صنفی” تنظیمیں بنا کر معاشرے میں مرد اور عورت کے درمیان صنفی امتیاز و نابرابری کو ختم کرنے کی جدوجہد کو کامیاب کر سکیں! یا اس مثل کے مطابق کہ خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ صنفی مساوات کے سب سے بڑے خود ساختہ علمبردار، یعنی سوشلسٹوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی تنظیموں اور تحریکوں میں عورت کی مساوات کو “سوشلسٹ” عورتوں کی علیحدہ تنظیمیں بنا کر رائج کریں۔

یہ ایک دلچسپ خیال ہے۔ مثلاً  سوشلسٹ سیاست کی خواہشمند عورتیں سوشلسٹ “فیمنسٹ” عورتوں کی علیحدہ صنفی تنظیم میں جائیں اور سوشلسٹ سیاست کے خواہشمند مرد سوشلسٹ مردوں کی صنفی تنظیم میں کام کریں۔ صنف کے مطابق سوشلسٹوں کی سیاسی و تنظیمی تقسیم کے زریعے صنفی “مساوات” قائم کرنے کا یہ ایک بہت سادہ سا ریاضیاتی فارمولا ہے جو کم از کم سوشلسٹوں کے درمیان صنف کی بنیاد پر عورت کی عدم مساوات کے امکان کو ختم کردیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  سوویت یونین میں سوشلزم کی پسپائی کے محرکات۔۔شاداب مرتضٰی

اسی سادہ شکل میں اس فارمولے کا اطلاق ایک ہی فیکٹری یا صنعت میں کام کرنے والی عورتوں اور مردوں کی (مزدوروں کی) صنف کی بنیاد پر علیحدہ ٹریڈ یونینیں قائم کر کے ان کے درمیان صنفی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس جادوئی فارمولے کو ملازمت پیشہ افراد اور کسان طبقے کی تنظیم کاری میں بھی عورتوں کی سیاسی و تنظیمی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے عمل میں لایا جاسکتا ہے! مزید یہ کہ طلباء و طالبات کے درمیان موجود عدم مساوات کو بھی اس فارمولے سے یوں حل کیا جا سکتا ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں صنفی علیحدگی کی بنیاد پر طلباء کی الگ اور طالبات کی الگ شاگرد تنظیمیں قائم کر دی جائیں۔

الغرض، سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے عورت کے سیاسی و تنظیمی حقوق کے استحصال کو ختم کر کے ان شعبوں میں صنفی مساوات قائم کرنے کا یہ ایک ایسا فارمولا ہے جس سے سوشلسٹ فیمنسٹوں کے نزدیک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ہی پدرسری نابرابری کو ختم کرنے کے اصلاحی اقدامات اٹھائے جا سکتے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے علیحدگی کے ذریعے مساوات کا یہ فارمولا صرف فیمنزم کو ہی مرغوب نہیں۔ بغور دیکھیں تو یہ آپ کو شناخت کی سیاست سے لے کر ہر اس سماجی تحریک میں ملے گا جو سماجی عدم مساوات، نابرابری اور استحصال کو جنم دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کے بجائے اس کے اندر رہتے ہوئے اپنا حق حاصل کرنے کی جدوجہد میں کوشاں ہے۔

فریڈرک اینگلز کی یہ بات بہت نظریاتی گہرائی رکھتی ہے کہ “۔۔۔یہ بالکل بے بنیاد خیال ہے کہ جب سماج کی ابتداء ہوئی اس وقت عورت مرد کی غلام تھی۔ یہ خیال ہمیں اٹھارویں صدی کی “روشن خیالی” سے وراثت میں ملا ہے”۔۔ سوشلسٹ فیمنزم کی ترقی پسند اور روشن خیال نظریاتی جڑ بھی اسی وراثت میں ہے۔ اس نظریاتی وراثت کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ ہمارے سوشلسٹ فیمنسٹ عورت اور مرد کے درمیان عدم مساوات کو سرمایہ دارانہ نجی ملکیتی سماجی نظام کا شاخسانہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ “ہمیشہ” سے قائم پدرسری نظام کو یعنی عورت پر مرد کے صنفی غلبے کو عورت کے استحصال کا سبب مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کے استحصال کے خاتمے کے لیے ان کا بنیادی ہدف پدرسری نظام اور بنیادی ایجنڈہ طبقاتی سماجی نظام کو ختم کیے بغیر صنفی مساوات کا قیام ہوتا ہے نہ کہ سوشلسٹ انقلاب کے زریعے سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی اقتدار کا تختہ الٹنا۔ یہی سبب ہے کہ صنف، عورت اور پدرسری نظام ہی ان کے فکر و عمل کا مرکزہ بنے رہتے ہیں۔ ہمارے ان سوشلسٹوں کی جدوجہد کا محور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں بلکہ مرد کی بالادستی کا خاتمہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  سوشلزم نجات کا راستہ ہے۔ضیغم اسماعیل خاقان

اٹھارویں صدی کی روشن خیالی، یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندہ آئیڈیالوجی، لبرل ازم، کی یہی کھوکھلی نظریاتی جڑ انہیں اس حد تک لے جاتی ہے کہ یہ عورت کو طبقات سے ماورا سماجی وجود شمار کرنے لگتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ عورت طبقاتی تقسیم سے ماورا ہے، کہ ہر طبقے کی عورت مرد کے ظلم کا شکار ہے! اپنی صنفی عقیدہ پرستی میں یہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ سرمایہ دار طبقے کی عورت بھی جو مزدور طبقے کے مرد اور عورت دونوں کے استحصال میں شریک ہے وہ بھی ان کے نزدیک ایک معصوم و مظلوم مخلوق بن جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں “سوشلسٹ” فیمنسٹوں کے سوشلسٹ ہونے کی قلعی پوری طرح کھل جاتی ہے۔ کون سا ایسا شخص حقیقتا سوشلسٹ ہو سکتا ہے جس کے نزدیک مزدور طبقے اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان طبقاتی جدوجہد مرکزی اہمیت نہ رکھتی ہو؛ جو عورت کو طبقاتی تقسیم سے بالاتر سمجھتا ہو اور جو یہ یقین رکھتا ہو کہ ملکیتی طبقے کی عورتیں مزدور طبقے کی عورت اور مرد کا استحصال نہیں کرتیں بلکہ خود مظلوم ہیں؟

البتہ سوشلسٹ فیمنزم اپنی اصلیت چھپانے کے لیے سوشلزم کے اکثر مخالفین کی طرح لفظ “سوشلزم” کو باقاعدگی سے اپنے سوشلزم مخالف بیانیے میں استعمال کرتا ہے تاکہ سوشلزم کی پلیٹ میں نیو لبرل ایجنڈہ کو چپکے سے آگے بڑھا سکے۔ لینن نے اس طریقہِ واردات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مارکسزم کی نظریاتی فتح نے اس کے دشمنوں کو مجبور کر دیا کہ وہ خود کو مارکسسٹ بنا کر پیش کریں۔ تاہم، بعض پاکستانی سوشلسٹ فیمنسٹ کم از کم اس حد تک تو کھرے ہیں کہ وہ سائنسی سوشلزم کے بانیوں کو زن بیزار (mysognyst) کہنے سے نہیں چوکتے! اور یقیناً  وہ فیمنسٹ تو ان سب سے اخلاقی طور پر بہتر ہیں جو کمیونزم کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں۔

تعجب ہے کہ ہمارے “سوشلسٹ” فیمنسٹ ایک جانب تو، مثال کے طور پر، غیر مخلوط تعلیم کے ناقد ہیں اور چاہتے ہیں کہ مرد و عورت کی جداگانہ تعلیم کا نظام ختم ہو اور ہر شعبہِ ذندگی میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہو، لیکن دوسری جانب سیاست میں انہیں مردوں اور عورتوں کی صنفی درجہ بندی اور صنفی علیحدگی درکار ہے تاکہ صنفی مساوات قائم کی جا سکے! ہمارے “سوشلسٹ” فیمنسٹ تمام دیگر شعبہ ہائے زندگی کے برعکس، نجانے کیوں سیاست میں مرد اور عورت کے درمیان موجود “پاکیزہ اور مقدس” صنفی پردے کو اسی طرح قائم رکھنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں جیسے ملائیت ہر شعبہِ ذندگی میں مرد و عورت کے درمیان پردہِ طہارت ٹانگ کر انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے پر بضد ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ عورت کے دوہرے استحصال (اجرتی غلامی اور گھریلو غلامی) کی تاریخی اور سائنسی توجیہ کا سہرا بھی کمیونزم کے سر جاتا ہے اور تاریخ میں پہلی بار عورت کے استحصال کے خاتمے کا سہرا بھی سوشلزم کے سر بندھا ہے۔ لیکن یہی کمیونزم و سوشلزم ہے جس پر زن بیزاری، عورت دشمنی، مردانہ بالادستی وغیرہ کو قائم رکھنے کی کوشش کرنے کے بے شرمانہ الزامات ان لوگوں کی جانب سے لگائے جاتے ہیں جنہوں نے عورت کی آزادی کا نعرہ ہمیشہ عورت کے جسمانی اور جنسی استحصال کے لیے لگایا ہے۔ سوشلسٹ تحریک کے علاوہ نہ ہی کسی کے پاس عورت کی آزادی اور برابری کی سائنسی تھیوری ہے اور نہ ہی سوشلزم کے سوا کسی اور نے آج تک کبھی عورت کی آزادی اور برابری کے دعوؤں  کو حقیقت میں ڈھالا ہے۔ سوشلزم کو عورت کی آزادی اور برابری کے لیے “فیمنزم” کی لبرل پیوند کاری کی کوئی ضرورت نہ پہلے تھی اور نہ ہی آج ہے۔ سوشلسٹوں کا نصب العین ہے کہ بلالحاظِ صنف مزدور طبقے کو سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ و برباد کرڈالنے کے لیے تیار کریں۔ سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کا خاتمہ پدرسری نظام اور عورت کے استحصال کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گا۔ اور یہ دعوی فیمنزم کی طرح اب تک ہنوز کوئی نظریاتی مفروضہ نہیں بلکہ عملی طور پر ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”سوشلسٹ فیمنزم کا ملغوبہ ۔۔شاداب مرتضی

  1. بھائی ۔ دل سوزی سے لکھا ہے آپ نے مگر آدھا سماج اس جبر کا شکار تو ہے جو باقی ان سے مبرا زادوں کے لیے منفرد ہے ۔ جبکہ اس نصف آبادی کے لیے مشترک ہے ۔
    آپ کا تاریخی مطالعہ کے حوالے جاندار مگر جب تک حقیقی کمیونسٹ ریاست عوام میں گھل مل نہیں جاتی تب تک عورتیں کیا کریں۔ یہ اہم سوال ہے۔۔۔
    مزاحمتی تحریک کی اجتماعی لہر میں موجود رہ کر اگر وہ صنف سے مخصوص، ناانصافی کو بھی بنیادی مسئلہ سمجھتی ہیں تو اس سے روکنے کیلئے یا تو ،۔۔۔۔ دوست ، انہیں اولیں اشتراکی ریاست کے مدرسری قصے اور مستقبل کی اس یوٹوپیائی ریاست کے گیت سنائے جائیں ۔ یا ، ۔۔۔۔ پھر دوسری صورت یہ ہے کہ مزدوروں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے ہزدور کے پھٹے کپڑوں پہ کبھی نہیں ہنستے ۔۔ حالانکہ کھربوں ڈالر فی سیکنڈ غازہ تیار کرتی اس دنیا میں پھٹے کپڑے ایک مضحکہ خیز صورتحال ہے تو عورتوں سے سے جڑے کچھ مسائل بھی ، خدمت ’نسوانیت ‘ کرتے ہوئے ، ہم اپنے سر لیکر انہیں صنفی ، جسمانی بنیاد پر فیمینزم جیسا الگ طبقہ بنانے سے روک نہیں سکتے کیاَ؟؟؟ مثلا ہم یہ کر سکتے ہیں کہ
    ۔۔۔۔ راہ چلتے مرد ایک تحریک چلائیں کہ چند لڑکیاں بنیں اور اور صبح سے شام تک لوگوں کی ملکیت بھری ہوس اور برتری سے گھورتی آنکھوں پر سر جھکا لیا کریں یا موڑ لیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یا پھر۔۔۔ کچھ مردوں کو بھی قرآن سے شادی کی قبیح رسم ادا کرتے ہوئے بہن کی خاطر جائیداد کو باہر جانے سے روکنا چاہیے۔۔۔۔ یا پھر عورتوں کے باہمی جھگڑوں میں جنسی ریپ کیلئے کچھ پروگریسو مرد خود کو پیش کریں ۔۔۔ گواہی سے ہوس نظری تک تماشا بننا عذاب لگتا ہے۔۔۔ یقین جانیے تمام تر حمایت نسواں کے باوجود میں یہ سب نہیں کر سکتا۔۔۔
    چلانے دیں انہیں تحریکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply